8

سلسلہ دروس انتظار درس4

  • News cod : 48171
  • 17 ژوئن 2023 - 15:13
سلسلہ دروس انتظار درس4
موضوع :انتظار کی ضرورت ، انتظار دراصل ظہور کا پیش خیمہ، مستشرقین اور مغربی دانشوروں کے شیعیت میں انتظار پر تبصرے

موضوع :انتظار کی ضرورت ، انتظار دراصل ظہور کا پیش خیمہ، مستشرقین اور مغربی دانشوروں کے شیعیت میں انتظار پر تبصرے

استاد محترم آغا علی اصغر سیفی

خلاصہ:

ضرورت انتظار:
احادیث اور روایات کی رو سے امام زمانہ عج کا انتظار درحقیقت خود مولاؑ کے قیام کا پیش خیمہ ہے۔ یعنی یہ انتظار ہر صورت میں ضروری ہے۔ اگر یہ انتظار نہ ہو تو ہم ظہور کو موخر کرنے کا باعث بنیں گے یا اگر ظہور ہو جائے تو ہم کوئی کردار ادا نہیں کر پائیں گے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ زمانہ غیبت میں مومنین کے انتظار کو واجب قرار دیا گیا ہے۔

جیسا کہ منتخب الاثر ص 223 میں مشہور فرمان ہے:

” ان القائم مناھو المہدی الذی یحب ان ینظر فی غیبتہ و یطاع فی ظہورہ”۔

فرمایا:
قائم ہم میں سے ہیں اور قائم وہ مہدی ہیں کہ واجب ہے انکی غیبت میں ان کا انتظار کیا جائے اور جب وہ ظہور فرمائیں تو واجب ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے۔

بس انتظار ایک واجب فریضہ ہے اور اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ امام زمانہؑ عج کے ظہور و قیام کا پیش خیمہ ہے۔

در واقع انتظار وہ دورانیہ ہے کہ جس میں ہم نے منصوبہ بندی، تیاری اور اپنے پروگرام ترتیب دینے ہیں کہ کس طرح اپنے مقاصد کو حاصل کر سکیں۔

دنیا کے اندر ہر انقلاب آنے سے پہلے ایک زمانہ انتظار ہے اور یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ اگر انتظار سے پہلے انقلاب آجائے تو وہ پھر اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکتا۔
مثلاً بسا اوقات کوئی کام، کوئی تحریک شروع ہوتی ہے لیکن ان کی آپس کی لڑائیوں اور نفرتوں اور خواہشات نفسیانی کی بدولت وہ تحریک اپنے مقصد تک پہنچنے سے قبل ختم ہو جاتی ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک کامیاب انقلاب بپا ہو تو اس کے لیے ایک زمانہ انتظار ہے ۔

پروردگار عالم نے آخری شریعت کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے پانچ صدیاں لوگوں کو انتظار کرایا۔ یعنی حضرت عیسیٰؑ کو آسمان کی طرف اٹھائے جانے سے لیکر رسولؐ اللہ کے آنے تک یہ وہی زمانہ انتظار ہے۔ جس میں آخری دین اور نبی کا انتظار کیا گیا۔ انتظار درواقع اپنے اہداف کو حاصل کرنے کا پروگرام بنانا ہے۔

اس وقت زمانہ غیبت میں ہمارے اعمال کا معیار انتظار ہے ۔

عن ابی عبداللہ علیہ السلام انہ قال الا اخبر کم بما لا یقبل اللہ عزوجل من العباد عمل الابہ؟ فقلت بلی فقال۔۔۔۔ و انتظار القائم۔

امام صادق ؑ نے راوی سے فرمایا کیا تمھیں خدا کے اعمال کے قبول ہونے کا معیار بتاؤں؟ راوی نے عرض کیا ! جی ہاں۔۔
امام ؑ نے فرمایا :
وہ معیار یہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور قائم آل محمدؑ کا انتظار کرنا۔
الغیبتہ نعمانی ص 200

یعنی حتی امام صادقؑ کے زمانے میں بھی یہ فریضہ تھا کہ ان کے اعمال کا معیار بھی قائمؑ کا انتظار تھا۔ اور اب تو ہم قائمؑ کے زمانے میں ہیں اور ان کی غیبت کے زمانہ میں ہیں تو اب تو یہ فریضہ سب سے زیادہ جلوہ گر ہے۔

اور یہ انتظار ہی ہے جس کی وجہ سے شیعیت باقی ہے اور اس انتظار کی بدولت ہی شیعہ حرکت میں رہتے ہیں اور جدوجہد کرتے ہیں اور کریں گے۔اور اس کی بدولت ناامیدی سے بچے رہتے ہیں۔

*مغربی دانشوروں* نے بھی جب اسلام پر تحقیق کی تو اس بارے میں بھی قلم اٹھایا ہے۔ اگر ان کی تحریروں کو پڑھیں تو وہ تشیع کو بطور خاص توجہ دیتے ہیں۔

Hunry Corban
فرانس کا معروف اسلام شناس کہتا ہے:
عصر حاضر میں غیبت کے مفہوم اور غیبت کی حقیقت پر دقیق اور عمیق مطالعہ نہیں کیا گیا۔۔۔ میرے نزدیک اس حقیقت کا معنی یہ ہے کہ یہ حقائق کے معانی کا ایک لامتناہی اور ابدی سرچشمہ ہے۔۔ اسلام کی معنوی حیات اور اس کے دوام کا تصور صرف شیعہ تشریح سے ہی ممکن ہے اور اس سے اسلامی معاشروں میں آنے والے ہر قسم کے تغیر و تبدل کا حل ممکن ہے ۔ امام زمانہؑ عج وہ باکمال مفہوم ہے کہ جو غیبت کے مفہوم کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔ لیکن یہ مفہوم بطور کامل امام غائب کی شخصیت سے متعلق ہے میں مغربی فکر کو اپناتے ہوئے امام غائب کے مفہوم کو ایک نیا اور جدید مفہوم محسوس کرتا ہوں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے دل میں یہ الہام ہو رہا ہے کہ انسان کی معنوی حیات کا اس سے گہرا تعلق ہے (رسالت تشیع در دنیائے امروز سید محمد حسین طباطبائی مقدمہ ہنری کاربن صفحہ 25 تا 35۔ )

Jaimse Darnwster
فرانس کا ایک اور مشہور مستشرق اس کے بارے میں کہتا ہے:

بغداد کے نزدیک حلہ شہر واقع ہے جہاں پر ہر روز نماز عصر کے بعد سو 100 افراد ننگی تلواروں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار ہو کر جاتے تھے اور شہر کے حاکم سے ایک سجا ہوا گھوڑا لاتے تھا اور۔۔ بلند آواز سے کہتے تھے۔
” اے صاحب الزمان عج تجھے خدا کا واسطہ اب آجاؤ۔”
وہ یہ بھی لکھتا ہے:
کہ وہ ملت جسے ایسے جذبات کے ساتھ پرورش دی گئی ہو اسے قتل تو کیا جاسکتا ہے لیکن اپنا فرمابردار نہیں بنایا جاسکتا۔

Marbin
جرمن محقق ماربین کہتا ہے:
شیعت کی کامیابی اور امید کا ایسا سبب جو سماجی مسائل کا اہم رکن ہے وہ اس مکتب کا امام عصر کے وجود پر اعتقاد اور ان کے ظہور کا انتظار۔
اسلام ماربین فصل ہفتم فلسفہ مذہب شیعہ ص 49 تا 50

ای بی پیٹر و شفسکی سابقہ سوویت یونین کا تاریخ دان اور ایران پر تحقیق کا ماھر اس بارے میں لکھتا ہے کہ :
وہ لوگ جو مہدی کے منتظر ہیں اور جنہوں نے تیرھویں صدی میں ایران کی محتلف تحریکوں کو اٹھایا وہ عظیم مرتبہ کے مالک ہیں لیکن چودہویں صدی عیسوی میں یہ عقیدہ بہت راسخ اور ملوس ہوگیا۔
نھضت سربدارا ن خراسان ، پیٹر شفسکی۔ ۔۔۔۔۔

ان جملوں کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا عقیدہ انتظار کو دوسری دنیا کے ماہرین نے بھی درک کیا ہے۔ اور اس عقیدہ انتظار کو اہمیت دی۔ کیونکہ یہ ہمارا عقیدہ انتطار اور یہ ہمارا عمل انتظار اصل میں تبدیلوں کا آغاز ہے۔

ہم اگر امام ؑ کا ظہور چاہتے ہیں اور ظہور کے ذریعے دنیا کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو انتظار وہ دورانیہ ہے کہ جس میں ہم نے خود تبدیل ہونا ہے۔ اپنے اہداف، پروگرام اور حرکت کے ذریعے۔

انتظار تربیت گاہ ہے اور پیش خیمہ ہے ایک بہت بڑے قیام کا اس پر توجہ سے غور و فکر کی ضرورت ہے اور ایک اس انتظار کے مطابق ایک عملی زندگی گذارنے کی ضرورت ہے ۔

پروردگار عالم ہم سب کو توفیق دے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=48171