18
علامہ قاضی نیاز نقوی مرحوم کا خصوصی انٹرویو:

ہمارے استاد آیت اللہ العظمی  فاضل لنکرانی  اور آیت اللہ نوری  ھمدانی تھے/ امام خمینیؒ کے حامی ہونے کی وجہ سے ایران سے نکال دیے/امام خمینی ؒ  کی خدمت میں  بھی کئی بار  حاضری دی

  • News cod : 4934
  • 06 دسامبر 2020 - 18:00
ہمارے استاد آیت اللہ العظمی  فاضل لنکرانی  اور آیت اللہ نوری  ھمدانی تھے/ امام خمینیؒ کے حامی ہونے کی وجہ سے ایران سے نکال دیے/امام خمینی ؒ  کی خدمت میں  بھی کئی بار  حاضری دی
حوزہ ٹائمز|رہبر معظم  حضرت آیت اللہ العظمی سید علی  خامنہ ای دامت برکاتہ جب صدر تھے  اس وقت سے ہمارے روابط تھے،  اور آنا  جانا تھا جب میں خرم آباد میں جج تھا  تو رہبر معظم صداراتی دورہ پر وہاں تشریف لاے تھے، جب جانے لگے تو انہیں کے ساتھ میرا تھران جانا ہوا.

حوزہ ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جامعۃ المنتظر لاہور کے پرنسپل اور ملی یکجہتی کونسل پاکستان اور وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے نائب صدر علامہ قاضی سید نیاز حسین نقوی سیاسی و مذہبی امور پر گہری نظر رکھتے تھے، مختلف معاملات میں وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کی ترجمانی بھی کرتے رہے۔ سیاست میں بھی دلچسپی رہی۔ سیاسی بصیرت کی بدولت مختلف سیاسی جماعتوں کے اجتماعات میں جامعہ کی نمائندگی کرتے رہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر بھی ملت جعفریہ کی موثر آواز تھے۔

علامہ قاضی نیاز نقوی ایران کے صوبہ لرستان، خوزستان اور قم میں جج کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔

آپ 29 اکتوبر کو قم کے مقامی ہسپتال میں انتقال کرگئے اور آج 6 دسمبر کو انکا چہلم ہے۔ اسی مناسبت سے حوزہ ٹائمز اپنے قارئیں کی خدمت میں ان کا ایک یادگار انٹریو پیش کر رہی ہے۔

سوال: جب آپ قم المقدس میں تشریف لاے تو آپ کے اساتذہ  کون کون تھے  اور انکا علمی مقام کیا تھا ؟

جب میں پاکستان سے  قم آیا تو میں شرح لمعہ و اصول الفقہ مکمل کرکے  آیا تھا  ایرانی تاریخ کے مطابق  سن 1350  میں اس وقت حوزہ  کی جو روش تھی  اور شاہ کا زمانہ تھا   اور حوزہ اس طرح منظم نہں تھاجیساکہ آج منظم ہے ، جب ہم حوزہ میں آے تو اس وقت مراجع کا آپس میں  اتفاق و اتحاد تھا  اس زمانے میں آیت اللہ العظمی گلپایگانی  کا شمار  بزرگ مراجع میں ہوتا تھا  ان کے بعد آیت اللہ شریعت مداری اور  آیت اللہ  مرعشی  مشہور و معروف مراجع تھے  اس وقت شھریہ  آیت اللہ امام خمینی ؒ  آیت اللہ العظمی  خوئی ؒ   آیت اللہ العظمی  خوانساری ؒاور باقی  مراجع جو قم المقدس میں تھے  سب کا  ملتا تھا ، امتحان تمام مراجع کا  ایک ہی ہوا کرتا تھا  اور  اس وقت  مراتب ہوتے تھے رتبہ اول ، رتبہ دو ،رتبہ سوم۔ رتبہ اول :  ابتداء  سے لیکر  شرح لمعہ و اصول الفقہ کا تھا جوسوم کا طالب علم  لمعہ  و اصول الفقہ کا امتحان  دے دیتا تھا وہ رتبہ دو کا طالب علم  کہلاتا تھا ،اور  جو طالب علم  رسائل و مکاسب  کفایہ کا امتحان دے دیتا وہ  رتبہ  کہلاتا تھا  جب میں لاہور سے یہاں  آیا تو میں نے رتبہ دوم کا امتحان دیا جس میں لعمتین اور اصول الفقہ اور قوانین اور اعتقادات میں شرح تجرید جو علم کلام کا حصہ  اور تفسیر سورہ حجرات ان سب  کا  امتحان اس میں شامل تھا امتحان کے بعد ہمارا شہریہ رتبہ دوم کا ہوا ۔ لیکن حوزہ علمیہ قم  میں ہم نےشرح لمعہ اور اصول الفقہ  قوانین  کو مختلف اساتذہ کے پاس جا کردہرایا  ہمارے معروف  استاد  آیت اللہ  سخندان   تھے۔ لیکن رسمی طور پر ہم نے رسائل و مکاسب  و کفایہ  کے دروس  کو شروع کیا  کفایہ میں ہمارے استاد مرحوم آیت اللہ العظمی  فاضل لنکرانی  اور آیت اللہ نوری  ھمدانی تھے  پہلی جلد  اگر  آیت اللہ  فاضل پڑھا رہے تھے  تو دوسری  جلد آیت اللہ نوری ھمدانی   یا اس کے بر عکس  تو ہم نے ان سے کافی زیادہ استفادہ کیا  کفایہ میں میں نے زیادہ استفادہ آیت اللہ فاضل سے کیا اور  آیت اللہ اعتمادی سے اور رسائل کا درس اورہمارے مکاسب کے استاد   آیت اللہ  سید ابو الفضل موسوی تبریزی اور آیت اللہ ستودہ جو کہ معروف استاد   تھے۔

کچھ حصہ ہم  نے ان سے اور کچھ حصہ  مکاسب کا ہم نے  آیت اللہ حرم پناہی سے پڑھا  قوانین کے مشھور استاد  آیت اللہ دوز دوزانی تھے جن سے ہم نے قوانین پڑہی  شرح منظومہ  میں ہمارے استاد  آیت اللہ محمدی گیلانی تھے ، کچھ حصہ ان سے تو کچھ حصہ  آیت اللہ انصاری شیرازی سےپڑھا  مرحوم آیت اللہ  شہید مطھری ؒ  جمعرات و جمعہ کو تہران سے قم تشریف لاتے تھے  اور مدرسہ  الرضویہ میں نماز مغرب کے بعد درس منظومہ  دیتے تھے

لیکن اس وقت مراجع کا اتحاد و اتفاق نہں رہا اور  ہم تمام مراجع کا امتحان  الگ الگ دیا  اور رتبہ سوم  حاصل کیا،  ہمارے زمانے کے طالب علم حضرات میں سے شہید عارف الحسینی  جو کہ ہمارے بعد میں قم تشریف لاے ہمارے زمانے سے پہلے   قم میں آنے والے طلاب  جو تھے  ان میں سے  علامہ  حافظ سید محمد سبطین ؒ  علامہ حیدر علی ، علامہ  محمد رمضان غفاری  ان کے بعد ہم  قم میں آے  اس وقت ہماری تعداد آٹھ سے دس افراد پر مشتمل تھی شاہ کے دور میں ہم نے سطح مکمل کی  آیت اللہ فاضل کا کفایہ کا آخری دورہ تھا پھر  آپ نے درس خارج شروع کیا  تو آپ کے اصول کے درس خارج میں ہم شریک ہوے  اس زمانے میں آیت اللہ گلپایگانی  اور آیت اللہ شریعت مداری بھی  درس فقہ دیا کرتے تھے۔ تو ہم ان کے دروس میں بھی شریک ہوا کرتے تھے علامہ سید ساجد علی نقوی جب نجف سے قم تشریف لاے تو ہم دونوں ان کے دروس میں اکھٹے شریک ہوا کرتے تھے لیکن ہمارے  درس خارج کے بنیادی استاد تھے  وہ آیت اللہ فاضل  اور مرحوم  آیت اللہ شیخ جواد تبریزی  جو کہ مکاسب  کا درس خارج  دیتے تھے  ان کے دروس میں شریک ہوتے اور تقریبا  چار پانچ سال ان کے دروس میں شریک ہوتے رہے  ان کے علاوہ  آیت اللہ وحید خراسانی  اس وقت مسجد سلماسی  میں درس اصول  دیا کرتے تھے  انکی خدمت میں بھی دوسال کسب فیض کیا،

سوال: قم میں قیام کے دوران آپ کا پاکستان میں تبلیغی سفر کیسا رہا؟

ہمارے دور میں  یہ رسم نہیں تھی  کہ ہر سال  طالبعلم  سفر کرے  اور اپنے ملک چلا جاے  بلکہ نجف اور قم میں یہ رسم تھی  ایک ہی مرتبہ تعلیم مکمل کر کے  واپس جائیں ہم بھی جب آے تھے تو پہلی بار چار یا پانچ سال کے بعد  پاکستان گے تھے  وہ بھی ایک مہینے کیلے اس دوران کوئی  تبلیغی  سفر نہیں کیا کیونکہ شاہ کہ آخری سالوں میں کافی مظاہرے ہوتے تھے تو ہم بھی اس میں شریک ہوتے تھے اس زمانے کی انتطامیہ  کو یہ خبر دی گئ کہ یہ لوگ بھی مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں  شاہ کے خلاف  اور یہ سب آیت اللہ خمینیؒ کے حامی ہیں اور انکی ترویج کرتے ہیں۔  تو اس سلسلہ  میں انتطامیہ نے  ہمیں طلب کیا  اور کہا  آپ ایران میں نہیں رہ سکتے  اور انہوں نے ہمیں نکال دیا  یہ بات انقلاب سے ایک سال پہلے کی بات ہے کہ ہمیں خروجیہ دے کر نکال دیا گیا تھااس کے  ساتھ اذیت و آزار بھی دیا گیا، جب ہم پاکستان واپس گے تو  سب سے پہلے سمنہ آباد کی  ایک مسجد تھی  اس میں ماہ رمضان  کیلے پیش نمازی  کرائی  اور ساتھ ساتھ جو لوگ انقلاب میں شہید ہوتے انکی مجالس ترحیم کا اہتمام علامہ سید صفدر حسین نجفی کہ جانب سے کیا جاتا   اور ہمارے تمام پروگراموں  کا حصہ ہوتا  پہر اس کے بعد علامہ سید صفدر حسین نجفی نے ہمیں چیچہ وطنی  بھیجا کہ وہاں پر مدرسہ ہے  اور وہاں پر جاکر معلوم ہوا  شیخ صاحبان ہیں  جو چیچہ وطنی  کے تھے  انہوں نے ہمیں ایک دوسرے فلور پر مکان دیا  رہائش کیلے  پھر اگلے دن معلوم ہوا کہ  وہاں کوئی مدرسہ نہیں ہے بلکہ ایک  زمین ہے جسکو مدرسہ کیلے وقف کیا گیا ہے  بھرحال میں نے ہمت نہ ہاری  اور مسجد و مدرسہ کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر دیا  اور یہ مدرسہ شہر سے تقریبا  دو تین کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھی۔ اس وقت ابتدائی طور پر پانچ  چھ کمروں کی تعمیر شروع کروائی  خدا رحمت کرے شیخ عزیز کے بھائی رضا  صاحب پر  کہ انہوں نے زیادہ تر پیسہ مدرسہ پر خرچ کیا  اور کچھ پیسے ہم نے جمع کیے ،  شہید مولانا غلام حسین نعیمی ؒنے اپنا خمس  نکالا اور مدرسہ میں جمع کروایا ، جب مدرسہ تیار ہوا تو انقلاب اسلامی بھی اپنے آخری مراحل میں تھا،   تو ہم نے بچوں کو وہیں پر رکھا اور ایک نیو پاسپورٹ بنوایا  اور پھر ایران واپس آ گیا ، پھر جو تحریکیں اور کوششیں انقلاب کے حوالے سے جاری و ساری تھی اس میں شریک ہو گے، یہاں ےکہ جب امام خمینی  رح  نے پیرس سے ایران آنا تھا  تو ہم تھران  میں امام خمینی رح  کے استقبالیہ پروگرام میں شریک ہوے  انقلاب کے ایک  دو ماہ بعد  میں پھر پاکستان گیا  اور چیچہ وطنی  کے مدرسہ کو ھم نے  سرو سامان دیا اور طالب علم لاے،  اوردرس و تدریس  کا سلسلہ شروع کیا، جوکہ کچھ عرصہ جاری رہا پھر میں نے اپنے قریبی دوست  علامہ محمد رمضان غفاری صاحب کو جو اسوقت خوشاب مدرسہ میں مدرس تھے  انہیں دعوت دی اور مدرسہ ان کے سپرد کیا  اور ایران واپس آگیا :

سوال:  جب آپ ایران واپس آے تو آپ کی کیا مصروفیات تھی؟

واپس آنے کے بعد ماحول کافی حد تک بدل چکا تھا حالات تبدیل ہو گے تھے جس طرح انقلاب  سے پہلے ہمارے  اپنے اساتذہ  سے گہرے روابط تھے جن میں  سے آیت اللہ مشکینی  انقلاب سے پہلے  ان کے پاس آنا جانا رہتا تھا  انقلاب کے بعد  بھی اسی طرح کا سلسلہ باقی رہا  آیت اللہ فاضل  ہمارے ساتھ بہت محبت کیا کرت تھے ان کے ساتھ ہمارا آنا جانا ہوا انقلاب کے بعد  بھی  ہم انکی خدمت میں جاتے تھے  اور کہتے تھے کہ انقلاب کے حوالے سے ہم کیا خدمات انجام دے سکتے ہیں:

سوال: آپ کی انقلاب کے بارے میں کیا مصروفیات تھی؟

ایک تو انقلاب کے دوران امام خمینی رح کی تقاریر کو سننا اور پھر اسکی نشر واشاعت کرنا  انکی تصاویر  کی نشرو اشاعت کرنا  اور پاکستان میں انکو نقل کرنا اس سلسلہ کا انتظامیہ کو جب پتہ چلا تو  انہوں نے ہمیں نکال دیا تھا  اور پاکستان کے  اندر ہی امام خمینی  ؒ کے میشن کو آگے  بڑھنا  اسکی تبلیغ  اور انقلاب  کی نشرو اشاعت کرنا  مساجد  میں شہداء انقلاب کیلے مجالس تراحیم کا انعقاد کرنا شامل تھے، انقلاب کے بعد ہم نے کوشش کر کے قم کے اندر ایک ماھنامہ نکالا اردو زبان میں جھاد کے نام سے  جس میں مولانا حسن رضا صاحب، مولانا فیاض صاحب اور مولانا امیر حسین حسینی وغیرہ اور بعد میں مولانا محمد تقی نقوی صاحب ملتان والے وہ بھی کچھ عرصہ ہمارے ساتھ رہے اس کام کیلئے ہم نے   ایک دفتر کرائے پر لیا  ہم نے بنایا  جس میں  ہم نے  کو شش کی انقلاب کا تعارف  کروایا جائے  اور یہ جد و جہد  جاری رہی  اور انقلاب کے سلسلہ میں ہمارا پہلا فرہنگی کام ،انقلاب کی اخبار جو کہ جہاد کا اجر و ثواب رکھتا تھا  اس میں ہم مضامین لکھتے تھے اور پاکستان بھیجتے تھے۔

انقلاب کے بعد یہاں پر ایک مدرسہ عالی قضائی کھولا گیا اس وقت ضرورت تھی کہ باب قضا و قضاوت کے سلسلہ  میں کچھ علماء کو تیار کیا جاے  جو قاضی بنے تو مرحوم آیت اللہ شہید بہشتی ؒ  ایک مدرسہ کھولا جو یونیورسٹی  کے عنوان  سے جس کا نام تھا  مدرسہ  عالی قضائی  و تربیتی  دوحصوں میں تقسیم ہوتا تھا  ایک قضائی جس میں قضاوت کا کورس  اور دوسرا تربیتی  کورس  ان لوگوں کیلے جو اسکولوں اور کالجوں  میں تربیتی کورسز  کریں، اس وقت ہم ان اساتذہ کے ساتھ منسلک تھے  جن میں آیت اللہ   مومن  جو اس وقت بھی موجود ہیں  یہ اس وقت بھی عدلیہ کے ساتھ  منسلک تھے، اور شہید قدوسی  ؒ کے ساتھ  انقلاب سے پہلے بھی ہمارے روابط تھے اور وہ اس وقت مدرسہ حقانی کے پرنسپل تھے  ہمارا انکے ساتھ آنا جانا تھا اور کچھ عدلیہ کے امور انکے سپرد بھی تھے پھر ہم نے ان اساتذہ کے ساتھ کافی نشستیں کی  کہ انقلاب کیلے کیا خدمات انجام دے سکتے ہیں تو یہ بات طے ہوئی کہ کچھ لوگ  اس مدرسہ میں جائیں اور  دورہ کو دیکھے  اسوقت یہ دورہ ایک سال کا ہوا کرتا تھا اس کے بعد باقاعدہ اعلان ہوا کہ جو طالب علم  رسائل و مکاسب و کفایہ  پڑھ چکا ہے  اور کچھ عرصہ درس خارج میں بھی رہ چکا ہو  تو وہ اس دورہ میں شریک ہونے کیلئے داخلہ کرائے تو  سات سو طالب علموں نے شرکت کی  جس میں رسائل  و مکاسب  کے علاوہ نہج البلاغہ  تاریخ و تفسیر  بھی شامل تھے ہم نے بھی اپنے اساتذہ کے مشورہ پر اس میں شرکت کی اس وقت سات آٹھ سو طلاب میں سے 61 طالبعلم پاس ہوے  جن میں سے میں بھی تھا ، پھر ان 61 افراد کا شفاہی امتحان ہوا جس میں سے 42 افراد منتخب ہوے ان افراد میں میں بھی شامل تھا ، ایک سال کا دورہ قضائی دیکھا  اس دورہ کے اساتذہ  میں آیت اللہ مشکینی ؒ  فقہ قضا پڑھا رہے تھے  آیت اللہ جواد آملی ؒ  آیات قرآن  جو کہ حدود کے بارے میں تھا پڑھا رہے تھے  آیت اللہ  آذری  قمی  قضا کا درس  دیتے تھے ،  اور آیت اللہ موسوی تبریزی ؒ  امام خمینی ؒ کی کتاب تحریر الوسیلہ  سے معاملات  کا درس خارج  دیتے تھے  اس دورہ کے دوران میرا نقطہ نظر یہ  نہ تھا کہ قاضی بنو  میں نے اساتذہ کے مشوروں کو دیکھا اور اساتذہ نے مجبور کیا آپ حتما یہاں خدمات انجام دیں  اور امام خمینی ؒ  کا فتوی ہے جو لوگ خدمت کر سکتے ہیں  اور وہ خدمت نہ کریں ان کیلئے  جائز نہیں ہے تو  مدرسہ قضائی سے فارغ ہو کر جب ہم قضاوت کے  مقدماتی امور دیکھنے کیلئے تہران گے تو اسی رات ہی حزب جمہوری میں دھماکہ ہوا جس میں شہید بھشتی ؒ  اور 72  افراد  شہید ہوے  حالانکہ طے یہ تھا کہ اگلے  دن شہید بہشتی  ہمیں درس دینے کیلے تشریف لایئنگے، اس رات آیت اللہ شہید قدوسی ؒ  جہنوں نے حزب جمہوری کی میٹنگ میں شریک  ہونا تھا  ہماری وجہ سے ہمارے ساتھ رات دو بجے تک بیٹھے رہے  اور جب وہ یہاں سے جانا چاہتے تھے  تو حزب جمہوری حادثے کا شکار ہو چکا تھا  اس کے بعد ہمیں تقسیم کیا گیا  قضاوت کے سلسلہ میں مقدماتی امور کو دیکھنے کے لئے مختلف علاقوں میں بھیجا گیا ،  مجھے صوبہ خراسان میں بھیجا گیا  دو مہینے میں وہاں رہا تربت حیدریہ گناپادر طوس ، طبس  جب میں وہاں سے واپس آیا  تو منصرف ہو گیا  میں نے دیکھا  قضاوت کا کام بہت مشکل ہے میں اس  میں وارد بھی ہونا چاہتا تھا  اور میں نے رجوع بھی نہیں کیا ایک دن آیت اللہ مومن  نے مجھے راستے میں دیکھا اور بلا کر کہا یہ آپ کی شرعی ذمہ داری ہے، انہوں نے مجھے نصیحت کی  اور فرمایا ، یہاں ہمیں بہت ضرورت ہے  آپ جائیں انہوں نے مجھے مجبور کیا اور بامر مجبوری  میں عدلیہ  واپس آگیا۔

سوال: عدلیہ میں جو آپ کے مراحل رہے اس سلسلہ میں  وضاحت فرمائیے؟

جواب۔  عدلیہ میں جو میں نے وقت گزارا  اور جب کام کرتا تھا  تو اس میں بہت زیادہ مشکلات تھی  میں نے بچوں کو  وصیت کی تھی  کہ کوئی بھی اس میں وارد نہ ہو  عدلیہ میں لوگوں کا مال ناموس وغیرہ  یہ سب  کا سب عدلیہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے  تھوڑی سی لغزش   ہو جائے تو حق الناس میں شامل  ہے  اس وقت میری عدلیہ کی سروس 37 کی ہے  عدلیہ کے پہلے 10 ، 15 سال بہت  زیادہ سخت  اور خطرناک تھے  اس وجہ سے کہ انقلاب کے فورا بعد منافقین   اور مخالفین  بہت زیادہ  دہشتگردی پھیلا رہے تھے ہر روز  جگہ جگہ  بمب  رکھنا لوگوں کا قتل عام کرنا  اس وقت  صحیح معنوں میں عدالتوں  میں جج بہت کم تھے  اور ساتھ کام کرنے والے لوگ بھی کم تھے،  میرے علاوہ  کچھ  لوگ اور بھی تھے کہ جو 24 گھنٹوں میں سے 17 گھنٹے  کام کیا کرتے تھے،۔ اور چار پانچ گھنٹے  آرام کرتے تھے،  میں اس وقت تین صوبوں کا جج تھا  انقلاب کے بعد  جونہی عدالتیں وجود میں آئی تھی،  جنہیں دادگاہ انقلاب کا نام دیا گیا تھا  جس میں بڑے بڑے کیس حل کیے جاتے لیکن میں نے امن و آمان کو بحال کرنا او ر جتنے بھی سخت کیسز ہوتے تھے  اس عدالت میں وہ مجھے دے دییے جاتے، جس طرح انسداد  دہشتگردی کی خصوصی عدالت  ایک ہی وقت میں صوبہ ہمدان کا کچھ حصہ میرے پاس تھا  صوبہ خوزستان اراک  او ر صوبہ لرستان کے اکثر  حصے میرے پاس تھے ،  خرم آباد بروجرد  الیگودز  کہ جس میں حقیقتا  چار پانچ افراد کی ضرورت تھی، لیکن میں ان میں اکیلا تھا  باقی صوبہ بھی میرے پاس تھے  صبح کی نماز سے لیکر ظھر کی نماز تک مصروف  رہتا  پھر نماز کے بعد کھانا کھانے کے بعد دوبارہ مصروف  ہو جاتا یہاں تک کہ نماز مغرب کا وقت ہو جاتا نماز مغرب کے وقفہ کے بعد  اور کھانا کھانے کے بعد پھر رات بارہ بجے تک مصروف رہتا تین شیفٹوں میں کام کرتا تھا، یہ سلسلہ تقریبا 10 سے 15 سال تک جاری رہا ان علاقہ جات میں سے صوبہ خوزستان سب سے بڑا تھا  جس میں ہماری بارہ تیرہ عدالتیں واقع تھیں،  سارا صوبہ   میرے ہاتھ میں تھا  اس کے بعد قم المقدس میں مجھے بھیجا گیا  جس میں  تقریبا 25 سال کا طویل عرصہ گزارا اس شہر میں کوئی بھی شخص اتنی سروس نہیں کر سکا تھا  بہرحال پہلے دس  پندرہ سال بہت مشکل  سے گزرے تھے۔

سوال:  قضاوت کے  دوران  اعلی سیاسی و مذہبی شخصیات  کے ساتھ  آپ کے روابط اور تعلقات  جیسے   امام خمینی رح  و رھبر انقلاب ؟

انقلاب کے بعد  جو بھی اہم شخصیات  رہی ہیں  سب کے ساتھ ہمارے تعلقات و روابط رہے ہیں یہاں تک کہ  امام خمینی ؒ  کی خدمت میں  بھی کئی بار  حاضری دی، ان کے علاوہ شہید بہشتی اگرچہ وہ کم عرصہ  رہہے ہیں،  ان سے بھی ہم نے دو تین ملاقاتیں کی ہیں  جب مدرسہ عالی قضائی  میں تھے ،  انہوں نے ہی اسکی بنیاد رکھی تھی ۔ شہید باھنر سے بہت زیادہ ملاقات ہوتی تھی،  آپ اس طرح سمجھ لیں کہ  اگر  انسان  کسی کام میں ہوتا ہے تو  اس سے منسلک  جو بھی افراد ہوتے ہیں ان کے ساتھ روابط  ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ  آمد و رفت  ہوتی رہتی تھی، سب بزرگان سے ہمارے روابط ہوتے تھے  حتی رہبر معظم  حضرت آیت اللہ العظمی سید علی  خامنہ ای دامت برکاتہ جب صدر تھے  اس وقت سے ہمارے روابط تھے،  اور آنا  جانا تھا جب میں خرم آباد میں جج تھا  تو رہبر معظم صداراتی دورہ پر وہاں تشریف لاے تھے، جب جانے لگے تو انہیں کے ساتھ میرا تھران جانا ہوا  اور ان کے علاوہ چیف جسٹس آیت اللہ موسوی اردبیلی  کے ساتھ  ہمارے  روابط تھے اور اسی طرح آیت اللہ یزدی اور آیت اللہ شاہرودی کے ساتھ بھی ہمارے گہرے تعلقات تھے، اس قضاوت کے دوران جو ایک نکتہ قابل ذکر ہے  وہ یہ ہے  کہ اب جو اس وقت ایران میں امن و آمان  بحال ہے ہمارے شعبہ میں  عدلیہ صحیح معنی میں  حاکم تھی  ایسا نہں تھا کہ کسی ایک پارٹی  کی طرف کہا جاتا ہے کہ یہ صدر کی طرف سے حکم ہے  یہ کام ایسے ہو جائے۔

میں یہاں پر  ایک اہم واقعہ ذکر  کرنا چاہو گا ،  میں جب صوبہ لرستان کا جج تھا تو اسی کے شہر بروجرد میں  ایک گھرانہ ایسا  تھا جوکہ دہشتگردی میں  ملوث تھا، یعنی انکا دھشتگرد لوگوں کے ساتھ رابطہ تھا  اور انکا ایک آدمی  عدلیہ میں گرفتار تھا  تو اس سلسلہ میں  ایک دفعہ مجھے فون آیا آیت اللہ صانعی  کا جو کہ اس وقت وعدلیہ میں دادستان  کل کشور تھے  تو فرمایا  اس آدمی کے بارے میں جس کو ہم نے گرفتار کیا ہوا تھا  اور اس کا کیس میرے پاس عدالت میں چل رہا تھا  آیت اللہ صانعی  کو دفتر امام خمینی ؒ سے فون کیا  تھا  کہا اس کیس کو ملاحظہ کے ساتھ دیکھیے گا  تو کچھ مدت بعد میں نے آیت اللہ صانعی کو  فون کیا  کہ اس شخص کے بارے  کیا کرنا ہے  تو آیت اللہ صانعی  نے مجھے فرمایا میں آپ کو فون کر کے بتاتا ہوں پھر آپ نے فون کر کے فرمایا  یہ شخص جو گرفتار ہے آپ کے پاس  امام خمینی ؒ کے صاحبزادے آقا احمد خمینی کی بیگم کے رشتہ داروں میں  سے ہے  لیکن امام خمینی ؒ  نے فرمایا ہے اگر قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اسکی کوئی مدد ہو سکتی ہے تو  ٹھیک ہے  ورنہ اس عنوان سے کہ وہ ہمارا رشتہ دار ہے  یا ہمارے ساتھ منسلک ہے  آپ کوئی رعایت نہ کریں، یہ ہمارے  لیے ایک مہم نکتہ تھا کہ امام خمینی ؒ نے  کسی بھی اپنے رشتے دار کی سفارش نہیں کی بلکہ فرمایا  عدالت دستور جاری کرے۔

سوال:  سنا گیا ہے کہ آپ عدلیہ سے تنخواہ نہں لیتے تھے ؟

جواب: جب ہم عدلیہ میں گیا  اس وقت حکومت کے پاس فنڈ نہں تھا جنگ مسلط تھی  ملک کے اخراجات  زیادہ تھے  پھر حقیقت بھی یہ تھی کہ میں اور جو لوگ عدلیہ  میں گے  ایک شغل کے طور پر نہں گے  بلکہ ہمارا قصد  قربہ الی اللہ کام کرنے کیلے گے  کئی مھینے ہم نے کام کیا کسی نے نہں پوچھا  کہ اسکی تنخواہ ہے یا نہں  اور ہم نے متعقلہ ادراے سے بھی رجوع نہں کیا جو تنخواہ دینے والے تھے صرف میں نہں ہمارے  سبھی ساتھی  کہ جو کام کر رہے تھے  کہ اس کے بدلے میں ہم نے کچھ نہیں لینا  اسکو بھی ہم ایک حوزوی کام سمجھتے تھے۔

سوال: عدلیہ کے حوالے اسے آخری سوال یہ ہے کہ عدلیہ کے اس 27 سال عرصے میں آپ کے ذہن میں کوئی اہم نکتہ جس کو آپ بیان کرنا چاہے؟

جب ہم عدلیہ میں گیا  اس کا فائدہ جو ہمیں ہوا  وہ یہ تھا  کہ ہم نے قریب سے دیکھا جس طرح صحیح معنوں میں  عدالت  ہے جس شعبہ میں ہم نے کام کیا  وہ جمھوری اسلامیہ ایران میں  اجراء ہوتی ہے  یہ ایک صحیح عدلیہ ہے  اس وجہ سے اسکا اجرا ہوا ہے  یہاں تک کے بڑی بڑی شخصیات کے ساتھ  جو افراد منسلک تھے  وہ بھی عدلیہ میں گرفتار ہوے، اور انکو سزا ملی، بڑی سطح سے لیکر  چھوٹی سطح تک  کسی نے عدلیہ میں مداخلت  نہں کی  بلکہ اسی عدالت میں  ہمارے  سب سے بڑے جج ہمارے استاد  آیت اللہ محمدی  گیلانی تھے  انکے بیٹے  بھی اس کاموں میں ملوث تھا  ان کے بیٹے کو عدلیہ نے سزا دی یا  مارے گئے انہوں نے باوجود  جج ہونے کے  اپنے بیٹوں کیلے کوئی اقدام نہیں کیا یہ جمہوری  اسلامی کی سب سے بڑی بات اور خصوصیت یہ ہے کہ جس میں کسی کی بھی اس طرح سفارش کی جائے  اور وہ سزا کا مستحق ہو اور بچ جائے کہ ایک عام آدمی کے بیٹے  کو سزا ملے  اور ایک شخصیت  کا بیٹا  سزا سے بچ جاے  ایسا کام میرے علم میں نہیں  اس 27 سال کے عرصے میں جو بھی جج کہہ رہا  میں کہ سکتا ہوں کہ ملک کی تیسرے حصہ کا جج رہ چکا ہوں ایسا میں نے کبھی نہیں دیکھا  عام لوگوں کو معلوم ہوتا  چاہے  ایک تو نام کی اسلامی حکومت ہوتی ہے  جیسے پوری دنیا میں ہے اور ایک حقیقی اسلامی حکومت ہے اس کا ایک شعبہ یہیں ہے جس میں ہم رہ چکے ہیں جس میں حقیقتا سب لوگ برابر  ہیں  اس میں یہ نہیں تھا کہ  اوپر سے آڈر  آجاے کہ آپ نے اسکو پکڑنا ہے اور اس کو چھوڑنا ہے۔

سوال: اب اس ضمن میں یہ سوال ہے  آپ کی 27 سالہ  سروس میں اس عدلیہ کے دور میں آپ کو کسی قسم کی پریشانی  نہیں  بلکہ مطمئن  گزارا  اور جو میں نے جو فرض بنایا ہے  وہ عندااللہ ٹھیک گزارا؟

جواب:  مقصد یہ ہے کہ انسان جس شعبہ میں بھی کام کرتا ہے  سو فیصد  دعوی کرے کہ میں مصلحین  میں سے ہوں  جو کچھ میں نے کام کیا ہے  اس میں کسی قسم کی  غلطی نہں  تھی  یہ تو مشکل ہے  یہ کہنا کہ میں نے سارے کام صحیح کیئے ہیں  یہ دعوی نہیں کیاجاسکتا لیکن یہ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ میں نے 27 سالہ سروس میں کوشش کی تھی  عمدا ایسا کام نہ ہو کہ کسی کو نقصان ہو یا ناجائز  فائدہ پہنچے ۔

سوال: آپ کے علاوہ  اور بھی پاکستانی فضلا قضاوت میں مصروف تھے جو کہ جلدی چھوڑ کر چلے گئے؟

جواب: اصل بات یہ ہے کہ علمی اعتبار سے جج بننا آسان ہے لیکن  اداری لحاظ سے  اسے سنبھالنا بہت مشکل ہے،  مدرسہ عالی قضائی کے پہلے دورمیں صرف میں تھا جس دور میں جب میں شریک ہوا  وہ  اضطراری   تھا  اور  اور ایک سال کی مدت بھی تھی  لیکن دوسرا دورہ لمبا بھی تھا  اور اس دورے میں ہمارے کچھ پاکستانی احباب بھی شامل ہوے،  ان حضرات کو عدلیہ میں لے  آنے میں میرا ہاتھ تھا تاکہ ان سے بھی استفادہ کیا جا سکے،  دوسرے مرحلہ میں علماء جج بنے  جن میں سے مولانا  حسن رضا غدیری صاحب،  جو اس وقت لندن میں ہیں مولانا سید فیاض حسین  نقوی جو اس وقت کراچی  میں ہیں مولانا امیر حسین حسینی صاحب،  مولانا کرامت علی عمرانی صاحب،  ان میں سے دو علماء کو زاہدان  بھیجا گیا ،  اور مولانا سید فیاض حسین نقوی ابتداء  سے ہی کہا تھا کہ میں آپ کے ساتھ رہ کر کام کرونگاں ، اکیلا نہں کروں گا ،  اور یہ حضرات کچھ عرصہ قضاوت کے فرائض انجام دینے کے بعد  چلے گے  سب سے پہلے مولانا کرامت علی عمرانی صاحب چھوڑ کر گے تھے۔

 اس کے بعد  مولانا حسن رضا غدیری صاحب  پھر مولانا امیر حسین حسینی صاحب  جب ہم ان کو اپنے ساتھ ہمدان لے کر آے   اس کے بعد مولانا سید فیاض حسین نقوی ہمارے ساتھ کام کرتے رہے  اور کافی عرصہ کام کیا  تو کراچی جامعہ علمیہ  کو جب انکی ضرورت ہوئی  تو انہں کراچی بھیج دیا ۔

سوال:  قضاوت کے علاوہ آپکی مذھبی اور  دینی سرگرمیاں کیا تھی؟

ہم شروع سے ہی  جامعہ المنتظر رہے اور ہمارا تعلق  محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفیؒ کے ساتھ  رھا اور ان سے منسلک تھے  جس وقت میں قضاوت میں مصروف تھا  تو آپ نے فرمایا میں کراچی میں ایک مدرسہ بنانا چاہتا ہوں  اس شرط پر کہ آپ  وہاں آکر  اسے سنبھالیں  اور پرنسپل کے فرائض انجام دیں  ورنہ میں نہیں بناوں گا میں نے ان سے وقت مانگا  سوچ و بچار کیلئے  ۔جب میں نے سوچ بچار کی  تو حقیقتا  میں ان کے اس دینی کام میں مانع نہیں ہونا چاہتا تھا  تو جواب نفی میں نہیں دیا  تاکہ وہ مدرسہ کی تعمیر سے منصرف نہ ہوں   اور میں اس دینی کام میں رکاوٹ نہں  بننا چاہتا تھا  تو میں نے جواب دیا ٹھیک ہے  جب مدرسہ مکمل ہو جاے گا تو میں آ جاو گا ، آپ نے مدرسہ کی بنیاد رکھی اور مدرسہ دو تین سال میں مکمل ہو گیا  تو پھر ہم نے وہاں کیلے عارضی طور پر مولانا  امیر حسین حسینی  صاحب کو بھیج دیا تاکہ کام شروع کریں،  یہاں قم میں رہتے ہوے ہم نے مدرسہ کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی  اس سلسلہ میں مرکزی کردار محسن ملت  کا تھا  انکی معاونت اور مدد سے  ایک مکان خریدا  گیا  پہلے یہ مکان میدان سعیدی کے ساتھ لیا گیا  جس میں پاکستانی طلاب رہائش  اختیار کریں  اس کے بعد  اس مدرسہ کی عمارت  جو پہلے مولانا حسن رضا غدیری صاحب نے خریدی تھی وہ۔ اس کے پیسے مکمل نہ دے سکے تو  محسن ملت نے یہ رقم دے کر یہ مکان مدرسہ کیلے خرید لیا ۔ اس کی  عمارت  کو ناکافی سمجھتے ہوے  ہم نے ساری عمارت کو گرا کر  نئ عمارت بنائی ۔ قضاوت کے علاوہ ہم دینی اور مذہبی کاموں سے بھی غافل نہں  رہے   ہم نے فرہنگی کاموں کو آگے بڑھنے کیلے موسسہ الامام المنتظر عج  کی بنیاد رکھی  جس میں مذہبی  علمی کتب کا ترجمہ  تحقیق  اور  نشرو اشاعت کا کام شروع کیا  تو اس سلسلہ میں کافی  لوگوں نے ہمارے مدد  بھی کی گئی۔   محسن ملت  کی مدد سے ہم نے ان امور کو آگے بڑھیا اس کے علاوہ  ہماری کوشش رہی کہ پاکستان میں بھی  اس سلسلہ میں کام کیا جاے  محسن ملت  کی خواہش تھی  کہ پاکستان میں  بھی بڑے شیعہ  دینی مراکز کو بنا یا جاے  جو دینی  و دنیوی  دونوں لحاظ سے  شیعوں کیلے اہمیت رکھتا ہو  آپ کی نظر   میں  شیعہ مراکز کا قیام اسلام آباد  یا اس کے اطراف پر تھا    ہماری شیعہ آبادی ہو  وہاں پر یونیورسٹی ہو  ایک شیعہ شہر  آباد ہو  اور وہ شیعوں کا مرکز ہو  اور فرماتے تھے  میں اس سلسلہ میں کوشش کر رہا ہوں  اور  اس غرض سے کئ دورے اسلام آباد کے بھی کیے  اس سلسلہ میں  آپ نے کچھ مقدار میں رقم بھی  مجھے دی  تھی  جس  سے ہم نے قم میں زمین خرید لی تھی ایک ہزار گز  پھر اس زمین کو بیچ کر ہم نے میدان سعیدی والا  مکان خریدا  اور یہ موجودہ عمارت  خریدی  اور اسکی تعمیر کروائی  محسن ملت کی متعدد گفتگو میں  ہم نے یہ اخذ کیا  کہ وہ چاہتے تھے  اسلام آباد  والے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے، اور اس سلسلہ میں انہوں نے مجھے رقم بھی  دے گے تھے  محسن ملت کی وفات کے بعد  اس سلسلہ کو آگے بڑھایا   اور  جو رقم مجھے دے گے تھے وہ  زیادہ نہں تھی  لیکن  بنیاد  بنا کر گے تھے   جس  سلسلہ کا میں نے آغاز کیا  انکی  وفات کے بعد  اسلام آباد  کے اندر  ایک جگہ ہم نے خریدی  جو ساٹھ ستر کنال پر مشتمل تھی  بارہ کہو کے ساتھ  سات آٹھ کیلو میٹر کے فاصلے پر، یہ جگہ اس مقصد کیلے خریدی  گئ  جو مشن تھا اسکو  پورا  کیا جاے لیکن حالات کے بدلنے کے ساتھ کچھ لوگوں نے مشورہ دیا  کہ یہ جگہ اس پروجیکٹ چلانے کیلے مناسب نہں  کیونکہ یہ جگہ آنے جانے کیلے مناسب نہں اس کی بجاے کوئی مین جگہ دیکھی جاے  جو سڑک کے قریب ہو  پھر ہم نے اس جگہ کو بیچ کر ایک اور جگہ لی  جو مری روڈ  پر   تھی 200 کنال خریدی  اس وقت انکی یہ خواہش تو پوری ہو چکی ہے  اس زمین کا  مناسب قیمت میں ملنا  موقع و محل  کو دیکھ کر ملنا  اس میں ائمہ اطہار کی نظر ہے  اب اس کیلے مناسب نقشہ تیار کروایا ہے  اور اس پر کام کرنے کیلے  ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو وہاں بیٹھ کر کام کرے  اس کے ساتھ ہی مومنین کی خواہش پر بارکہو میں دوکنال زمین خرید کر کے مدرسہ بنا  دیا، جس کا نام مدینہ العلم  رکھا  اب ہم نے مدینہ العلم کے نام سے ایک ٹرسٹ منظور کروایا ہے جسکو رجسٹر کروا لیا گیا ہے، اور جتنے بھی ہم کام کر رہے ہیں ان کا نام مدینہ العلم ٹرسٹ  کے نام سے ہیں،  اور دوسرا کام مدارس محسن ملت  کے سلسلے  میں   ہم نے جو کام کیا مدارس میں اضافہ کیا اور اب تک  پانچ مدارس کا  مدارس محسن ملت میں اضافہ ہوا ہے

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=4934