25

انہدام جنت البقیع؛ تخریب کے علل و اسباب

  • News cod : 17568
  • 19 می 2021 - 16:16
انہدام جنت البقیع؛ تخریب کے علل و اسباب
سنہ 1220ھ میں تین سال کے محاصرے اور شہر میں قحطی آثار نمودار ہونے کے بعد وہابیوں نے مدینے پر قبضہ کر لیا۔ دستیاب منابع کے مطابق سعود بن عبدالعزیز نے مدینہ پر قابض ہونے کے بعد مسجد نبوی کے خزانوں میں موجود تمام اموال کو ضبط کرتے ہوئے شہر میں موجود تمام بارگاہوں من جملہ قبرستان بقیع کی تخریب کا حکم صادر کیا۔

انہدام جنت البقیع ان واقعات کی طرف اشارہ ہے جن میں وہابیوں نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کرکے وہاں موجود قبرستان بقیع اور اس پر بنائے گئے مختلف روضوں کو خراب کر دیا۔ ان بارگاہوں میں امام حسنؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے مزارات شامل ہیں۔ وہابیوں کے ہاتھوں جنت البقیع دو بار تخریب ہوئی؛ پہلی بار سنہ 1220ھ میں اور دوسری بار سنہ 1344ھ میں۔ یہ کام انہوں نے مدینہ کے 15 مفتیوں کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے انجام دیا جس میں قبور پر بارگاہیں بنانے کو بدعت قرار دیتے ہوئے ان کی تخریب کو واجب قرار دیا تھا۔ جنت البقیع کے انہدام پر ایران نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک دن سوگ کا اعلان کیا اور سعودی عرب کی تازہ تاسیس حکومت کو تسلیم کرنے میں تین سال کی تأخیر لگا دی۔ شیعیان جہان ہر سال 8 شوال کو “یوم انہدام جنۃ البقیع” مناتے ہوئے اس کام کی پر زور مذمت اور سعودی عرب کی موجودہ حکومت سے اس قبرستان کی فی الفور تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔

تخریب کے بعد جنت البقیع ایک مسطح زمین میں تبدیل ہو گئی ہے لیکن شیعوں کے چار اماموں کے قبور کی جگہ اب بھی قابل تشخیص ہیں۔ شیعہ علماء اور ایرانی حکومت کی جانب سے ائمہ بقیع پر باگاہوں کی تعمیر اور جنت البقیع کے قبرستان کے ارد گرد چاردیواری کا مطالبہ سعودی عرب کی جانب سے تسلیم کرنے کے باوجود اب تک عملی نہیں ہو پایا۔

شیعہ علماء نے جنت البقیع کے انہدام پر احتجاج اور اس واقعے کی مذمت کے علاوہ اس پر مختلف کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں مذہبی مقامات کی تخریب کے سلسلے میں وہابیوں کے نظریات پر تنقید کرتے ہوئے وہابیوں کو مذہبی نظریات کی بنیاد پر مذہبی مقامات تخریب کرنے والا پہلا گروہ قرار دیئے ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سید محسن امین کی کتاب کشف الإرتیاب اور محمد جواد بلاغی کی کتاب دعوۃ الہدی قابل ذکر ہیں۔

تخریب کے علل و اسباب

سنہ 1220ھ میں تین سال کے محاصرے اور شہر میں قحطی آثار نمودار ہونے کے بعد وہابیوں نے مدینے پر قبضہ کر لیا۔ دستیاب منابع کے مطابق سعود بن عبدالعزیز نے مدینہ پر قابض ہونے کے بعد مسجد نبوی کے خزانوں میں موجود تمام اموال کو ضبط کرتے ہوئے شہر میں موجود تمام بارگاہوں من جملہ قبرستان بقیع کی تخریب کا حکم صادر کیا۔ یوں ائمہ بقیع اور حضرت فاطمہ(س) سے منسوب بیت الاحزان کو تخریب یا نقصان پہنچایا۔

اس واقعے کے بعد سلطنت عثمانیہ نے مدینہ کو وہابیوں سےدوبارہ واپس لینے کیلئے مدینہ پر حملہ کیا اور سنہ 1227ھ کو مدینہ پر دوبارہ قابض ہو گئے۔ یوں سلطنت عثمانیہ کے تیسویں امیر محمود دوم نے سنہ1234ھ کو قبرستان بقیع میں موجود بارگاہوں کی دوبارہ تعمیر کا حکم صادر کیا۔

وہابیوں نے ایک دفعہ پھر صفر سنہ 1344 ہجری قمری میں مدینہ پر حملہ کیا۔[27] اس حملے میں مسجد نبوی سمیت دیگر مذہبی مقامات کو نقصان پہنچایا۔ اس کے سات مہینے بعد یعنی رمضان سنہ 1344ھ کو شیخ عبداللہ بن بُلَیہد (1284-1359ھ) جو سنہ 1343 سے 1345ھ تک مکے کا قاضی تھا،  نے مدینہ کے مفتیوں سے قبور پر بنائے گئے بارگاہوں سے متعلق سوال کر کے ان کی تخریب کا فتوا صادر کرایا۔ یوں 8 شوال سنہ 1344ھ کو جنت البقیع میں موجود تمام بارگاہیں مکمل طور پر تخریب ہوئے۔دستیاب اسناد کے مطابق اس تخریب کے بعد سعودی عرب کے بادشان ملک عبدالعزیز نے 12 شوال سنہ 1344ھ کو ایک خط میں عبداللہ بن بلیہد کے اقدامات کو سہراہا۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=17568