21

رسول خدا ص فرماتے ہیں جو بھی اس دعا کو پڑھے گا تو اس کے لئے جنت الفردوس میں گھر بنایا جائے گا

  • News cod : 44584
  • 01 مارس 2023 - 11:13
رسول خدا ص فرماتے ہیں جو بھی اس دعا کو پڑھے گا تو اس کے لئے جنت الفردوس میں گھر بنایا جائے گا
ایک واقعہ ملتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بڑے بیٹے اسماعیل کا ایک دوست تھا کہ جو نشہ کرتا تھا اور لوگوں کے نظر میں کافی بدنام تھا تو ایک بار جناب اسماعیل نے اسے پیسے دیئے تو وہ ان پیسوں کو کھا گیا

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ امام المنتظر قم میں حجت الاسلام استاد سید غضنفر فائزی نے درس اخلاق دیتے ہوئے کہا کہ پچھلے دو درس میں دو دعاؤں کے حوالے سے گفتگو ہوئی جیسا کہ ذکر ہوا کہ دعاؤں کا اصل منبع سید ابن طاووس کی کتاب اقبال الاعمال ہے اور اس کے بعد علامہ کفعمی کی کتاب البلد الامین ہے اس کے بعد علامہ مجلسی کی کتاب زاد المعاد ہے اور شیخ عباس قمی نے کتاب زاد المعاد سے ان مطالب کو نقل کرکے اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں ذکر کیا ہے
جناب کفعمی نے کتاب الذخیرہ سے ان مطالب کو نقل کیا کہ جس میں رمضان کے دنوں کی دعائیں اور ان کا ثواب ہے اصل میں یہ ابن عباس کی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول حدیث ہے جس میں رمضان کے دنوں کی دعائیں اور نمازیں اور ان کے ثواب کو بیان کیا ہے

آج تیسری دعا کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں
اللهُمَّ ارْزُقْنِی فِیهِ الذِّهْنَ وَ التَّنْبِیهَ وَ بَاعِدْنِی فِیهِ مِنَ السَّفَاهَةِ وَ التَّمْوِیهِ وَ اجْعَلْ لِی نَصِیبا مِنْ کُلِّ خَیْرٍ تُنْزِلُ فِیهِ بِجُودِکَ یَا أَجْوَدَ الْأَجْوَدِینَ
اے معبود! آج کے دن مجھے ہوش اور آگاہی عطا فرما مجھے ہر طرح کی نا سمجھی اور بے راہ روی سے بچا کے رکھ اور مجھ کو ہر اس بھلائی میں سے حصہ دے جو آج تیری عطاؤں سے نازل ہو اے سب سے زیادہ عطا کرنے والے

اس دعا کو پڑھنے کے ثواب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ جو بھی اس دعا کو پڑھے گا تو اس کے لئے جنت الفردوس میں گھر بنایا جائے گا اور اس گھر میں ستر ہزار نوارنی کمرے ہوں گے اور ہر کمرے میں ہزار تخت موجود ہوں گے جن پر حوریں بیٹھی ہوں گی اور ہر دن ملائکہ اللہ کی طرف سے اس کے ہدایا لائیں گے

اس دعا میں سب سے پہلے ذہن کی تیزی اور تنبیہ یعنی غفلت سے بیدار کرنے کی توفیق طلب کی جارہی ہے اس کے بعد سفاہت اور تمویہ کا سوال کیا جارہا ہے

سفاہت کا لغوی معنی
التسرع فی القول القبیح او فی الفعل القبیح
بری بات اور برے فعل کی طرف تیزی کرنے کو سفاہت کہا جاتا ہے
بعض نے یہ معنی ذکر کیا ہے
السفیہ الجاھل
جاہل شخص کو سفیہ کہا جاتا ہے
ایک جگہ اس طرح بیان ہوا ہے
السفہ الخفۃ والطیش
سفاہت سبک پن اور غصہ میں آجانے کو کہتے ہیں

اصطلاحی طور پر سفاہت دو جگہ مورد بحث ہے
ایک دنیاوی معاملات میں جیسا کہ قرآن کی آیت ہے
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ
اور ناسمجھ لوگوں کو ان کے اموال نہ دو
پس دنیاوی معاملات میں اگر کوئی شخص مال کو خرچ کرنے میں زیادہ روی کرے تو اسے سفیہ شمار کیا جائے گا اور چونکہ یتیم بھی سفیہ ہے اسی وجہ سے اسے مال دینے سے منع کیا گیا ہے سفیہ کو اس کی میراث یا اس کا مال دینے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ وہ اسے سفاہت کی وجہ سے غیر ضروری کاموں میں خرچ کرے گا فقہ میں سفیہ کے مقابلے میں رشید استعمال ہوتا ہے پس سفیہ اور رشید میں فرق کرنے کے لئے ان سے امتحان لیا جائے گا کہ ان کو کچھ مال دے دیا جائے گا اگر وہ اس مال کو اچھی جگہ استعمال کریں تو رشید ہیں لیکن اگر وہ اسے غیر ضروری اور فضول خرچی میں استعمال کریں تو سفیہ ہیں

دوسرا اخروی معاملات میں اس حوالے سے قرآنی آیت ہے
وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ
اور کون ہے جو ملّت ابراہیم علیہ السّلام سے اعراض کرے مگر یہ کہ اپنے ہی کو بے وقوف بنائے
یعنی جو بھی دین ابراہیمی سے روگردانی کرے گا وہ سفیہ شمار ہوگا
اسی طرح ایک آیت میں ہے
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ
جب ان سے کہا جاتا ہے کہ دوسرے مومنین کی طرح ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان اختیار کرلیں حالانکہ اصل میں یہی بے وقوف ہیں اور انہیں اس کی واقفیت بھی نہیں ہے
یعنی جو بھی اپنے آباو اجداد کے دین پر باقی رہے تو وہ آخرت میں سفیہ شمار ہوگا

روایات میں ہے
السفیہ کل السفیہ شارب المسکر
نشہ آور چیزوں کو استعمال کرنے والا سفیہ ہے
ایسے لوگ دنیاوی اور اخروی دونوں لحاظ سے سفیہ ہیں

ایک واقعہ ملتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بڑے بیٹے اسماعیل کا ایک دوست تھا کہ جو نشہ کرتا تھا اور لوگوں کے نظر میں کافی بدنام تھا تو ایک بار جناب اسماعیل نے اسے پیسے دیئے تو وہ ان پیسوں کو کھا گیا تو جناب اسماعیل امام کے پاس آئے اور تمام قصہ تعریف کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا قرآن مجید میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت بیان ہوئی ہے یومن باللہ و بالمومنین کہ وہ اللہ پر ایمان لائے اور مومنین کی باتوں کی تصدیق کرتے تھے تو جب تمہیں معلوم تھا کہ یہ شخص لوگوں کی نظر میں بدنام ہے تو تم نے اسے پیسے دینے سے گریز کیوں نہ کیا

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=44584