5

وہابیت ایک نیا مذہب ہے جو پہلے موجود نہیں تھا/ تکفیریوں نے شیعہ اور اہل سنت دونوں کو نقصان پہنچایا، علامہ علی اصغر سیفی

  • News cod : 46786
  • 30 آوریل 2023 - 18:25
وہابیت ایک نیا مذہب ہے جو پہلے موجود نہیں تھا/ تکفیریوں نے شیعہ اور اہل سنت دونوں کو نقصان پہنچایا، علامہ علی اصغر سیفی
مدرسہ امام المنتظر قم میں 8 شوال یوم انہدام بقیع کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی نے کہا کہ وہابیت ایک نیا مذہب ہے جو پہلے موجود نہیں تھا قدیم دور سے دو مذہب شیعہ و سنی چلے آرہے تھے لیکن یہ مذہب تیزی سے پھیلا شروع یہ مذہب اپنے سواء سب کی تکفیر کا قائل تھا ان کے نزدیک شیعہ و سنی میں کوئی فرق نہیں رکھتا جیسے ان کی تنظمیں داعش و طالبان نے فقط شیعہ کا قتل عام نہیں کیا بلکہ اہل سنت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق،مدرسہ امام المنتظر قم میں 8 شوال یوم انہدام بقیع کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی نے کہا کہ آج کا دن ایک مناسبت سے جڑا ہوا ہے آج کے دن وہابیت کی طرف سے جنت البقیع میں قبروں کو مسمار کیا گیا کہ جو ایک دردناک حادثہ ہے اس سلسلے میں امام زمانہ عج کو تعزیت و تسلیت عرض کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہابیت ایک نیا مذہب ہے جو پہلے موجود نہیں تھا قدیم دور سے دو مذہب شیعہ و سنی چلے آرہے تھے لیکن یہ مذہب تیزی سے پھیلا شروع یہ مذہب اپنے سواء سب کی تکفیر کا قائل تھا ان کے نزدیک شیعہ و سنی میں کوئی فرق نہیں رکھتا جیسے ان کی تنظمیں داعش و طالبان نے فقط شیعہ کا قتل عام نہیں کیا بلکہ اہل سنت کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور اگر کسی جگہ پر یہ شیعہ یا سنی کے ساتھ اکھٹے ہوگئے ہیں تو وہ ان کے سیاسی مقاصد کی وجہ سے ہے لیکن جیسے ہی انہیں طاقت ملی تاریخ میں اور دور حاضر میں بہت ظلم کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت بریلوی دیوبندی اور اہل حدیث فرقے موجود ہیں دیوبندیوں نے سپہ صحابہ جیسی تنظیم بنائی اور شیعہ کے دشمن ہیں کیونکہ صحابہ کی وجہ سے ان کی ہمارے ساتھ مڈبھیڑ ہے۔اہل حدیث جو ہیں وہ خاموشی سے کام کررہے ہیں انہوں نے اپنے برناموں کو منظم کیا ہوا ہے ان کے بڑوں میں احسان الٰہی ظہیر اور اس کے بعد بیٹے ابتسام الہٰی ظہیر وغیرہ کا نام آتا ہے ان کے نزدیک بھی شیعہ و سنی دونوں باطل ہیں سعودی عرب میں اس وقت ان کا زوال ہے مگر پاکستان میں شدت سے ابھر رہے ہیں دیوبندیوں اور اہل حدیث نے تبلیغی جماعت کا سلسلہ شروع کیا ہے اور ان کا مشہور عالم دین طارق جمیل کا تعلق اہل حدیث سے ہے اسی طرح انجینئر میرزا محمد علی اور مولانا اسحاق مدنی مرحوم کا بھی بظاہر اہل حدیث سے تعلق ہے ان کی خوبی یہ ہے کہ اہل مطالعہ و تحقیق ہیں جس کی وجہ سے لوگ متاثر ہوتے ہیں ان کے بیانات میں جاشنی زیادہ ہے ان کی آئیڈیا لوجی توحید ہے جو متاثر کن ہے اور جوان طبقہ متاثر ہورہا ہے۔

استاد حوزہ کا کہنا تھا کہ اب ہمیں یہاں کردار کرنا چاہیے لیکن ہم رسومات کا شکار ہوگئے ہیں اور ان علمی موضوعات کو چھوڑ چکے ہیں حالانکہ مکتب تشیع کے اندر علم کے خزانے ہیں باقی سب کھوکھلے ہیں اب یہی قبور کے مسمار کا مسئلہ قرآن و سنت سے حل ہونا چاہیے ان کے ۱۵ مفتیوں نے اس وقت ان کے گرانے کا فتوی دیا تھا ہمارے پاس بھی ایسی روایات موجود ہیں کہ جن میں قبروں کو پکا کرنا یا بڑا بنانا مکروہ ہے یا از سرے نو بنانا یا بنے ہوئے کو گرانا کیا حکم رکھتا ہے لیکن ان سب کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے علمی انداز میں بیان کرنے کی ضرورت ہے ہم علمی مقدمات کو پڑھتے ہیں لیکن اصل ذی المقدمہ علوم میں وارد نہیں ہوتے ہمیں تیار ہونا پڑے گا مثلا ہمارے نصاب میں کلامی کتاب تجرید الاعتقاد ہے کہ جسے خواجہ نصیرالدین طوسی نے لکھا تھا اور جس کی شرح علامہ حلی نے لکھی ہے اور اس کے علاوہ اہل سنت نے بھی شروحات لکھی ہیں جس کو پڑھنا ضروری ہے ایک دور میں حوزہ میں پڑھائی جاتی تھی لیکن نصاب تبدیل ہوا تو آیت اللہ جعفر سبحانی صاحب کی الالھیات پڑھائی جانے لگی جو تین جلدوں پر مشتمل تھی لیکن پھر اب اس کا ایک جلد کا خلاصہ پڑھایا جارہا ہے ہماری نصاب کی کتابیں مسلسل کم اور خلاصہ ہوتی جارہی ہیں حالانکہ دشمن اپنے مطالعہ اور کتابوں میں دن بدن اضافہ کررہا ہے جو ان کے تکامل اور ہمارے ضعف کی دلیل ہے نظام حوزہ میں ہم ہر چیز کو جبرا انجام دے رہے ہیں حالانکہ قربۃ الی اللہ انجام دینے کی ضرورت ہے شیخ رجب علی خیاط کہتے ہیں کہ کام تو کرنا ہی ہے تو کیا اچھا ہو کہ اسے قربۃ الی اللہ انجام دیا جائے انسان کی سوچ بہت اثر انداز ہوتی ہے ہر کام قصد قربت سے انجام دیا جائے اسکی بے پناہ برکات ہیں ۔انسان کو عبادت کے لئے خلق کیا ہے تو عبادت میں قربت ضروری ہے اور ہم اپنے ہر فعل کو عبادت بنا سکتے ہیں پرانے زمانے میں علماء بازاری لوگوں کو معاملات کے درس کے ساتھ اخلاق بھی بیان کیا کرتے تھے علم اخلاق انسان کے اندر کو سنواراتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسائل میں ہمیں معاملات کے مسائل کو زیادہ بیان کرنا چاہیے کیونکہ عام بازاری لوگ زیادہ تر انہی چیزوں میں مصروف ہیں دین میں ہر مسئلہ موجود ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم اس کا مطالعہ نہیں کرتے ہمیں علمی طور اور اخلاقی طور پر مضبوط ہونا پڑے گا۔ آیت اللہ مرتضی لنگرودی رح کے پاس ایک مہمان آیا کھانا نہیں کھایا کیونکہ کھانا ایسی جنس سے بنا کہ جسکے اگانے کے وقت کسان نے پانی لگانے کے مسئلہ میں ہمسائے سے انصاف نہیں کیا۔

کسانوں کو انکے کام سے متعلق مسائل بیان کیے جائیں، تاجروں کو انکے کام سے متعلق شرعی مسائل بیان ہوں یہ وظیفہ علماء ہے
اور ساتھ درس اخلاق کہ جسکی ہر انسان کو ضرورت ہے۔ علم نور ہے اور اس کے لئے ظرف کا پاک ہونا لازم ہے اور باقی تمام قیل و قال تمہید ہیں اس نور تک پہنچنے کے لئے
اسی وجہ سے علم کو حجاب اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے امام خمینی رح سے منسوب ہے کہ ایھا الطلاب فی المدرسۃ ،کلما حصلتموہ وسوسۃ اے مدرسے کے طالب علموں تم جو کچھ حاصل کرتے ہو وہ سب وسوسہ ہے علم نہیں ہے علم اس وقت ہوگا جب تم میں تواضع پیدا ہوگا نورانیت آئیگی۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=46786