11

لانگ مارچ میں ساتھ دینے پر شکریہ ادا کرتا ہوں/ مختلف ایف آئی آرز میں 17 ہزار سے زیادہ عزادار شامل تھے، علامہ شبیر میثمی

  • News cod : 11080
  • 20 فوریه 2021 - 17:57
لانگ مارچ میں ساتھ دینے پر شکریہ ادا کرتا ہوں/ مختلف ایف آئی آرز میں 17 ہزار سے زیادہ عزادار شامل تھے، علامہ شبیر میثمی
محرم میں ایف آئی آر کٹی۔ عاشورا کے بعد ایف آئی آریں کٹیں۔ اربعین پر بھرپور ایف آئی آریں کٹیں۔ اور ایف آئی آر کس چیز پر کٹیں؟ ایف آئی آر اس چیز پر کٹیں کہ 800 لوگ ایک گاؤں سے چل کے جلوس میں جا رہے تھے۔ سب کے پاس خنجر تھے۔ ایک اور گاؤں سے مثلاً 9000 لوگ جلوس میں شرکت کے لیے پیدل جا رہے تھے۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی رہنما اور امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی علامہ شبیر میثمی نے اپنے خطبہ جمعہ میں کہا کہ اوصیکم و نفسی بتقوی اللہ و نظم امرکم، پہلے اپنے آپ کو پھر آپ سب کو (نصیحت کرتا ہوں) اللہ کی پرواہ کیجئے، اللہ کا احترام کیجئے، اور اگر اور بھی نیچے کا لفظ استعمال کروں تو اللہ کی عزت کیجئے۔ اپنے امور کو منظم کیجئےکہ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ ان تمام ایام کی ولادتوں کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان شاء اللہ آہستہ آہستہ تیرہ رجب کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ تیرہ رجب وہ تاریخی دن ہے کہ جب خانہ کعبہ میں تنہا مولود کعبہ امیرالمومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام تشریف لائے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان شاءاللہ ہم تیرہ رجب کے دن اور اس کی رات بھرپور جشن منائیں گے۔ ساتھ ساتھ ماہِ رجب عبادتوں کا مہینہ، دعاؤں کا مہینہ، اللہ تعالی کی طرف توجہ کا مہینہ، رغبت کا مہینہ ۔ کل رات آپ میں سے بہت سوں نے لیلۃ الرغائب کے اعمال بھی کئے ہوں گے۔ کچھ ایسی چیزیں آپ کی خدمت میں عرض کر دوں تاکہ آپ کا دل اللہ کی طرف اور مائل ہوجائے تھا۔ اب میری حالت کیا ہے وہ تو میرا اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن اگر آپ میں سے کسی ایک نے بھی ان چیزوں میں سے ایک کا اثر لیا تو شاید ہمارے لئے بھی کوئی آخرت کا سامان بدل جائے۔ اس نکتہ کو بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ظاہر ہے کہ ولادت مولائے کائنات ہے تو ابھی ایک پوسٹ چلی۔۔۔۔ اس کو کہتے ہوئے بھی مجھے مشکل محسوس ہو رہی ہے، لیکن میں کہہ رہا ہوں۔۔۔۔ اللہ، پتا نہیں دن میں کئی مرتبہ ، کتنی مرتبہ، علی کو سجدہ کرتا ہے۔ کہاں جا رہے ہیں ہم!؟ کہاں جا رہے ہیں!؟ اگر مولائے کائنات ابھی یہاں کھڑے ہوتے اور میں صرف سمجھانے کے لئے بھی بولتا تو شاید میری گردن اڑا دیتے۔ کہ تیرے اندر یہ جرأت کیسے پیدا ہوئی؟میرے پاس پوسٹ ہے، نہیں ہوتی تو میں ایسی بات نہیں کرتا۔ مجھے لوگ بھیج دیتے ہیں کہ مولانا ذرا دیکھ لیجئے گا۔ اور اللہ نے توفیق دی ہے کہ آپ سنتے ہیں، برداشت کرتے ہیں۔ کوشش کرتا ہوں زیادہ تر authentic بات کروں، صحیح بات کروں۔ کبھی اگر کوئی غلطی ہو تو اللہ تعالی جانتا ہے کہ جان بوجھ کر کوئی غلط بات کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔

علامہ ڈاکٹر شبیر میثمی نے کہا کہ مولائے کائنات رسول اکرم کے بعد اللہ تعالی کے سب سے بہترین بندے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنا یہ بندہ اتنا پسند ہے کہ اس نے اپنا اختیار اس کو دے دیا ہو۔ مشکل نہیں ہے! ہوتا ہے ناں! ایک شخص عبادت کے اُس کمال پر پہنچتا ہے کہ اللہ ۔۔۔۔۔ میں نے اس دن حدیث سنائی تھی ناں۔ ۔۔۔۔ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تم واجبات انجام دیتے ہو تو میں تمہیں پسند کرتا ہوں۔ اور جب تم مستحبات انجام دیتے ہو تو تم مجھ سے نزدیک ہوجاتے ہو۔ تم نہیں دیکھتے میں دیکھتا ہوں، تم نہیں بولتے، میں بولتا ہوں، تم نہیں سنتے میں سنتا ہوں۔ تمہارا ہاتھ کام نہیں کرتا۔۔۔۔۔ میرے جیسے چھوٹے آدمی آپ جیسے محترم آدمی کے لئے اگر اللہ تعالیٰ نے ایسا کیا ہے تو جو امیرالمومنین ہے اس کی حیثیت کیا ہوگا؟! میں یہ ابتدائی جملے اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اچھا بھائی ان کا بھی عقیدہ وہی ہوگیا ہے۔ نہیں بھائی۔ وہ عقیدہ ہے جو اللہ نے بتایا، جو رسول نے بتایا، جو ائمہ معصومین نے بتایا۔ اگر میرے مولا اللہ کی عبادت نہیں کر رہے ہوتے تو قرآن کی ایک آیت منسوخ ہوجاتی:اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ ۔۔۔۔۔ کس کی نماز پڑھتے تھے میرے مولا؟! وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ ۔۔۔۔۔زکوۃ ادا کرتے تھے۔

وَہُمْ رٰكِعُوْنَ ایسی حالت میں کہ وہ رکوع میں ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل کرکے واضح کردیا کہ علی میرا بندہ ہے لیکن ایسا بندہ ہے جسے میں بہت چاہتا ہوں۔ پوچھا گیا کہ یہ آیت کن کن لوگوں (کے بارے) میں (ہے) کیونکہ آیت جمع ہے۔ اللہ ولی ہے تمہارا، رسول ولی ہے اور والذین اٰمنوا ۔۔۔۔۔ تو اللہ پر علی علیہ السلام ایمان لائے ہیں ناں۔ الذین یقیمون الصلوٰۃ۔ جو نماز قائم کرتے ہیں۔ اتنے سارے۔۔۔۔۔ و یؤتون الزکوٰۃ، زکاتیں دیتے ہیں، جب کہ وہ رکوع کی حالت میں جب پوچھا گیا رسول اکرم(ص) سے کہ یہ کس کی شان میں نازل ہوئی؟ کہا: دیکھو وہ جو شخص جس نے ابھی رکوع میں زکوٰۃ دی ہے، اس کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ کہا وہ تو ایک انسان ہے۔ کہا: انسان ایک ہے لیکن عمل اس کا (پوری) انسانیت جیسا ہے۔

میں اپنی طرف سے آکر واہ واہ کرانے کے لئے، چاہ چاہ کرانے کے لئے، اپنی باتیں ڈال دوں، اللہ کو بھی قبول نہیں، رسول کو بھی قبول نہیں، امیرالمومنین علیہ السلام کو بھی قبول نہیں۔ بارہ اماموں میں سے کسی کو بھی قبول نہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ توحید کا عروج ہمیں اہل بیت علیہم السلام سے ملا۔ توحید کا کمال ہمیں مولائے کائنات سے ملا۔ یعنی رسول اکرم نے دیا لیکن مولائے کائنات نے ہمیں سمجھایا۔ تو اب اگر کوئی اس طرح کی چیزیں لے کر آتا ہے تو آپ فرق کریں۔ پھر آپ کی مرضی اس کو قبول کرنا ہے، آپ کو نہیں روکا جا سکتا ہے۔ لااِکراہَ فی الدین۔ لیکن فرق کریں کہ یہ دین کیا کہہ رہا اور وہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ کیونکہ اب دیکھیں (کہ کام) شروع ہو گیا۔ اب یہ پوسٹ آئی ناں۔ اس کے بعد پھر ظہور کا لفظ شروع ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ میں ابھی سندھ کے دورہ پر گیا تھا۔ کتنے لوگ مجھے ملے۔ اہل سنت سے تھے، شیعہ تھے۔ میں نے سلام کیا ۔ علیکم السلام۔ میں نے کہا کہ سندھ کی رسم ہے یاعلی مدد کہنے کی، میں نے یاعلی مدد کہا۔ تو چند لوگوں نے جواب دیا ”علی اللہ مدد“۔ میں چھپاؤں ان چیزوں کو، آپ لوگوں کو نہ بتاؤں کہ لوگ misuse کریں گے۔ misuse تو ویسے ہی ہوچکا سب کچھ۔ مجھے بعض لوگ کہتے ہیں مولانا بعض چیزیں اگر آپ مثلاً ریکارڈ نہ کرائیں اور سوشل میڈیا پر نہ دیں۔ میں اس کا کیا کروں۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام علی ہے۔ ہے اس کے ناموں میں سے، ننانوے نام کہیں لکھیں ہوں، جا کر دیکھ لیجئے گا۔ لیکن وہ اس کی صفت ہے، وہ اس کا نام نہیں ہے اور علی علیہ السلام کا نام ”علی“ ہے۔ مت ملائیے۔ اسی لئے اہل سنت نے ہمارے انہی confusion کی وجہ سے، جب ہم کہتے ہیں صدق اللہ العلی العظیم۔ اب ان کی بھی سوچ و سمجھ کو دیکھ لیجئے۔ او بابا جب ہم کہتے ہیں صدق اللہ العلی العظیم، اس سے ہماری مراد امیرالمومنین علی نہیں ہوتا۔ سچا ہے وہ اللہ جو علی ہے اور جو عظیم ہے۔ اب چونکہ ہم علی العظیم کہتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ”صدق اللہ العظیم“۔ نہ کہو، ہمیں حرج نہیں ہے۔ ہم اپنے آپ کو تو درست کریں۔ اپنی لائن تو سیدھی کریں۔ اپنی سوچ کو تو shine کریں۔ پکا کریں۔ کیوں؟ اس لئے کہ اہل بیت نے ہم سے یہی چاہا ہے۔ کیوں میں وہ واقعہ باربار سناتا ہوں کہ شب جمعہ میں ایک مرتبہ مدینہ میں ابودرداء دوڑتے دوڑتے آئے۔ یازھرا یا زھرا۔ مصیبت ہوگئی۔جناب زہرا پردے کے پاس آئیں۔ کیا ہوا ابودرداء، اتنے پریشان کیوں ہو؟ کہا: زہرا! علی دنیا سے چلے گئے۔ کہا: تم نے کہاں دیکھا۔ کہا وہ درخت ہے اس کے پاس چادر پڑی ہوئی اور وہ بالکل بے ہوش ہیں۔ ابودرداء تم نے تو آج دیکھا علی جب بھی اپنے معبود کے سامنے جاتے ہیں تو ایسے ہی بیہوش ہو جاتے ہیں۔ عبادت کا عروج وہ ہے۔ اللہ کی عظمت کو ہم کیا سمجھیں؟ کیا بولیں؟ کیا بتائیں؟ کیا محسوس کریں؟ میں نے ایک مثال دی تھی ناں کہ میرے استاد کہتے ہیں کہ میں حرم میں کھڑا تھا۔۔۔ صرف یاد دلانے کے لیے۔۔۔ حرم میں کھڑا تھا۔ ایک شخص میرے ہونٹوں کو دیکھ کر ۔۔۔۔۔ کرتا جارہا تھا۔ جب دعا ختم ہوگئی، زیارت ختم ہوگئی۔ میں نے اس کو بلایا۔ میں نے کہا کہ کیا ہوا؟ یہ تم کیا کر رہے تھے؟ کہا آغا صاحب آپ اتنے بڑے عالم مجھے نظر آئے۔ مجھے تو نہیں معلوم کہ مولا کے دربار میں آکر کیا مانگنا ہے۔ میں نے کہا: یا اللہ وہ جو بول رہے ہیں مجھے دے دے، وہ جو بول رہے ہیں مجھے دے دے، وہ جو بول رہے ہیں مجھے دے دے۔ صحیح ہے ناں۔ سمجھنے والے لوگ سمجھتے ہیں۔ ہم بھی یہی کریں۔ یا اللہ ہمیں نہیں پتا تو کیا ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آسکتا۔ جو امیرالمومنین جناب زہرا، رسول اکرم اور گیارہ اماموں نے ہمیں بتایا، بس وہی تو ہے۔ کیونکہ جب ہم گہرائی میں جانے جاتے ہیں تو اتنے پیچیدہ سوالات آ جاتے ہیں کہ ہماری زندگی میں اتنا ٹائم نہیں ہوتا کہ ہم ان چیزوں کو حل کریں۔ ماننا بھی ہے اللہ کو، اور ویسے ماننا ہے جیسے ائمہ نے بتایا ہے۔ تو اس کا طریقہ بہت simple ہے۔ یااللہ ہمارا وہ عقیدہ ہے جو رسول اکرم کا عقیدہ ہے۔ یا حضرت شاہ عبدالعظیم کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے زمانے کے امام، ظاہراً ظاہراً، اگر mistake نہیں ہو رہی تو امام موسی کاظم علیہ السلام کے زمانے میں آئے اور کہا کہ میں آپ کے سامنے اپنے ایمان کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔ آپ دیکھئے میرا عقیدہ تو صحیح ہے۔ شاہ عبدالعظیم خود اپنی جگہ پر بڑی شخصیت تھے۔ امام علیہ السلام نے ان کے عقیدہ کو سنا۔ کہا: نہیں آپ کا عقیدہ صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس عقیدہ پر سالم رکھے۔ دعائے عدیلہ ہے، مفاتیح الجنان میں بھی ہے، ہماری جو دعا کی کتاب ہے ہدیۃ الصالحین، اس دعا کو پڑھیں۔ ترجمہ پڑھیں۔ آخر میں ہے:پالنے والے اس عقیدے کو میں تیرے حوالے کرتا ہوں۔ جب میری موت آئے تب تو مجھے واپس دے دینا۔ موت کی سختی ہے، بھول جاتا ہے انسان۔ یہ جو ہم دفناتے وقت کہتے ہیں: اسمع، افہم۔ اسمع افہم۔ سن سمجھ۔ سن سمجھ۔ وہی پورا عقیدہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس عقیدے کے مطابق تم دنیا سے گئے اور موت کی سختی کی وجہ سے بھول مت جانا۔ تمہیں اس کی یاد دلائی جا رہی ہے کہ عقیدے کے لحاظ سے ہم اللہ کے بندے ہیں۔ رسول کو اللہ کا رسول سمجھتے ہیں اور ان کی اتباع واجب سمجھتے ہیں۔ اور جس طرح سے رسول نے ہمیں بتایا اس طرح سے ہمارے لئے بارہ امام اور جناب زہرا کا اتباع بھی واجب ہے۔ لیکن اجر رسالت کی وجہ سے ہم پر ایک اور ذمہ داری آتی ہے اور وہ یہ کہ اتباع تو کرتے رہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ مودت کا حق بھی ادا کرنے کی کوشش کرتے رہو۔ اگر نہیں کرو گے تو اس کا مطلب ہے تم نے اتباع ضرور کرلیا، اجر رسالت ادا نہیں کیا۔ وہ ہمیں ادا کرنا ہے۔

خدارا اپنے عقیدہ پر توجہ کیجئے۔ ان نمازوں کی پتا نہیں کیا حیثیت رہتی ہے، وہ جانتا ہے، دل کے حال کو، معاف کردے گا۔ لیکن اگر عقیدے میں ذرا بھی ٹیڑھا پن آیا تو وہ کہتے ہیں ناں کہ: ” خشت اول چوں نہدمعمار کج تا ثریا می رود دیوار کج “کہ اگر ایک سینٹی میٹر پہلی اینٹ۔۔۔ سو منزلہ بن رہی ہے۔۔۔ ایک سینٹی میٹر پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھی گئی، اوپر جا کر کتنی ٹیڑھی ہوجائے گی آپ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ اس لئے عقیدہ پر مضبوط رہئے۔ ہر شعر پر واہ واہ مت کیجیے۔ اگر کوئی شعر واقعاً اچھا ہے اور آپ کو نظر آتا ہے کہ عقیدے کے لحاظ سے مشکل نہیںہے۔ شعراء کی اہل بیت نے بہت تعریف کی ہے۔ ہم ایسے تو نہیں کہہ سکتے ہیں کہ سارے شعراء ایسے ہوگئے، سارے منقبت۔۔۔۔ نہیں۔ بعض ایسے ہیں اور بعض چیزیں ایسی آ رہی ہیں اور ۱۳؍رجب کے جشن میں خدانخواستہ جو بعض جگہوں پر ہونے لگا تھا ،کچھ روکا بھی گیا ہے۔ کم از کم شریک مت ہوئیے اور لوگوں کو نصیحت کیجیے کہ اگر آج بارہویں امام یا پہلے امام تشریف لے آئیں تو آپ کے اس کام کو پسند کریں گے یا نہیں کریں گے؟ ملاک وہی ہے۔ اللہ تو آ کر نہیں بتا سکتا۔ تو ہم اپنے دل سے پوچھیں کہ یہ کام اللہ کو پسند ہے یا نہیں۔ یہ کام امام کو پسند ہے یا نہیں۔ اگر آپ کو محسوس ہوتا ہے پسند ہے، کیجئے۔ آپ کو محسوس ہوتا ہے نہیں اس میں امام ناراض ہوں گے، اس کو چھوڑ دیجئے۔

پالنے والے تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، تجھے تیری عظمتوں کا واسطہ، تجھے تیری رحمتوں کا واسطہ، ہمیں صحیح عقیدے پر گامزن فرمادے۔ ہمارے عقیدے میں پیش آنے والی خرابیوں کی اصلاح فرمادے۔ ہماری عاقبت بخیر فرمادے۔ ہماری پریشانیوں کو دور فرمادے۔ تیری بندگی کی توفیق عطا فرمادے۔ مرحومین، شہداء کے درجات کو بلند فرما۔ کورونا کے شر سے محفوظ فرما۔ پیارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا۔ جہاں جہاں مومنین ہیں ان کی جان، مال، آبرو کی حفاظت فرما۔ علمائے کرام، مراجع عظام، رہبر معظم، قائد محترم، سب کی توفیقات میں اضافہ فرما۔ زمانہ کے امام کو ہم سے راضی فرما۔ ان کے ظہور میں تعجیل فرما۔

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی رہنماء نے کہاکہ آج دوسرا خطبہ پورے کا پورا تشیع کی موجودہ صورتحال اور اس کی وجہ سے لانگ مارچ کی برگزاری۔ اللہ تعالی ان تمام لوگوں کو جزائے خیر دے، جس نے جس طریقہ سے بھی عزاداروں پر آئی ہوئی اس مشکل کو آسان کرنے کے لئے لانگ مارچ کا ساتھ دیا۔ پالنے والے! ہم سب کی طرف سے اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں ہماری مدد فرما اور ہم سے یہ قبول فرما۔

اربعین تک ایف آئی آریں کٹتی رہیں، محرم میں ایف آئی آر کٹی۔ عاشورا کے بعد ایف آئی آریں کٹیں۔ اربعین پر بھرپور ایف آئی آریں کٹیں۔ اور ایف آئی آر کس چیز پر کٹیں؟ ایف آئی آر اس چیز پر کٹیں کہ 800 لوگ ایک گاؤں سے چل کے جلوس میں جا رہے تھے۔ سب کے پاس خنجر تھے۔ ایک اور گاؤں سے مثلاً 9000 لوگ جلوس میں شرکت کے لیے پیدل جا رہے تھے۔ یعنی جلوس میں پیدل جانا، مجلس عزاء برپا کرانا۔ سبیل لگانا۔ گھر میں مثلاً علم تابوت رکھے ہوئے تھے لے کر نکلے کہ ہم ماتم کرتے ہوئے محلے سے واپس آ جائیں گے۔ یہ ساری چیزیں اس بات کا باعث بن رہی تھیں کہ عزاداروں پر ایف آئی آر کٹیں۔ ایف آئی آر کی تعداد تو 100 سے اوپر تھی، پھر بعد میں 80 کے قریب عزاداری کی ایف آئی آریں تھیں۔ باقی دوسری ایف آئی آرز تھیں۔ ان 80 کے قریب ایک ایف آئی آر میں 8000 سے زیادہ لوگ nominated تھے۔ اور دوسری ایف آئی آر میں 9200 سے زیادہ لوگ nominate تھے۔

میں اور آپ کراچی میں رہتے ہیں اس لئے ہمیں اتنا پتا نہیں چلتا۔ مسلسل فون آرہے ہیں خصوصاً مولانا ناظر تقوی جو شیعہ علماء کونسل سندھ کے صدر ہیں۔ مولانا ایف آئی آر کٹی ہوئی ہے۔ پولیس آتی ہے، تنگ کرتی ہے۔ باربار تنگ کرتی ہے۔ ضمانت کے لئے جاتے ہیں تو پیسے نہیں ہیں۔ یعنی 8000 لوگوں کی ضمانت کے پیسے۔۔۔۔ پچاس ہزار بھی اگر ایک کی ضمانت ہے تو کتنے چلے جائیں گے، کہاں سے نکالے جائیں؟ 9000 لوگوں کی ضمانت۔ اور پولیس کو موقع مل گیا۔ ایس ایچ او نے بھیج دیا جاؤ اس گھر پر چلے جاؤ کہ پکڑنے آرہے ہیں۔ کچھ لے کر آ جاؤ۔۔۔۔ جو چیزیں ہوتی ہیں۔۔۔۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اکتوبر 2020 کی ابتدا میں لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ ہمیں ذمہ دار ایجنسیز کے لوگوں نے بلا کر request کی کہ فعلاً اس کو۔۔۔۔ آپ کا حق بنتا ہے کہ لانگ مارچ کریں۔۔۔۔ فعلاً تاخیر کردیجئے۔ ہم نے کہا کہ آپ تو ظاہر ہے سامنے نہیں آسکتے۔ جو ذمہ دار ہیں، وہ آجائیں۔ حکومت سندھ کی طرف سے تین ذمہ دار لوگ آئے۔ تصویریں موجود ہیں۔ ریکارڈ موجود ہے۔ اخبار میں بھی آیا ہے۔ انہوں نے اطمینان دلایا کہ فعلاً آپ مؤخر کردیجئے کچھ وجوہات کی بنا پر۔ ہم یہ ساری ایف آئی آریں ختم کردیں گے۔ اس لئے کہ کوئی کرمنل ریکارڈ تو نہیں ہے جس کی وجہ سے ایف آئی آریں کاٹی گئی ہیں۔ مولانا ناظر نے میٹنگ بلائی۔ کہا کہ چلیں حکومت کے اتنے ذمہ دار آئے ہیں، ہم اس کو مؤخر کرلیتے ہیں۔

۱۵؍اکتوبر سے لے کر تقریباً جنوری 2021 کی ابتدا تک ہم فون کریں تو کوئی جواب نہ آئے۔ ہم درخواست دیں تو کوئی response نہ آئے۔ جنوری میں ہم نے طے کیا کہ اب چونکہ لوگ بہت ۔۔۔۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ ایس ایچ او نے دوپہر کو بلا کر منع کیا تھا کہ رات مجلس مت کرنا ورنہ میں پرچہ کاٹ دوں گا۔ پرچہ کاٹ د یا۔ رات دو بجے خواتین اور مردوں کو اٹھا کر حوالات میں ڈال دیا۔ ان خواتین کا کیا قصور۔ جلوس کے انتظامات کرنے میں جو لوگ آگے آگے تھے انہیں فورتھ شیڈول میں ڈال دیا۔ آپ کو نہیں پتا کہ فورتھ شیڈول کیا ہے؟ فورتھ شیڈول یہ ہے کہ اگر یہاں کا میں (رہائشی) ہوں اور مجھے یہاں فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا ہے تو یہاں سے باہر نکلنے کے لئے پولیس سے ا جازت لینی ہوگی اور واپس آ کر اطلاع دینی ہوگی ۔ زندگیاں مشکلات کا شکار ہوگئیں۔ لوگوں کی اپنی نوکریاں مشکلات کا شکار ہوگئیں۔ ایک ایسا ماحول بنا دیا تھا سندھ میں ۔۔۔۔ اس پر آتا ہوں کہ کیوں بنایا گیا۔۔۔۔۔ تو جب جنوری میں ہم نے پھر حکومت سے contact کئے، اس لئے کہ ہم کوئی ہر وقت مظاہرے کرنے اور لانگ مارچ کرنے اور دھرنے کے شوقین نہیں ہیں کہ لوگوں کو زحمت دیں۔

جنوری گزری ، تقریباً end جنوری پہنچا تو مولانا ناظر نے میٹنگ بلا کر کہا کہ اب اس کام پر ہمیں آگے بڑھنا ہوگا اور لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔ ذمہ داران کو بھی پیغام دے رہے تھے کہ ہم لانگ مارچ کرنے جارہے ہیں۔ اور لانگ مارچ کی تاریخ جو ۱۴ ؍ فروری تھی وہ طے ہوگئی۔ اب حکومت کا کھیل دیکھئے۔ میں اس کو آن ریکارڈ لانا چاہتا ہوں۔ حکومت نے کیا کیا۔ ۱۳؍فروری کو چیف منسٹر صاحب نے مکتب تشیع سے متعلق کچھ لوگوں کو بلایا۔ خود چیک کیجئے کن کو بلایا۔ اور بلا کر میٹنگ کی اور کہا کہ آپ کے کیا مطالبات ہیں؟ انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ مطالبات کیا ہیں؟ انہوں نے مولانا ناظر کو فون کیا۔ مولانا کیا مطالبات ہیں، آپ بتا دیجئے۔ مولانا نے کہا چلو تم بتا دو۔ حق تو یہ تھا کہ ہمیں بلاتے۔

ہمارے مطالبات ہیں: (۱) ایف آئی آریں ختم کرو۔ (۲) فورتھ شیڈول کے لوگوں کو نکالو۔ کرمنل ریکارڈ ایک الگ بات ہے لیکن اگر عزاداری کی وجہ سے فورتھ شیڈول میں ڈالا ہے۔۔۔اس کو باہر نکالو۔

امام بارگاہیں بناتے ہیں، مسجدیں بناتے ہیں۔ اتنی formalities ڈال دیتے ہیں وہاں کے پولیس والے اور حکومتی لوگ کہ امام بارگاہیں نئی نہیں بن سکتیں۔ اگر کوئی نئے جلوس نکالنے کی بات ہو رہی ہے تو نہیں ہوسکتا۔

مولانا نے کہا چلو آپ لوگ وہاں بیٹھے ہو۔۔۔۔ میں نہیں بتاتا کہ وہاں کون لوگ تھے۔۔۔۔ حق تو یہ تھا کہ مولانا ناظر کو بلایا جاتا۔ جناب وہاں چیف منسٹر نے میٹنگ کرلی۔ سب تصویریں وغیرہ کھینچ لی گئیں کہ شیعہ عمائدین آئے تھے اور ان کے مطالبات مان لئے گئے ہیں۔ اچھا ہمیں یہ سب پتا کب چلا؟ اتوار کی صبح۔ اتوار کی صبح جب پتا چلا تو ہم نے رابطہ کیا۔ کہا نہیں وہ چیزیں تو ہوگئی ہیں بس ہم آپ کو کاغذ پہنچادیتے ہیں۔

صبح دس بجے شروع ہونے والا لانگ مارچ دو بجے تک مولانا ناظر۔۔۔۔ اللہ ان کی حفاظت کرے ان کی ٹیم کے ساتھ، پوری صوبائی کابینہ کے ساتھ۔۔۔۔ delay کرتے رہے، delay کرتے رہے۔ پھر وہاں کی ایجنسیز نے بلایا کہ آجائیں بات کرلیں۔ مولانا گئے بات کرنے کے لئے۔ کہا کہ آپ چھوڑ دیجئے۔

یہاں پر میں ایک اور بات بتاتا ہوں۔ رات بارہ بجے سے ۔۔۔۔ میری تو کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔ لیکن مجھ سے رابطہ شروع ہوگیا۔ اور رات دو بجے کہا کہ مولانا سے کہیں کہ سارے مطالبات تو مان لئے گئے ہیں، اب آپ لانگ مارچ کیوں کر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ مطالبات مانے گئے کہاں پر ہیں؟ جو آپ آئے تھے، تصویریں کھنچوائیں تھیں۔ اس کے بعد تو آپ نے ہمارا فون اٹھانا گوارا نہیں کیا۔ صبح لانگ مارچ شروع ہونا ہے اور رات بارہ بجے سے رابطہ کر رہے ہیں کہ مطالبات سارے پورے ہوگئے ہیں آپ لانگ مارچ چھوڑ دیجئے۔ کیسے ہوسکتا ہے؟ ایک تو اتنی مشکل سے momentum ڈیویلپ ہوتا ہے۔

دوسرے دن صبح مولانا ناظر نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم delay کرتے ہیں۔ دو بجے تک delay کیا ، نہیں آئے۔ دو بجے سکھر سے نکلے اور صبح ساڑھے پانچ بجے رانی پور پہنچے۔اب یہ جان لیجئے کہ مومنین عزاداری پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار تھے، نظر آرہا تھا۔ صبح ساڑھے پانچ بجے پہنچے رانی پور۔ رات مذاکرات ہوئے، طے ہوا کہ صبح notification آجائے گا۔ دن ہوگیا، گیارہ بج گئے، بارہ بج گئے۔ جیسے ہی ہم رانی پور سے چلے تو پتا چلا کہ سوشل میڈیا پر کسی صاحب نے میسیج چلا دیا کہ مطالبات مان لئے گئے ہیں۔ہم نے کسی کو فون کیا کہ مطالبات تھے کیا؟کہا وہی کہ ایف آریں ختم ہوں۔میں نے کہا بس یہی تھے؟میں نے کہا کہ 9 مطالبات ہیں ہمارے جو ہم نے آفیشل حکومت کو دئیے ہوئے ہیں۔ اور وہ مکتب کے مطالبات ہیں۔ کوئی ہمارے ذاتی مطالبات نہیں ہیں۔ کہا نہیں ایک تو مان لیا گیا۔اب ہر طرف سے پریشر آرہا ہے کہ مولانا (ناظر) مطالبات تو مان لئے گئے۔

مولانا ناظر نے کسی ذمہ دار کو فون کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وٹس ایپ پر آئے ہوئے ایک میسج سے میں مان لوں اور یہ ہزاروں عزادار، اپنا وقت، اپنا مال۔۔۔ اس لئے کہ ہمارے پاس پیسہ تو ہے نہیں۔ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ کام کیا ہے۔ وہ چھوڑ کر آجائیں۔نہیں مولانا بہرحال ہم آپ کو اطمینان دلاتے ہیں۔مولانا نے کہا کہ کاغذ آئے گا، ہزاروں لوگ ہیں ان کے سامنے بات ہوگی، تب ہوگا۔اب آپ دیکھئے۔ ہمارے اندر کھیل کھیلنے والے ہیں۔۔۔ نام نہیں بتاتا۔ میں کیوں بتاؤں؟ آپ دیکھیں۔ انہوں نے حکومت سے کہا کہ بس اب ہم مولانا ناظر کو اور میثمی وغیرہ کو منا لیں گے۔ آپ کو جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ چلتے چلتے بھٹ شاہ سے حیدرآباد پہنچے۔ حیدرآباد میں ایک کلرک ایک کاغذ لے کر آتا ہے کہ آپ کے لئے نوٹی فکیشن بھجوایا ہے۔کہنے والے نے کہا کہ آپ ذاتی طور پر محترم ہیں لیکن شیعہ قوم کی حیثیت نہیں ہے کہ ایک کلرک آ کر ان کو ایک کاغذ دے۔ یہ جو سارے روڈ پر کل صبح سے نکلے ہوئے ہیں، وہ اس لئے نکلے ہوئے ہیں کہ آپ ایک کاغذ لاکر دے دیں، اس کے بعد ختم ہوجائے۔ یہاں سے ٹینشن شروع ہوا۔ سپر ہائی وے حیدرآباد کی طرف سے بند کردی گئی، میں خود وہاں پر شاہد تھا۔ یہاں سے بند کردی گئی اور باقاعدہ یہ کہہ دیا گیا، ہمیں فون کروایا گیا کہ اگر کراچی آگئے تو گولیاں چلیں گی۔ فون کروایا گیا۔ ہمارے پاس ان لوگوں کے نام موجود ہیں، نمبر موجود ہیں۔ کراچی آئیں گے تو یہ ہوگا، وہ ہوگا۔ہم جامشورو تک پہنچے۔ مولانا ناظر نے کہا بس ٹھیک ہے۔ میں اعلان کرتا ہوں اگر آپ میں سے کوئی ڈرتا ہے، کسی کو خوف ہے تو چلا جائے۔ یہاں تک آپ آئے آپ کا شکریہ۔ اب وہ چلے گا جو ایف آئی آر کے لئے، جو جیل کے لئے، جو مار کٹائی کے لئے، جو cannon کو سامنا کرنے کے لئے، جو شہادت کے لئے تیار ہے وہ آگے چلے۔ایک بوڑھا آدمی تھا۔ کہا گیا کہ آپ واپس چلے جاؤ۔ کہا کہ مولانا یہی تو وقت ہے شہادت کا۔یہ نہیں سمجھتے۔ جامشورو کی اس تقریر پر اور ہائی وے کے بند ہونے پر فون آنے لگے کہ یہ آپ لوگوں نے کیا تقریر کردی۔ مولانا ناظر نے کہا کہ ہم اسی طرح آنے والے ہیں۔ کہا راستے بند کردئیے گئے ہیں۔ کہا کردئیے جائیں اس میں کیا ہے، کوئی مشکل نہیں ہے۔ جہاں تک راستہ ہوگا ہم جائیں گے۔ ہمیں تو اس جگہ پر امام بارگاہ بنانا ہے اور ماتم کرنا ہے۔

یہ کہنا تھا کہ آدھے گھنٹے میں سپر ہائی وے کھلا اور ہم جامشورو سے نکلے۔ نوری آباد سے پہلے منتیں شروع ہوئیں۔ میں نہیں کہتا کس نے کیں۔ کہ خدارا آپ وہیں رک جائیں ہم آ رہے ہیں۔ جو سکھر آنے والے تھے اور جن کو ہماری قوم کے کچھ لوگوں نے۔۔۔۔ وہ اب رات بارہ بج کر تین منٹ پر نوری آباد پر آتے ہیں، مذاکرات کرتے ہیں اور اطمینان دلاتے ہیں کہ اس کے علاوہ شیڈول فور بھی آپ کا accepted ہے۔ اور باقی جو مطالبات ہیں، یہ سب accepted ہیں۔ اس پر عمل کرنے کے لئے آج مثلاً چار بجے میٹنگ ہے تو آپ خدارا مان لیجئے۔

یہ طاقت کسی کی تھی؟یہ عزاداروں کی طاقت تھی۔ یہ عزاداروں کی ہمت تھی، یہ عزاداروں کی محنت تھی کہ حکومت کو۔۔۔۔دیکھیں میں حکومت کو ڈاؤن نہیں کرنا چاہ رہا۔ ہر ایک کی اپنی عزت ہے۔اور میں نہیں کہتا کہ میسج چلا کر فتح کا جشن ۔۔۔۔۔ نہیں نہیں۔ مومنین کا مسئلہ حل ہوگیا۔ الحمدللہ۔ اس سے آگے ہم نہیں کہنا چاہتے۔ حکومت کو اس پوزیشن پر پہنچانے والوں کا باقاعدہ مؤاخذہ ہونا چاہئے۔ کیوں اس لئے کہ حکومت کی ناک رگڑی گئی۔ ایک ذمہ دار نے مجھ سے کہا کہ ہماری تو ناک رگڑی گئی۔ میں نے کہا کہ آپ ہی نے تو رگڑوائی۔ الگ میں، پرائیویٹ میں۔ کہنے لگے نہیں ہم نے نہیں رگڑوائی۔ یہ جو دیکھ رہے ہیں ناں، کچھ لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔ ان لوگوں نے ہمیں روکا، روکا، روکا۔ اور ظاہر ہے کہ جب آپ کراچی کی طرف آرہے تھے، کراچی کے حالات اچھے نہیں تھے۔ تو ہمیں مجبوراً آنا پڑا۔

ہم نے کہا کہ اگر آپ سکھر میں بھی آجاتے اور سکھر میں آکر ہمیں بتا دیتے کہ ان تمام چیزوں پر عمل ہو رہا ہے تو ہم ضد نہیں کرتے۔ ہمیں صرف اطمینان چاہئے تھا کہ اب ایف آئی آریں ختم ہوں گی، اب فورتھ شیڈول ختم ہوں گے، اب یہ جو الٹی سیدھی چیزیں ہو رہی ہیں، ختم ہوں گی۔ کیوں اس لئے کہ آج ہم اس پر آواز نہیں اٹھاتے، اور ہم چپ بیٹھے رہتےتو اگلے سال آپ کے پولیس والے اور جرأت کے ساتھ یہ کام کرتے۔

لیکن الحمدللہ رب العالمین۔ اللہ تعالیٰ نے بہت مدد کی۔ امام زمانہ علیہ السلام کی تائید تھی اور مومنین کا ایک عجیب۔۔۔۔۔ جس کو ہم کہیں کہ ایک جم غفیر تھا۔ لڑکے بائیکوں پر، وینز پر، پورا راستہ، دو رات، دو دن۔

میں نے سوچا یا مولا! آپ کی محبت دیکھیں، ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ لوگوں کی اہل بیت علیہم السلام سے محبت کا اظہار تھا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کل سے ہی ایف آئی آریں ختم ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ میسجز آرہے ہیں۔ ہم ریکارڈ رکھ رہے ہیں۔ اور آج باقی کاموں کے شیڈول کو فائنل کیا جائے گا۔

جنہوں نے اس میں جس طرح سے بھی تعاون کیا میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ پالنے والے ان کی توفیقات میں اضافہ فرما دے اور جنہوں نے خرابی پیدا کی ہے پالنے والے ان کی ہدایت فرما دے۔

میں آخری دو جملے عرض کرکے بات آگے بڑھاتا ہوں۔ مومنین یاد رکھئے گا یہ نہیں ہوسکتا کہ میری مسجد میں کوئی پرابلم ہو تو میں آواز اٹھاؤں ورنہ میں چپ بیٹھوں۔

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

المومنون کالجسد الواحد۔

مومنین ایک بدن کی طرح ہیں۔ اگر بدن کے ایک حصے کو اذیت ہو تو پورا بدن اذیت میں ہوتا ہے۔

یہ مزاج تبدیل کرنا ہوگا کہ اگر سندھ ہے، بلوچستان ہے، کے پی کے ہے، کہیں اور ہے، کسی گاؤں میں کسی مومن کو تکلیف ہے اور میں کہتا ہوں ٹھیک ہے وہ اس کی تکلیف ہے۔

نہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مستضعف تمہیں پکارتے ہیں مدد کے لئے تو تم کیوں ان کی مدد نہیں کرتے ہو۔ وہاں تو باقاعدہ جنگ کا حکم آیا ہے۔ لیکن یہاں پر ہم صرف اتنا کہتے ہیں جن لوگوں نے بے توجہی کی ہے وہ یاد رکھیں کہ یہ عزاداری ایک پورا پیکیج ہے جو محرم کے دس دنوں اور باقی دنوں میں کیا جائے گا اور اس میں جو مشکلات پیدا ہوں گی، ان مشکلات کا مقابلہ جیسے آپ لوگوں نے کیا، کیا جائے گا تاکہ باقاعدہ طور پر عزاداری آگے بڑھتی رہے۔

حکومت کے لئے ایک پیغام ہے کہ آبادی تو حیدرآباد تک پہنچ گئی ہے تو کیا ہم عزاداری صرف انہی علاقوں میں کریں گے؟

بحریہ ٹاؤن ہے وہاں عزاداری ہوگی۔ ڈی ایچ اے ہے وہاں ہوگی۔ آگے دوسرے پراجیکٹ بن رہے ہیں، عزاداری تو پھیلے گی جس طرح سکول پھیلتے ہیں، کالج پھیلتے ہیں، مسجدیں پھیلیں گی، امام بارگاہیں پھیلیں گی۔ اس کو روکا نہیں جا سکتا۔ اور اگر اس کو روکا گیا تو ان شاء اللہ اس سے بھی بہتر انداز میں ہم ٹکرائیں گے۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ ایک بار پھر تمام وہ لوگ۔۔۔۔ خاص کر میں دعا کروں گا قائد محترم کے لئے ، مولانا ناظر تقوی کے لئے، ان کی پوری کابینہ کے لئے، اور سندھ کے تمام علماء جنہوں نے بھرپور شرکت کی اور عوام کہ جنہوں نے بے تحاشا زحمتوں کو برداشت کیا، اور اس نتیجہ کو لیا۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=11080