4

شہید ڈاکٹر کے “تنظیمی مکتب” کی پانچویں خصوصیت

  • News cod : 54644
  • 19 مارس 2024 - 14:56
شہید ڈاکٹر کے “تنظیمی مکتب” کی پانچویں خصوصیت
شہید ڈاکٹر کا یہ احساس ذمہ داری ہی تھا، جس نے انہیں قوم و ملت کے اجتماعی امور کو انجام دینے کے لیے آمادہ کیا، جس کی وجہ سے روز و شب ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

خداوند عالم نے انسان کو عبث خلق نہیں کیا۔ جو انسان اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے، اپنے ساتھ ایک ذمہ داری اور مسئولیت لے کر آتا ہے۔ ذمہ داری کیا ہے؟ اور مسئولیت کیا ہے؟ اس کا احساس و ادراک ضروری ہے۔ دین اسلام نے انسان کی ذمہ داری کا تعین فطری تقاضوں کے عین مطابق کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم قرآن و سنت کی روشنی میں احساسِ ذمہ داری کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں، پہلے یہ واضح ہونا چاہیئے کہ ذمہ داری سے کیا مراد ہے، ذمہ داری کی کتنی اقسام ہیں اور ذمہ داری کا احساس کب اور کیسے پیدا ہوتا ہے، یا کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے۔؟ ذمہ داری سے مراد ایسا امر ہے، جو ہمارے ذمے ہو اور اس کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے۔ لفظ مسئولیت بھی سوال سے ہے اور احساسِ مسئولیت سے مراد بھی یہ ہے کہ جس کام کے بارے میں سوال کیا جائے۔

ذمہ داری اور مسئولیت کو کم سے کم تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱۔ نفس اور ذات کی مسئولیت اور ذمہ داری

۲۔ خاندان اور اقرباء کے حوالے سے مسئولیت

۳۔ اجتماع، امت یا معاشرے کے حوالے سے مسئولیت

ذات اور نفس کے حوالے سے قرآن پاک کی سورہ مبارکہ مائدہ کی آیت نمبر ۱۰۵ کی طرف رجوع کیا جائے تو ارشاد خداوندی ہے: “۔۔۔ ایمان والو اپنے نفس کی فکر کرو۔ اگر تم ہدایت یافتہ رہے تو گمراہوں کی گمراہی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ تم سب کی بازگشت خدا کی طرف ہے، پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال سے باخبر کرے گا۔” اسی طرح سورہ اسراء کی آیت نمبر ۳۶ میں ارشاد ہوتا ہے: “اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے، اس کے پیچھے مت جانا کہ روزِ قیامت سماعت، بصارت اور قوتِ قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔”

یعنی انسان سے اس کے تمام اعضاء و جوارح بلکہ تمام صلاحیتیں جو اسے ودیعت کی گئی تھیں، سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ خداوند عالم نے انسان کو جو بھی نعمت عطا کی، اس کے ساتھ ذمہ داری بھی متعین کی ہے۔لہذا اس ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور محاسبہ کے نتیجے میں جزا و سزا کا تعین ہوگا۔ ذمہ داری کی دوسری قسم خاندان اور اقرباء کے حوالے سے ہے۔ انسان صرف اپنے لیے خلق نہیں ہوا بلکہ اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کے حوالے سے بھی ذمہ دار ہے۔ سورہ مبارکہ تحریم کی آیت نمبر ۶ میں ارشاد ہوتا ہے: “ایمان والو اپنے نفس اور اپنے اہل(خاندان) کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر وہ ملائکہ معین ہوں گے، جو سخت مزاج اور تند و تیز ہیں اور خدا کے حکم کی مخالفت نہیں کرتے ہیں اور جو حکم دیا جاتا ہے، اسی پر عمل کرتے ہیں۔”

یعنی خاندان کی ہدایت کی ذمہ داری کا فرض بھی انسان پر عائد ہے۔ انسان اگر صرف اپنے آپ کو گناہوں اور عذاب سے بچانے میں کامیاب ہو جائے تو یہ ذاتی ذمہ داری ہے، لیکن خاندان کے حوالے سے جو مسئولیت ہے، اس کے تحت خاندان کو بھی برائیوں، گناہوں، عذاب اور خسارے سے بچانا ہے۔ قرآن نے بہت واضح انداز میں اس امر کو بجا لانے پر تاکید کی ہے۔ اسی طرح سورہ انفال کی آیت نمبر ۷۵ میں ارشاد ہوتا ہے: “اور جو لوگ بعد میں ایمان لے آئے اور ہجرت کی اور آپ کے ساتھ جہاد کیا، وہ بھی تم ہی میں سے ہیں اور قرابتدار کتابِ خدا میں سب آپس میں ایک دوسرے سے زیادہ اوّلیت اور قربت رکھتے ہیں، بیشک اللہ ہر شے کا بہترین جاننے والا ہے۔”

خداوند عالم نے دوست احباب اور ساتھ رہنے والوں کے حوالے سے بھی ذمہ داری کا تعین کیا ہے اور اس میں ایک بڑے لطیف نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو تمہارے ساتھ ہجرت اور جہاد میں شامل تھے، وہ بھی تمہارے خاندان کی مانند ہیں۔ انہیں نظرانداز کرنا اور ان کو انکے حال پہ چھوڑ دینا درست اقدام نہیں۔ ان کی اصلاح اور ان کے لیے امر بالمعروف اتنا ہی ضروری ہے، جتنا اپنے خاندان کے افراد کے لیے۔ ذمہ داری کی تیسری قسم اجتماعی ذمہ داری ہے۔ انسان کو سماجی حیوان سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی اس کی بقاء و ارتقاء صرف اور صرف اجتماع اور سماج میں ہی ممکن ہے۔ ایک انسان جنگلوں اور صحراوں میں رہ کر اگر رہبانیت کی زندگی گزارے تو اسلام اسے پسندیدہ عمل قرار نہیں دیتا۔ انسان کو معاشرے میں اس طرح رہ کر زندگی گزارنی ہے، جیسے ڈاکٹر مریضوں میں موجود رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔

قرآن پاک کی سورہ عنکبوت کی آیت نمبر دو اور تین میں ارشاد ہوتا ہے: “کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا۔ بیشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہرحال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں۔” اسی طرح سورۃ والعصر میں ہے: “وتواصوا بالحق و تواصوا بالصبر۔” یعنی “وہ ایک دوسرے کو حق بات اور صبر کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔” سورۃ العصر کی تمام آیات کو اگر اس آخری حصے سے ملا کر پڑھا جائے تو اجتماعی زندگی کا تعین کر دیا گیا ہے کہ ہر انسان خسارے میں ہے، اگر وہ ان تین ذمہ داریو یعنی ایمان، عملِ صالح اور حق بات اور صبر کی نصحیت پر عمل نہیں کرتا۔ اس سورہ میں انفرادی اور اجتماعی تمام ذمہ داریوں کا تعین کر دیا گیا ہے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا “آگاہ ہو جاؤ، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس امیر (حاکم) عوام پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا اور کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پرسش ہوگی۔”

امام علی عليه السّلام فرماتے ہیں: “اِتَّقُوا اللّهَ في عِبادِهِ و بِلادِهِ فإنّكُم مَسؤولُونَ حتّى عنِ البِقاعِ۔”، “اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، بندگان خدا اور شہروں اور آبادیوں کے لئے۔ یہاں تک کہ تم سرزمینوں کے بارے زمہ دار اور مسئول ہو۔ یہاں پر فرزند رسول حضرت امام سجاد کے رسالہ حقوق کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، حس میں آپ نے انسان سے متعلقہ تمام حقوق کو بیان فرمایا ہے۔اختصار کی وجہ سے اس کی تفصیلات یہاں بیان نہیں کرتے، لیکن اہل مطالعہ کو امام سجاد (ع) کی اہم تعلیمات کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہوں۔ احساس ذمہ داری کے حوالے سے امام خمینی (ره) فرماتے ہیں۔ “انسان جس کام کی ذمہ داری سنبھالتا ہے، وہ اس کا مسئول ہوتا ہے۔ وہ دلچسپی اور لگن کے ساتھ کام کرے۔ اس پر سچائی اور امانتداری کے ساتھ عمل کرے، کیونکہ وہ اس کے بارے میں مسئول و جواب دہ ہوگا۔” (صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۲۳۷)

رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای اسی تناظر میں فرماتے ہیں: “اگر کسی کو دیگر ثروتوں کی مانند کوئی صلاحیت یا ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کر دی جائے تو اسے متعلقہ ذمہ داریوں کا احساس بھی ہونا چاہیئے۔ اللہ کی طرف سے دیئے گئے عطیات کے ہمراہ کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ یہ ذمہ داریاں ضروری نہیں کہ سب کی سب دینی اور شرعی باتیں ہوں، ان میں ایسی ذمہ داریاں بھی ہیں، جن کا سرچشمہ خود انسان کا دل ہوتا ہے۔ انسان کو آنکھیں دی گئی ہیں اور یہ ایسی نعمت ہے، جو بعض افراد کو نہیں ملی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ آنکھیں جہاں انسان کے لئے لذتیں اور آسانیاں فراہم کرتی ہیں، وہیں انسان کے دوش پر کچھ فرائض بھی عائد کر دیتی ہیں۔ یہ فریضہ ان آنکھوں کی وجہ سے ہے، جو انسان کو دی گئی ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ دین انسان کو حکم دے اور اس کے بارے میں لازمی طور پر قرآن کی کوئی آیت نازل ہو۔ اس چیز کا ادراک قلب انسانی خود ہی کرسکتا ہے۔

شہید ڈاکٹر نقوی اسی تناظر میں اپنی ایک گفتگو میں اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: “ہم نظام عالم پر نظر ڈالتے ہیں اور جن چیزوں کو خدا نے خلق کیا، ان کو دیکھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ خداوند متعال نے ہر چیز کو خلق کیا ہے۔ پھر اس کی استعداد کے مطابق اس کو اس کے مقاصد کے حصول اور کمال تک پہنچانے کے لئے جو چیزیں اس کے لئے ضروری تھیں، اسے مہیا کی ہیں۔” حضرت موسیٰ فرعون سے کہتے ہیں: “ربنا الذی اعطا کل شیی خلقہ ثمہ ھدی” یعنی “ہمارا رب وہ ہے، جس نے سب چیزوں کو پیدا کیا، نہ صرف پیدا کیا بلکہ اس کے بعد جو چیزیں اس کے کمال تک پہنچنے کیلئے درکار تھیں، ان کی طرف صحیح طریقے سے راہنمائی بھی کی۔”

اب یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے، یہ چھوٹا سا حیوان، یہ مچھر، یہ چیونٹی جو کوئی قیمت نہیں رکھتی، مثلاً جب آپ ان کو پکڑتے ہیں اور انگلیوں سے مسلتے ہیں تو یہ ختم ہو جاتے ہیں۔ اس چھوٹے سے حیوان کے کمال کے لئے جو چیزیں درکار ہیں، وہ خداوند متعال نے عطا کیں ہیں۔ لیکن یہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے، یہاں تک کہ “فسجد الملئکہ کلہم اجمعون” مسجود ملائکہ ہے، سب کے سب فرشتے اس کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں اور زمین میں خلیفۃ اللہ کی سند حاصل کرتا ہے۔ کس طرح ممکن ہے، یہ عجیب و غریب انسان، مثلاً آپ اس انسان کو مادی لحاظ سے دیکھیں کہ اس مادی دنیا میں مادی وسائل کو بروئے کار لا کر اس نے اپنی عقل سے کام لیکر دوسرے سیاروں کی طرف سفر کیا۔ فضاؤں کو اس نے مسخر کیا اور سمندروں کی تہہ تک پہنچ گیا، یعنی یہ انسان زبردست اور عدیم النظیر استعداد کا مالک ہے۔

اب کیسے ممکن ہے کہ خدا ایسے بااستعداد انسان کے لئے اس کے کمال تک پہنچنے کے لئے کوئی انتظام نہ کرے۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ اگر ہم واقعاً خدا کو حکیم سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ حکمت کے بغیر کوئی کام سرانجام نہیں دیتا تو پھر ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس انسان کے کمال تک پہنچنے کے لئے اور لقاء اللہ کے مقام پر فائز ہونے کے لئے خداوند متعال نے ضرور راستہ مہیا کیا ہے اور اس انسان کے سامنے ایک راستہ رکھ دیا ہے۔بلاشبہ عظیم استعداد کا مالک یہ انسان اگر اس راستے پر چلے، جو خدا نے اس کے سامنے رکھا ہے تو وہ کہاں سے کہاں تک پہنچ سکتا ہے۔”

شہید ڈاکٹر نقوی کے مکتب میں احساسِ ذمہ داری کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے اس احساسِ ذمہ داری کی وجہ سے ہی اجتماعی کام کا آغاز کیا اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ ان کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر شیعہ نوجوانوں کے لیے مناسب پلیٹ فارم نہیں ہوگا تو وہ سیکولرزم اور کمیونزم کے نظریات سے متاثر ہو کر ایسے راستے پر چل پڑیں گے، جس کا انجام دنیا اور آخرت دونوں کا خسارہ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی طرز زندگی سے دوری کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ یہ احساس ذمہ داری ہی تھا، جس نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ امام خمینی علیہ الرحمۃ کی آواز پر لبیک کہیں اور اسلامی انقلاب کا دامے، درمے اور سخنے ساتھ دیں۔

شہید ڈاکٹر کا یہ احساس ذمہ داری ہی تھا، جس نے انہیں قوم و ملت کے اجتماعی امور کو انجام دینے کے لیے آمادہ کیا، جس کی وجہ سے روز و شب ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ یہ احساس ذمہ داری تھا، جس نے ان کی زندگی کے لمحے لمحے کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ شہید ڈاکٹر کی بےچینی اور بےقراری اس احساس ذمہ داری کی بدولت تھی، جو انہوں نے قرآن و حدیث اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی سیرت طیبہ سے حاصل کی تھی۔ شہید ڈاکٹر نقوی بامقصد زندگی اور احساس ذمہ داری کے فلسفے کو سمجھانے کے لیے ایک بڑی دلچسپ مثال دیا کرتے تھے۔

ایک سست انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گاو تکیہ سے ٹیک لگا کر آرام سے نیم دراز ہے، ایک فعال اور سرگرم شخص اس سے پوچھتا ہے، تم کیا کر رہے ہو۔ وہ سست آدمی جواب دیتا ہے: “آرام کر رہا ہوں۔” فعال آدمی اس سے سوال کرتا ہے، تم کوئی کام کیوں نہیں کرتے۔؟ سست آدمی اس فعال شخص سے پوچھتا ہے کہ میں یہاں سے کس لیے اٹھوں؟ فعال شخص نے کہا: اٹھو اور تعلیم حاصل کرو۔ سست آدمی نے کہا: تعلیم حاصل کرکے کیا کروں گا؟ فعال آدمی نے کہا: تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت اختیار کرو یا کاروبار وغیرہ کرو، تاکہ تمہیں کچھ آمدنی ہو۔ سست آدمی نے کہا میں آمدنی حاصل کرکے کیا کروں؟ فعال آدمی نے کہا: جب تم باروزگار ہوجاو گے اور تمہاری مناسب آمدنی ہو جائے گی تو پھر شادی کر لینا۔

سست آدمی نے کہا شادی کے بعد کیا کروں؟ فعال آدمی نے کہا جب تم شادی کرو گے تو تمہارے بچے ہوں گے۔ سست آدمی نے کہا، جب بچے ہو جائیں گے تو پھر کیا کروں؟ فعال آدمی نے کہا جب تمہارے بچے ہوں گے، وہ بڑے ہوں گے، تم ان کی تعلیم و تربیت کرو۔ سست آدمی نے کہا: جب بچے بڑے ہو جائیں گے تو پھر میں کیا کروں۔ فعال آدمی نے سمجھاتے ہوئے کہا جب تمہارے بچے بڑے ہو جائیں گے تو وہ کمائیں گے اور تم آرام کرو گے۔ سست آدمی نے لمبی سانس لی اور کہا اتنے بڑے چکر اور محنت کے بعد بھی اگر میں نے آرام ہی کرنا ہے تو اتنی زحمت کی کیا ضرورت ہے۔ میں تو ابھی بھی آرام ہی کر رہا ہوں۔

شہید ڈاکٹر یہ کہانی سنا کر زندگی کے اغراض و مقاصد اور انسانی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے تھے۔ وہ زندگی کو پڑھنے، کمانے، شادی کرنے، بچے پیدا کرنے اور انہیں بڑا کرنے تک محدود نہیں سمجھتے تھے۔ وہ یہ کہانی سنا کر متوجہ کرتے تھے کہ انسان صرف ان چند امور کے لیے خلق نہیں ہوا بلکہ اس کی زندگی کا ہدف بڑا ہے۔ اس کے کاندھوں پر انسان ہونے کے ناطے بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ شہید ڈاکٹر کے مکتب میں انسان خلیفہ خدا یعنی جانشین خدا ہے۔ اس نے انسانیت کی امامت کا فریضہ ادا کرنا ہے۔ اس نے نہ صرف درجہ کمال تک پہنچنا ہے، بلکہ انسانیت کو کمال کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ شہید ڈاکٹر کے تنظیمی مکتب میں غیر متحرک اور اہداف و مقاصد سے عاری فرد حیوان کی مانند ہے۔

شہید ڈاکٹر اپنے تنظیمی مکتب کے اہم عنصر احساس ذمہ داری کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: “انسان کی انسانیت معنویات کے ساتھ ہے۔ بعض اوقات انسان ایسا بن جاتا ہے کہ وہ صرف حیوانی صفات کو اپناتا ہے، یعنی حیوان کی طرح صرف کھاتا پیتا اور شہوت رانی کرتا ہے۔ اب اگر ایک انسان کی فکر اور سوچ صرف اس حد تک محدود ہو جائے کہ وہ کسی طریقے سے پیسہ کمائے، خوب تعیش بھری زندگی گزارے اور خوبصورت عورتوں کے ساتھ مثلاً شادیاں کرے اور خوب نائٹ کلبوں اور مختلف جگہوں پر جائے اور شہوت کی آگ بجھاتا پھرے۔ ایسا فرد یا ایسے افراد کیا ہیں۔؟ ذمہ داری کے احساس سے عاری۔ حقیقت میں یہ حیوان ہیں۔ اگر ان میں سے کسی میں درندگی زیادہ ہوگئی ہے تو وہ قیامت کے دن حیوانی درند ے کی شکل میں محشور ہوگا، وگرنہ عام جانور کی شکل میں۔ روایات میں آیا ہے کہ “قیامت کے دن لوگ اپنی اپنی نیتوں پر محشور ہوں گے۔”

ایک اور موقع پر اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: “اگر آپ چاہتے ہیں کہ ایک عظیم کام کریں تو یہ ایک مسلسل عمل ہونا چاہیئے، لہذا ذمہ داری کے ساتھ جب بھی آپ تنظیم کا کام کریں، اس کا ایک باقاعدہ حصہ بن جائیں۔”، “اگر آپ میں سے ہر شخص احساس ذمہ داری اور ایمان داری کے ساتھ کام کے بارے میں فکر کرے تو بخدا ہر شخص میں اتنی صلاحیت ہے کہ معاشرے کو تبدیل کرسکتا ہے”، “جس چیز کے بارے میں انسان فکر نہیں کرتا، اس کو کبھی بھی حاصل نہیں کرسکتا”، “اسلام کے جتنے بھی رہبران اور رہنماء گزرے ہیں، انھوں نے نہ صرف تبلیغ کی ہے، بلکہ ایسے ذرائع بھی مہیا کیے ہیں کہ اس تبلیغ کی حفاظت ہوسکے۔”

شہید ڈاکٹر فرماتے ہیں: عزیز دوستو! یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ عوام میں، مظلوم لوگوں میں، محروم لوگوں میں اور عام و خاص پاکستانی حضرات میں اس احساس اور شعور کو بیدار کریں کہ پاکستان کی ذمہ داریوں کو نبھانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس شعور کو بیدار کریں۔ اگر اس مسئلہ کی قیادت ہم نے نہ کی، خود بھی نقصان اٹھائیں گے اور ملک کو بھی نقصان ہوگا۔ یاد رکھیے: “اس ملک کے اندر جو سب سے بڑا فرقہ ہے، وہ نہ بریلوی ہے، نہ شیعہ ہے اور نہ اہل حدیث ہے بلکہ اکثریتی طبقہ محروم و مظلوم لوگوں کا ہے۔” محروم طبقے کی حمایت شہید ڈاکٹر کی اولین ترجیح رہی ہے۔ آپ نے ایک موقع پر بڑے گہرے دکھ کے ساتھ تاکید کی تھی اور اسے زندہ رہنے کا بنیادی ہدف تک قرار دیا تھا۔ آپ نے کہا تھا “اگر واقعی آپ کام آنا چاہتے ہیں، میں یہ جملہ دہراتا ہوں کہ اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ حقیقی معنوں میں زندہ رہیں، اگر خود میں یہ آرزو ہے کہ زندگی میں کامیاب و کامران ہوں تو پہلے مرحلے میں یہ خواہش رہے گی کہ میں زندہ رہوں۔”

“عزیز دوستو! اس خواہش کی بجائے یہ خواہش ہونی چاہیئے کہ ملک کی بقا ہو، چاہے ہم مر مٹ جائیں۔ میں آپ سے التماس کرتا ہوں کہ مظلوم و محروم لوگوں کے لئے کام کیجئے، ان میں شعور کو بیدار کیجئے اور ان کو اٹھائیے کہ ملک کی بقاء آپ لوگوں کی وجہ سے ہے۔” شہید ڈاکٹر کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں نئی نسل کے دِل سے احساس زیاں رخصت نہ ہو جائے اور وہ متاع کارواں کو کہیں ہاتھ سے دے نہ بیٹھیں۔ شہید کی خواہش تھی کی نئی نسل سرابوں کے عذابوں میں خوار و زبوں اور حنظل کو منزل کا ثمر نہ سمجھ بیٹھے۔وہ نوجوانوں کو مخاطب ہوکر کہتے تھے، اپنے تحفظ اور درپیش خطرات سے بے خبر وہ فریب خوردہ شاہین، جو کرگسوں کے جھرمٹ میں پروان چڑھے، وہ رہ و رسم شہبازی اور احساسِ ذمہ داری کی پارس صفت حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا۔

شہید سراب کے غیر مختتم عذاب میں اُلجھے پریشاں حال اور درماندہ نوجوانوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے۔ جب ان سے کوئی کہتا کہ نوجوان کے دل و دماغ سے احساس ِذمہ داری ساتواں در کھول کے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار چکا ہے اور خودی کی نگہبانی، مسرت و شادمانی، آلام ِ روزگار کی حشر سامانی، اقدار و روایات کی زبوں حالی، معاشرتی برائیوں کے مسموم اثرات، حب الوطنی کی پہچان، قومی وقار کے تقاضے، ملت کے ساتھ معتبر ربط، اپنے حقوق کا تحفظ، انسانیت کو درپیش خطرات کے بارے میں حقیقی شعور ناپید ہو رہا ہے تو آپ تڑپ جاتے اور کہہ اٹھتے
احساس عنایت کر آثار ِمصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے

اس موضوع کا اختتام شہید کی دعا سے کرتے ہیں۔ شہید بظاہر ہم میں نہیں ہیں، لیکن بقول قرآن حکیم کے وہ زندہ ہیں اور پورے خلوص ِدِل سے خالق کائنات کے حضور یہ دعا کرتے ہونگے۔
جوانوں کو میری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور ِبصیرت عام کر دے

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=54644

ٹیگز