9

اسلامی انقلاب اور خواتین کے سیاسی حقوق

  • News cod : 9893
  • 08 فوریه 2021 - 10:10
اسلامی انقلاب اور خواتین کے سیاسی حقوق
حریت پسندانہ انقلابوں سے گزرنے والے ملکوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے ہمارے ذہنوں ميں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ان انقلابوں اور تحریکوں میں عدم مساوات کے خلاف جنگ اور آزادی کے حصول کے نعروں کے باجود خواتین کے خلاف امتیازی سلوک ہی نہیں جاری رہا..

وفاق ٹائمز-هو المحبوب ویمنس سفریج موومنٹ (women’s suffrage movement) ، امریکہ میں حقوق نسواں کی علمبردار ان خواتین کو کہا جاتا ہے جو انیسویں صدی میں ، خواتین کے سیاسی حقوق کے لئے متحد ہوئيں اور امریکہ میں خواتین کو حق رائے دہی دئے جانے کا مطالبہ کیا۔ ووٹ کا حق ان کے لئے اس لئے بھی بہت اہم تھا کیونکہ یہ حق ہر قسم کے سیاسی حق اور سیاسی رول کا مقدمہ ہے۔

اس تنظيم کی تشکیل سن 1848 میں (1) یعنی امریکہ کے انقلاب کے تقریبا 60 سال بعد عمل میں آئي اور اس کے بعد تقریبا 70 برسوں تک چلنے والی جد و جہد و تحریک کے بعد آخرکار سن 1920 میں امریکہ کی تمام خواتین کو ووٹنگ کا حق حاصل ہوا۔ یہ ایسے حالات میں ہے کہ جب برطانوی فلسفی تھامس پین امریکی انقلاب کو آمروں کے خطرات کے مقابلے میں انسانی عقل سلیم کی جد و جہد آزادی کی پناہ گاہ اور اسے امریکہ کے تحفظ کی جنگ کا نتیجہ قرار دیتے ہيں (2)۔ لیکن گویا اس پناہ گاہ میں خواتین کے لئے کوئی جگہ نہيں تھی۔ فرانس کے انقلاب کی بھی صورت حال اسی طرح کی تھی۔ فرانس کا عظیم انقلاب سن 1789 سے سن 1799 کے دوران دس برسوں میں آزادی کے نعرے کے ساتھ کامیاب ہوا اور بے پناہ خونریزی و جنگ کے بعد اپنی منزل تک پہنچا۔ تمام مورخین اور سیاسی ماہرین متفقہ طور پر فرانس کے انقلاب کو دیگر انقلابات کا سرچشمہ قرار دیتے ہيں کہ جس کے دوران شاہی نظام کو ختم کرکے جمہوریت قائم کرنے میں کامیابی ملی اور فرانس میں سیکورلزم کا بول بالا ہوا(3)۔ یہ انقلاب بھی روشن خیالی کے دور میں سامنے آنے والی تبدیلیوں کے دوران آزادی اور جمہوریت کی خواہش کے ساتھ وقوع پذیر ہوا (3)۔ لیکن ان سب نعروں کے باوجود انقلاب کے بعد فرانس کی خواتین کو ووٹنگ کا حق نہيں ملا۔ یہاں تک کہ چارلز ڈی گال نے انقلاب کے تقریبا ڈیڑھ سو سال بعد، سن 1944 میں پہلی بار فرانس میں خواتین کو حق رائے دہی دیا۔ سن 1688 میں برطانیہ کے انقلاب کی بھی یہی صورت حال ہے۔ اس خاموش انقلاب کا نعرہ، آمریت کے خلاف جد و جہد اور آئينی سلطنت پر مبنی تھا اور یہ انقلاب بھی آزادی کے نعرے کے ساتھ کامیاب ہوا تھا۔ لیکن اس انقلاب میں بھی خواتین کے لئے کوئي جگہ نہيں تھی۔ اس کی کامیابی کے ڈیڑھ صدی سے زائد عرصے کے بعد، سن 1866 میں، برطانوی پارلیمنٹ میں ایک درخواست پیش کی گئي جس میں برطانوی خواتین نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ انتخابات کے قانون کو بدلا جائے اور خواتین کو بھی ووٹنگ کا پورا حق عطا کیا جائے۔ لیکن اس مطالبے کے مخالفوں نے پر تشدد رد عمل ظاہر کیا کیونکہ یہ لوگ خواتین کو ووٹنگ کا حق دئے جانے کو برطانیہ کے لئے خطرہ قرار دیتے تھے۔ برطانوی پارلیمنٹ کا یہ خیال تھا کہ سیاست میں خواتین کی مداخلت سے سیاسی میدان میں فحاشی آئے گی اور اس سے گھرانوں کی بنیادیں بھی متاثر ہوں گی۔ اس بناء پر پارلیمنٹ نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ سن 1867 سے برطانیہ میں بھی ویمنس سفریج موومنٹ (women’s suffrage movement) سرگرم ہو گئي اور آخرکار برطانیہ اور امریکہ کی ‘ویمنس سفریج موومنٹس’ کے باہمی تعاون سے اور برسوں تک خون خرابے، ہنگامے اور مظاہروں کے بعد سن 1918 میں خواتین کو حق رائے دہی دلانے میں کامیابی حاصل کر لی۔

انقلاب یا اصلاحی تحریک کے بعد کے ان ممالک میں خواتین کو سیاسی حقوق دلانے والی تحریکوں کی کامیابیوں کی داستانوں کے درمیان، ایران ان معدودے چند ملکوں میں شامل ہے جہاں انقلاب کے بعد کی تاریخ کی مثال نہيں ملتی کیونکہ اسلامی انقلاب کے آغاز کے ساتھ ہی، خواتین کے خقوق کو باضابطہ تسلیم کیا گیا۔

آزادی کے نعرے میں خواتین کا حصہ

حریت پسندانہ انقلابوں سے گزرنے والے ملکوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے ہمارے ذہنوں ميں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ان انقلابوں اور تحریکوں میں عدم مساوات کے خلاف جنگ اور آزادی کے حصول کے نعروں کے باجود خواتین کے خلاف امتیازی سلوک ہی نہیں جاری رہا بلکہ انہیں سیاسی حقوق سے محروم رکھنے کا سلسلہ بھی یک صدی سے زائد عرصے تک چلتا رہا؟ اس قسم کے تمام انقلابوں کی تاریخ کا مطالعہ اور موازنہ کرنے سے اس سوال کے جواب تک پہنچنے میں کافی حد تک آسانی ہو سکتی ہے ۔

مذکورہ تمام انقلابوں میں شاید ہی کوئي ایسا انقلاب ہو جس میں فرانس کے انقلاب کی طرح حریت پسندی کی طلب ملتی ہو۔ لیکن اس نعرے کا خواتین کو کوئي فائدہ حاصل نہيں ہوا۔ معروف سیاسی فیمینسٹ مفکر مولر اوکین نے اپنی کتاب ‘خواتین، مغربی سیاسی نظرئے کے آئینے میں’ (Women in Western political thought) میں مغرب کی سیاسی تاریخ میں خواتین کے غیر اہم کردار پر روشنی ڈالی ہے اور ژاں ژاک روسو کے نظریات میں فرانس کے انقلاب کے اس تضاد کا جائزہ لیا ہے۔ فرانسیسی فلسفی ژاں ژاک روسو کے نظریات سے فرانس کا انقلاب بہت متاثر رہا اور وہ مساوات اور حریت کے قائل ہیں۔ لیکن وہ ان دو اہم چیزوں کو مردوں کے لئے ضروری سمجھتے ہیں اور خواتین کو فطری طور پر مردوں سے کمتر مانتے ہیں۔ “کیونکہ مرد قدرتی طور پر حاکم اور خواتین قدرتی طور پر محکوم اور اطاعت گزار ہیں (5)۔ فطرت کو تو انسان بدل نہيں سکتے۔ اس لئے خواتین کی صورت حال بدلنے کا کوئي راستہ نہيں ہے۔” اسی نظریہ کی بنیاد پر وہ صاف طور پر کہتے ہیں کہ مرد اور عورتوں کو کچھ مواقع کے علاوہ، ایک دوسرے سے الگ رہنا چاہئے اور مردوں کو خواتین کی لغویات سے دور رہ کر زندگی گزارنا چاہیے (6)۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس قسم کے نظریات سے پیدا ہونے والی کسی بھی سیاسی تحریک سے خواتین کا تو بھلا نہيں ہو سکتا۔

اسلامی انقلاب اور خواتین کی سیاسی زندگی:

ایران میں آئینی انقلاب کی کامیابی کے بعد پہلی بار عوام کو سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع ملا لیکن خواتین بدستور اس سے محروم رہیں۔ یہ تو صرف اسلامی انقلاب کی خصوصیت تھی جس میں آغاز سے ہی خواتین سڑکوں پر مظاہروں کے دوران سرگرم رہیں اور انہیں باضابطہ طور پر کردار ادا کرنے کا موقع دیا گيا۔ یہاں تک کہ انقلاب کے رہنماؤں نے خواتین کو اس تحریک کا پیشوا تک کہا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی، انقلاب کے بانی و رہنما کے طور پر امام خمینی کی براہ راست ہدایات سے، پہلے ہی انتخابات میں خواتین نے مردوں کی ہی طرح ووٹنگ میں حصہ لیا اور انقلاب کے بعد ایران کے سیاسی نظام کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کیا۔ حالانکہ ایران کے اسلامی انقلاب کے آغاز میں بہت سے لوگ اور تنظیمیں، اسلامی تحریک کے دین پر مبنی ہونے کی وجہ سے اسے پسماندہ قرار دیتے تھے۔ ویسے ان لوگوں نے انقلاب کے بعد بھی اپنی رائے تبدیل نہيں کی بلکہ امام خمینی کے اس فیصلے کو ایک سیاسی حکمت عملی اور مفاد پرستی قرار دیا کہ جو بقول ان کے امام خمینی کی مرضی کے خلاف تھی کیونکہ سن 1962 میں صوبائي کونسلوں کے بل کی منظوری کے بعد ایران کے شاہ نے خواتین کو ووٹنگ کا حق دیا تھا لیکن امام خمینی نے اس کی مخالفت کی تھی اور اپنی مخالفت کا کھل کر اعلان بھی کیا تھا جس کی وجہ سے خواتین کا ووٹنگ کا حق ختم کر دیا گیا لیکن جب خود حکومت میں آئے، تو چونکہ انہيں خواتین کی حمایت کی ضرورت تھی اس لئے انہوں نے اپنا نظریہ بدل لیا ۔ کیا یہ ایک تضاد نہیں ہے؟

اگر ذرا غور کیا جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ امام خمینی کے دونوں فیصلوں میں نہ صرف یہ کہ کوئي تضاد نہیں ہے بلکہ امام خمینی نے اپنے پہلے نظرئے پر ہی زور دیا ہے۔ انہوں نے مخالفت کے وقت ہی اعلان کیا تھا کہ وہ خواتین کے ووٹ کے بنیادی حق کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ محمد رضا کی ان پالیسیوں کے خلاف ہیں جو خواتین کو بدعنوانی کی سمت لے جا رہی ہیں۔ شاہ کی نظر میں خواتین یک وسیلہ ہیں اور وہ انہیں کٹھ پتلی بنانا چاہتا تھا۔ دین اس المئے اور اس طرز عمل کے خلاف ہے، نہ کہ خواتین کی آزادی کے(7) ۔ اسلام کبھی بھی خواتین کی آزادی کے خلاف نہيں رہا بلکہ اس کے بر عکس اسلام نے خواتین کو ایک سامان کے طور پر دیکھنے کی مخالفت کرتا رہا ہے اور خواتین کو ان کی منزلت اور وقار حاصل ہونے کا قائل رہا ہے۔ عورت، مرد کے برابر ہوتی ہے۔ مردوں کی طرح خواتین کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل اور اپنی سرگرمیوں کا تعین کریں (8)۔ امام خمینی کے ان بیانوں سے واضح ہے کہ امام خمینی خواتین کی آزادی اور حقوق کے قائل ہیں لیکن اس قانون میں جو کہا گيا تھا اس سے خواتین کو آزادی نہیں ملنے والی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی انقلاب کو خواتین کے لئے ایسا ماحول بنانا چاہیے جس میں خواتین اسلامی سماج کی تشکیل کے لئے سرگرم کردار ادا کریں (9)۔ امام خمینی کے نظریہ کے مطابق “اسلامی نظام میں عورت کو وہی حقوق حاصل ہیں جو مرد کو حاصل ہیں۔ تعلیم کا حق، ملازمت کا حق، مالکانہ حق، ووٹ کا حق، ووٹ لینے کا حق، ان سب کا حق خواتین کو بھی ہے۔ اسلام نے مرد و عورت کی انسانی حیثيت کو محفوظ رکھنا چاہا ہے۔ اسلام نے یہ چاہا ہے کہ عورت، مرد کے ہاتھ کا کھلونا نہ بنے۔”(10)

ان خیالات کے جائزے سے یہ واضح ہو جاتا ہے امام خمینی کے نظریات میں صرف ووٹنگ اور سیاسی کردار ہی نہيں بلکہ خواتین کے لئے تمام سماجی و شہری حقوق صحیح ہی نہیں بلکہ ضروری ہیں۔ ایران کا اسلامی نظام، ایک انسانی نظام ہے جس کی تشکیل، مرد و عورت کی تفریق سے کہیں بالاتر ہے اور اس کی ترقی و بقاء کے لئے دونوں صنفوں کا باہمی تعاون ضروری ہے۔ اس قسم کا نظریہ جب کسی انقلاب کی بنیاد بنتا ہے تو اس انقلاب کے ثمرات سے خواتین بھی بہرہ مند ہوتی ہیں۔

 

(1) امریکہ کے انقلاب کی تاریخ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کچھ لوگ اسے 1765 سے 1783 کے درمیان سمجھتے ہیں جبکہ کچھ دیگر اسے 1757 میں آغاز ہونے والا انقلاب سمجھتے ہيں اور سن 1789 میں جارج واشنگٹن کی صدارت کے دور میں اس کا خاتمہ سمجھتے ہیں ۔

(2) Robert A. Ferguson (July 2000). “The Commonalities of Common Sense”. William and Mary Quarterly. 465–504. JSTOR 2674263

(3) . France – Britannica Online Encyclopedia

(4) The French Revolution of 1789 as Viewed in the Light of republicanism by John Stevens Cabot Abbott – France – 1887

(5) اوکین مولر ، Women in Western political thought صفحہ 193

(6) ایضا

(7) امام خمینی، صحیفہ، جلد 3، ص 472

(8) ایضا صفحہ 370

(9) امام خمینی ، امسٹرڈم نیورو ہالینڈ جریدے کے ساتھ انٹرویو

(10) صحیفہ ، جلد 5 صفحہ 189

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=9893