12

بحران یمن اور اقوام متحدہ کی المناک غلطیاں

  • News cod : 17043
  • 10 می 2021 - 17:03
بحران یمن اور اقوام متحدہ کی المناک غلطیاں
سعودی عرب کی کمان میں فوجی اتحاد کے حملے، 25 مارچ 2015 کو شروع ہوئے۔ یہ حملے امریکا اور بعض یورپی ملکوں کی فوجی، لاجسٹک اور انیٹیلیجنس سپورٹ سے انجام پائے۔ اقوام متحدہ کے انسان دوستانہ امور کے کوآرڈینیشن آفس کے اعداد و شمار کے مطابق یہ حملے، ستمبر 2020 تک 2 لاکھ 33 ہزارافراد کی موت کا سبب بنے۔ ان میں سے 1 لاکھ 31 ہزار افراد غذائیت کی کمی، حفظان صحت اور علاج معالجے کی سہولتوں کے فقدان، اور یمن کے بنیادی ڈھانچے کی نابودی کے باعث موت سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق تین ہزار ایک سو بچے اور پانچ ہزار چھے سو ساٹھ، پانچ سال سے کم عمر کے کمسن بچے جن میں نو زائیدہ بچے بھی شامل ہیں، اس جنگ کی وجہ سے جاں بحق ہوئے ہیں۔ (2)

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 11 مارچ 2021 کو یوم بعثت پیغمبر اکرم کے موقع پر ٹیلی ویژن سے اپنے خطاب میں، مظلوم یمنی عوام پر سعودی عرب کی بمباری اور ان کے اقتصادی محاصرے میں امریکی حکومت کی مشارکت کا ذکر کیا اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی کارکردگی پر سخت تنقید کی۔

آپ نے فرمایا: “جیسے ہی یمنی کچھ کرتے ہیں، وہ چیخنے لگتے ہیں کہ دیکھئے حملہ ہو گيا، قتل ہو گیا! سب یہی کہتے ہیں، اقوام متحدہ بھی یہی کہتی ہے، واقعی اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی روش امریکا کی روش سے بھی بدتر ہے۔ امریکی حکومت، ایک سامراجی ظالم حکومت ہے، اقوام متحدہ کیوں چھے سال سے جاری بمباری پر اس کی مذمت نہیں کرتی؟ جب یہ (یمنی) اپنا دفاع کرتے ہیں، اور ان کا دفاعی اقدام کارگر ہوتا ہے تو مذمت کرنے لگتے ہیں، سب یلغار کر دیتے ہیں، (تشہیراتی) حملہ کرتے ہیں۔ یہ ان کی دروغ بیانی کا ایک نمونہ ہے۔”(1)

بنابرین یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ نے بحران یمن کے تعلق سے اہم خطائیں اور بڑی غلطیاں کی ہیں۔ اس مضمون میں اس بحران کے انسانی پہلووں کے مختصر جائزے کے بعد بحران یمن کے تعلق سے اقوام متحدہ کی کارکردگی کا تجزیہ کیا جائے گا۔

بحران یمن سے پیدا ہونے والا انسانی المیہ

سعودی عرب کی کمان میں فوجی اتحاد کے حملے، 25 مارچ 2015 کو شروع ہوئے۔ یہ حملے امریکا اور بعض یورپی ملکوں کی فوجی، لاجسٹک اور انیٹیلیجنس سپورٹ سے انجام پائے۔ اقوام متحدہ کے انسان دوستانہ امور کے کوآرڈینیشن آفس کے اعداد و شمار کے مطابق یہ حملے، ستمبر 2020 تک 2 لاکھ 33 ہزارافراد کی موت کا سبب بنے۔ ان میں سے 1 لاکھ 31 ہزار افراد غذائیت کی کمی، حفظان صحت اور علاج معالجے کی سہولتوں کے فقدان، اور یمن کے بنیادی ڈھانچے کی نابودی کے باعث موت سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق تین ہزار ایک سو بچے اور پانچ ہزار چھے سو ساٹھ، پانچ سال سے کم عمر کے کمسن بچے جن میں نو زائیدہ بچے بھی شامل ہیں، اس جنگ کی وجہ سے جاں بحق ہوئے ہیں۔ (2)

سعودی عرب نے اربوں ڈالر کی رقم خرچ کرکے، یمن پر مسلسل بمباری کی اور بنیادی تنصیبات کے بڑے حصے، اسپتالوں، ہوائی اڈوں، اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں، پانی کی سپلائی کی تنصیبات، کارخانوں اور عام شہریوں کے رہائشی مکانات کو مسمار کر دیا، جس کے نتیجے میں یمن تاریخ کے بدترین انسانی المیئے سے دوچار ہوا اور خاص طور خواتین اور بچے غذائیت کی قلت، بھکمری اور انواع و اقسام کی بیماریوں میں مبتلا ہوکے موت کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ (3)

اقوام متحدہ نے اکتوبر 2018 میں اعلان کیا کہ ایک کروڑ تیس لاکھ یمنی بچے قحط اور بھکمری کا شکار ہیں۔ اس قحط کو گزشتہ سو برس کا بدترین قحط بتایا جا رہا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے دسیوں لاکھ یمنی بے گھر اور آوارہ وطن بھی ہوئے ہیں۔ (4)

جنگ یمن سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں کا جائزہ

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنگ یمن سے متعلق کچھ قراردادیں صادر کی ہیں جن میں سے اکثر میں مبہم انداز میں فوری جنگ بندی اور متحارب فریقوں کے درمیان گفتگو کی اپیل، حوثیوں کی مذمت اور ان کے خلاف پابندیاں جاری رکھنے کی تاکید کی گئي ہے۔ حوثیوں کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی یک طرفہ کارکردگی اور یمن کے خلاف جارحیت میں سعودی عرب و متحدہ عرب امارات اور ان کے حامیوں، امریکا اور یورپ کے کردار کو نظرانداز کئے جانے کے باعث، مذکورہ قراردادوں کو سبھی فریقوں نے قبول نہیں کیا اور جنگ یمن جاری رہی۔

15 فروری 2015 کو سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 2201 میں یمن میں انسانی بحران پیدا کرنے کے سعودی عرب کے اقدام کا کوئي ذکر کئے بغیر، حوثیوں پر اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹ ڈالنے اور یمن کی امن و امان کی حالت کمزور کرنے کا الزام لگایا گیا اور سرکاری اداروں نیز دارالحکومت سے ان کے نکل جانے کا مطالبہ کیا گیا۔(5)

24 فروری 2015 کو قرارداد نمبر 2204 میں انصاراللہ کے رہنماؤں اور ان کے اتحادیوں کے اثاثوں کو منجمد کرنے اور ان کے خلاف سیاسی اور مالیاتی پابندیوں کے لئے بنائی جانے والی کمیٹی کی مدت میں توسیع کی گئي۔(6)

14 اپریل 2015 کو سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216 میں سعودی جارحیت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا اور صرف انصاراللہ کے خلاف موقف اختیار کیا گیا۔ اس قرارداد میں حوثیوں سے مطالبہ کیا گیا کہ مبینہ یک جانبہ اقدامات جو سیاسی عمل میں خلل ڈال رہے ہیں، انجام نہ دیں۔(7)

24 فروری 2016 کو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 2266 پاس کی ۔ اس قرارداد کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ اس میں یمن کے بعض حصوں پر القاعدہ کے کنٹرول پر تشویشں ظاہر کی گئي ہے۔ اس قرار داد میں سلامتی کونسل نے خود کو یمن کی خودمختاری اور ارضی سالمیت کے تحفظ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ (8)

اس قرارداد میں حوثیوں کے مقابلے میں القاعدہ کے عناصر کو استعمال کرنے کے سعودی اقدام کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ سعودی حکام نے القاعدہ کے عناصر اور ان کے کمانڈروں کو آزاد چھوڑا ہے، انہیں گرفتار نہیں کرتے تاکہ حوثی ان سے جنگ کرنے پر مجبور ہوکر کمزور ہو جائیں۔ مثال کے طور پر فروری 2021 میں اقوام متحدہ نے القاعدہ کی یمن شاخ کے سرغنہ خالد باطرفی کی گرفتاری کی رپورٹ دی لیکن اس کی ایک ویڈیو کلپ جاری کی گئي جس سے عملی طور پر اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کی تردید ہو گئي ۔ (9)

23 فروری 2017 کو سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2342 میں گزشتہ قراردادوں کے مندرجات پر زور دیا گیا اور انصاراللہ کے رہنماؤں کے خلاف پابندی کمیٹی کے ماہرین کے مشن کی مدت میں توسیع کی گئي۔ (10)

26 فروری 2018 کو سلامتی کونسل کی قرار داد 2402 میں، بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے احترام کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے اور انسان دوستانہ امداد رسانی میں رکاوٹوں پر تشویش ظاہر کی جاتی ہے۔(11)

بحران یمن کے بارے میں سلامتی کونسل کی حالیہ قرار داد میں جو 25 فروری 2021 کو پاس ہوئی، انصاراللہ کے رہنماؤں کے خلاف پابندی میں ایک سال کی توسیع کی گئی، شہر مآرب کے نزدیک لڑائي اور اس اسٹریٹیجک شہر کو آزاد کرانے کے لئے حوثیوں کی کوشش اور سعودی عرب پر ان کے حملوں کی مذمت کی گئي اور یمن میں انسانی مشکلات اور ماحولیاتی مسائل کا ذمہ دار حوثیوں کو قرار دیا گیا۔ (12)

قابل غور بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کسی بھی قرارداد میں یمن کے عام شہریوں پر سعودی جنگی طیاروں کی بمباری کی صراحت کے ساتھ مذمت نہیں کی گئي ہے لیکن جارحین کے خلاف حوثیوں کی دفاعی کوششوں اور اسٹریٹیجک شہر مآرب کی جانب ان کی پیش قدمی اور اس شہر پر یمنی افواج کے کنٹرول کے امکان نے، جو جنگ کے توازن کو ان کے حق میں تبدیل کر دے گا، سلامتی کونسل کے اراکین کو تشویش میں مبتلا کر دیا اور انھوں نے اس سلسلے میں ایک قرار داد جاری کر دی۔

یہی جانبدارانہ اور یک طرفہ طرز فکر، جو لڑائي کے ایک فریق کی حمایت میں اپنایا گیا ہے، بحران یمن سے متعلق سلامتی کونسل کی سبھی قراردادوں میں نظر آتا ہے۔ اسی بناپر انصاراللہ نے مذکورہ قرار دادوں کو تسلیم نہیں کیا اور سعودی عرب نے اس یقین کے ساتھ کہ اس کے جرائم کو بین الاقوامی براداری نظرانداز کر رہی ہے، یمن کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور بے گناہ عوام کے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ (13)

بین الاقوامی قوانین کے نقطہ ںگاہ سے بحران یمن سے متعلق سلامتی کونسل کی غلطیوں پر ایک نظر

بین الاقوامی قوانین کی، انسان دوستانہ مداخلت اور حمایت کی ذمہ داری کی ڈاکٹرائن 14 کے مطابق، کسی ملک میں، اجتماعی قتل عام، جنگی جرائم، نسل کشی اور قومی تصفیے جیسے حالات ہوں اور اس ملک کی حکومت میں اپنے شہریوں کی حفاظت کی توانائي یا ارادہ نہ ہو تو سلامتی کونسل عام شہریوں کی حفاظت کے لئے اس ملک میں فوجی مداخلت کا اجازت نامہ صادر کر سکتی ہے۔

حمایت کی ذمہ داری کا اصول، 2006 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پاس کیا ہے۔ یہی اصول لیبیا، شام اور آئيوری کوسٹ وغیرہ میں مغربی ملکوں کی فوجی مداخلت کی بنیاد بنا ہے۔ (15)

2016 میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے غیر فوجی علاقوں اور اسکولوں پر سعودی عرب کے حملوں اور کلسٹر بموں کے استعمال کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور بشریت کے خلاف جنگی جرائم قرار دیا۔ (16)

14 جنوری 2021 کو انسان دوستانہ امور میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے معاون اور ہنگامی امدادرسانی کے کوآرڈینیٹر نے، ایک کروڑ ساٹھ لاکھ یمنیوں کے غذائیت کے قلت سے دوچار ہونے اور طبی وسائل کی شدید قلت کا ذکر کرتے ہوئے، یمن کے شہروں پر بمباری جاری رہنے اور اس کے رکنے کی کوئی علامت نظر نہ آنے کے پیش نظر، جنگ کو فوری اور غیر مشروط طور پر بند کئے جانے کا مطالبہ کیا۔ (17)

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے رکن اور یمن کے لئے تشکیل پانے والی اقوام متحدہ کے ماہرین کی کمیٹی کے ممبر ڈینیل جانسن نے جنگ کے فریقوں کی جانب سے، خوراک اور دواؤں تک غیر فوجیوں کی دسترسی میں رکاوٹ ڈالے جانے کو جنگی جرائم کا مصداق قرار دیا۔ (18)

ان حالات کے پیش نظر، حمایتی ذمہ داری کی قانونی ڈاکٹرائن ، جو سلامتی کونسل سے پاس ہو چکی ہے، اس بات کی متقاضی ہے کہ یمن کے نہتے عوام کے تحفظ کے لئے، سلامتی کونسل فوجی اقدام کرے۔ لیکن ایسا کوئی اقدام اب تک نہیں کیا گیا ہے اور اس کے برعکس اقوام متحدہ نے اب تک جو بھی کیا ہے، وہ حوثیوں اور یمنی عوام کے خلاف کیا ہے جس سے سعودی عرب کو یمن کے بے گناہ عوام کا قتل عام جاری رکھنے کا موقع ملا ہے۔

اس کے علاوہ سلامتی کونسل نے یمن کے خلاف سعودی اتحاد کے فوجی اقدامات کی مذمت سے گریز کیا ہے اور حوثیوں کو اس ملک کی مشکلات کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے “طاقت کے استعمال کی ممانعت” کے اصول کی بنیاد پرحکومتیں ایک دوسرے کے خلاف طاقت استعمال کرنے یا دھمکانے کا حق نہیں رکھتیں البتہ اس سلسلے میں اہم ترین استثنا بیرونی فوجی حملوں کے مقابلے میں اپنا دفاع ہے۔ لیکن سعودی عرب یا جارح اتحاد میں شامل کوئی دوسرا ملک یمن کے کسی بھی حملے کا نشانہ نہیں بنا تھا، حتی یمن نے ان ملکوں کے حملے شروع ہونے کے بعد کافی مدت تک ان کے خلاف جوابی فوجی اقدام نہیں کیا۔ (20)

“طاقت کے استعمال کی ممانعت” کے اصول کا ایک استثنا، اقوام متحدہ کے منشور کی شق نمبر بیالیس میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر سلامتی کونسل یہ تشخیص دے کہ کسی ملک نے بین الاقوامتی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے یا جارحانہ اقدام انجام دیا ہے تو اس صورت میں سلامتی کونسل امن و سلامتی کی بحالی کے لئے، دنیا کے کسی بھی حصے میں فوجی طاقت کے استعمال کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ لیکن ایسی حالت میں کہ سعودی عرب نے یمن کے خلاف یک طرفہ جارحیت کی، بارہا اسکولوں، تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور عوام پر بمباری کی اورعام شہریوں کا قتل عام کیا، اقوام متحدہ نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ الٹا، سعودی جارحین سے مقابلہ کرنے والے عوامی گروہوں کے خلاف ہی قرار دادیں پاس کیں اور ان گروہوں کے رہنماؤں کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا۔

یمن کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادیں “طاقت کے استعمال کی ممانعت” کے اصول کے منافی ہیں اور ان سے سعودی عرب کی فوجی جارحیت کی تائید ہوتی ہے اس لئے ان قرار دادوں کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

بنابریں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ملکوں نے طاقت کے استعمال سے یمن کے عوام کو اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کے حق سے محروم کر دیا ہے۔ یمن پر کوئی بیرونی قبضہ نہیں ہوا تھا کہ کویت کی جلاوطن حکومت کی طرح بیرونی حکومتوں یا اقوام متحدہ سے اقتدار کی بحالی کے لئے مدد اور مداخلت کی درخواست کی جاتی۔

دوسرے منصور ہادی اور مداخلت کرنے والی پانچ عرب حکومتوں کے دعووں کے برخلاف یمن میں کوئی فوجی بغاوت بھی نہیں ہوئي تھی کہ اس نے قانونی حکومت کا تختہ الٹا ہوتا، بلکہ یمن کے اس وقت کے حالات گواہ ہیں کہ حکومت کو عام مظاہروں اور عوام کی وسیع احتجاجی تحریک کا سامنا تھا جو اپنے بنیادی حقوق کا احیا اور اپنے مستقبل کے فیصلے میں اپنی مشارکت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس نقطہ نگاہ سے بھی مستعفی صدر منصور ہادی کی درخواست پر فوجی مداخلت کا کوئی جواز نہیں تھا کہ حملے کو قانونی ظاہر کیا جائے ۔

اس کے علاوہ ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت کی ممانعت بین الاقومی قوانین کا مسلمہ اصول ہے جس کی اقوام متحدہ کے منشور میں بھی تاکید کی گئي ہے۔ یہ اصول بھی یمن کے خلاف سعودی جارحیت کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ (21)

بحران یمن کے تعلق سے اقوام متحدہ کی خطائيں ان سے بہت زیادہ ہیں جن کا ذکر کیا گیا۔ مثال کے طور پر اگست 2019 میں ایسوشی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی جس ميں بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کے بارہ امدادی کارکنوں پر جو انسانی بحران کے تعلق سے یمن میں تعینات کئے گئے تھے، الزام ہے کہ انھوں نے مشکوک معاہدے کئے ہیں، منافع حاصل کرنے کے لئے جنگ کے مختلف فریقوں سے جوڑتوڑ کیا ہے، امداد رسانی پر نگرانی اور یمن کے لئے بھیجی جانے والی امداد کی چوری روکنے کے عمل کو کمزور کیا ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ صحت کی عالمی تنظیم ڈبلو ایچ او کے انسپکٹر، یمن میں تنظیم کے کارکنوں کی بدعنوانی منجملہ زیادہ آمدنی والے عہدوں پر بے صلاحیت افراد کی تقرری، بعض کارکنوں کے ذاتی کھاتوں میں لاکھوں ڈالر کی بڑی بڑی رقومات جمع کئے جانے، بغیر کسی صحیح اور مناسب دستاویز اور سند کے دسیوں مشکوک معاہدوں کی منظوری اور یمن کے لئے بھیجی جانے والی دواؤں اور ایندھن کے کئي ٹن کی چوری جیسی وارداتوں کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

اس دوران اقوام متحدہ کے ایک ادارے یونیسف نے بھی یمن میں اپنے کارکنوں کی بدعنوانیوں کی الگ سے تحقیقات کی خبر دی ہے۔ (22)

نتیجہ

بین الاقوامی قوانین کے اصول و قواعد بالخصوص ” طاقت کے استعمال کی ممانعت” کے اصول کی بنیاد پر یمن کے خلاف سعودی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی جارحیت کو اپنے قانونی دفاع کا مصداق نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس لئے کہ یمن نے اس پر حملہ نہیں کیا ہے بلکہ اس کے برعکس سعودی عرب کا حملہ بین الاقوامی امن و سلامتی کے لئے خطرہ شمار ہوتا ہے اور یمنی گروہوں کو جارحین کے مقابلے میں دفاع کا حق حاصل ہے۔ یمن پر سعودی جارحیت کی مذمت نہ کرنا اقوام متحدہ کی کمزوری کی علامت اور شرمناک ہے۔ اسی کے ساتھ حمایتی ذمہ داری کی ڈاکٹرائن کے مطابق یمن میں جنگی جرائم کئے گئے ہیں، سلامتی کونسل کا فریضہ تھا کہ وہ غیر فوجیوں کی حمایت میں سعودی عرب کے خلاف فوجی اقدام کرتی لیکن اس کونسل کے اب تک کے سبھی فیصلے، سعودی جارحیت کی بھینٹ چڑھنے والوں کے خلاف صادر ہوئے ہیں۔

 

 

(1) https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=47510

(2) https://news.un.org/en/story/2020/12/1078972

(3)https://www.hrw.org/world-report/2021/country-chapters/yemen#

(4) https://www.bbc.com/news/av/world-middle-east-45857729

(5)https://undocs.org/S/RES/2201(2015)

(6)https://www.undocs.org/S/RES/2204%20(2015)

(7)https://www.undocs.org/S/RES/2216%20(2015)

(8)https://www.undocs.org/S/RES/2266%20(2016)

(9)https://www.france24.com/en/live-news/20210211-al-qaeda-s-yemen-leader-appears-in-video-despite-un-report-of-arrest

(10)https://www.undocs.org/S/RES/2342%20(2017)

(11)https://undocs.org/S/RES/2402(2018)

(12)https://undocs.org/en/S/RES/2564(2021)

(13)https://reliefweb.int/report/yemen/examination-saudi-arabia-s-airstrike-rules-engagement-and-its-protection-civilians

(14)Responsibility to Protect

(15)https://www.globalr2p.org/what-is-r2p/

(16)https://www.amnesty.org/en/documents/mde31/3208/2016/en/

(17)https://reliefweb.int/report/yemen/under-secretary-general-humanitarian-affairs-and-emergency-relief-coordinator-mark-35

(18)https://news.un.org/en/audio/2018/08/1017902

(19)Prohibition of the use of force

(20)https://www.open.edu/openlearn/society-politics-law/the-use-force-international-law/content-section-1.1

(21)https://www.tandfonline.com/doi/abs/10.1080/20531702.2019.1612152

(22)https://www.occrp.org/en/daily/10425-un-probes-corruption-in-its-yemen-agencies

 

بشکریہ: khamenei.ir

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=17043