11

میں اپنے موضوع کے حصار میں

  • News cod : 7818
  • 14 ژانویه 2021 - 6:38
میں اپنے موضوع کے حصار میں

علی سردار سراج جب آپ لکھنا چاہیں تو ضروری ہے کہ موضوع آپ کے حصار اور کنٹرول میں ہو لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا […]

علی سردار سراج

جب آپ لکھنا چاہیں تو ضروری ہے کہ موضوع آپ کے حصار اور کنٹرول میں ہو لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ موضوع کے حصار میں ہوتے ہیں اور آپ کا قلم ادھر جاتا ہے جدھر موضوع آپ کو لے کر جاتا ہے ۔
ہاں میں آج اپنے موضوع کے حصار میں ہوں کیونکہ میرے وجود پر انکے اثرات پتھر کے انمٹ نقوش کی طرح اس وقت ثبت ہوئے جب میں اپنے ہوش و حواس کے ابتدائی مراحل میں تھا ۔
جب گلگت کچھ خاص حالات سے گزر رہا تھا 88 کے یلغار کے بعد مومنین کے درمیان مایوسی کی کیفیت حاوی ہوتی جارہی تھی کیونکہ جس ریاست اور ریاستی اداروں پر اعتماد کرکے وہاں کے باسی امن اور سکون کی زندگی گزار رہے تھے اسی ریاست کی سربراہی میں اور اسی کے ایماء پر لوگوں کی جان و مال پر حملہ ہوا تھا اور اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے کئ نہتے بے گناہ لوگ جام شہادت نوش کر چکے تھے اور آئندہ کی کوئی واضح تصویر لوگوں کے ذہنوں میں نہیں تھی ۔
ایسے میں ایک نحیف البدن لیکن قوی اور مضبوط ارادے کے مالک سید نے لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرایا آہستہ آہستہ لوگوں کی زبانوں پر سید ضیاء الدین رضوی اعلی اللہ مقامہ کا نام جاری ہوگیا ہاں اکثر بڑی عمر کے افراد اس نام کو صحیح طور پر ادا بھی نہیں کرسکتے تھے لیکن نام ذرا مشکل ہونے کے باوجود کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ جلد ہی وہاں کے لوگوں نے انہیں نام کے بجائے _ بوبا- یعنی باپ کہہ کر پکارنے لگے ۔
ہاں وہ اس علاقے کے مظلوم لوگوں کے لئے بہت ہی مہربان باپ تھے علاقے کے بڑے بڑے مسائل کا روخ اپنی طرف مبذول کرا کر لوگوں کے سروں پر دست شفقت رکھا تو لوگوں نے بھی انہیں ٹوٹ کر چاہا ۔
محبت اور چاہت کی اس فضا نے ہی بہت سارے مسائل کو آسان بنا دیا تھا اس پر اس نحیف البدن شخص کی بصیرت اور ہوشیاری نے مومنین کو حاشیے سے نکال کر متن میں لے آیا اب لوگ اپنے آپ کو سمجھ چکے تھے اپنی شخصیت اور اہمیت کا احساس ہو رہا تھا ۔
گلگت بلتستان میں اپنے مسائل میں پریشان رہنے والے لوگوں نے اب اپنے اندر اتنی طاقت کا احساس کیا کہ وہ پورے پاکستان کے مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کو موجود درپیش مسائل کا روخ اپنی طرف موڑ دیا ۔اور علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر پیش کی ۔
گرماؤ غلاموں کا لہُو سوزِ یقیں سے
کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو۔
ہاں یہ اس شخصیت کی قائدانہ صلاحیتوں کا ہی اثر تھا جو ایمان اور اخلاص کے پیکر تھے انکی ہمت اور حوصلے گلگت بلتستان کے بلند و بالا پہاڑوں سے بلند تر۔
بزدل دشمن نے جب انکی قوی منطق اور نہ جھکنے والی اور نہ بکنے والی شخصیت کے سامنے اپنے آپ کو عاجز اور ناتواں پایا تو ہمیشہ کی طرح منہ چھپا کر پشت سے وار کرکے روح اور جسم کے درمیان جدائی ڈال دی، لیکن انکی شخصیت شہادت کی موت کے ساتھ اللہ تعالی سے روزی پانے والی ان ہستیوں میں شامل ہوگئ جنکو مردہ تصور کرنے سے بھی رب الشہدا نے منع کیا ہے ۔ ملت اسلامیہ بالخصوص ملت جعفریہ کے لئے انکی خدمات کم نظیر ہیں۔
(نوٹ )یہ تحریر انکی شہادت کے ایام کی مناسبت سے اپنے جذبات کے تسکین کےلئے لکھی گئی ہے شہید بزرگوار کی زندگی کے کسی پہلو کو متعارف کرانے کے لیے نہیں ۔
اللہ تعالی علامہ شہید سید ضیاء الدین رضوی کو ان کے آبا و اجداد طاھرین کے ساتھ محشور فرمائے ۔
روحش شاد یادش گرامی

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=7818