12

فلسطینی مزاحمت کی بہترین حکمت عملی

  • News cod : 17746
  • 22 می 2021 - 17:32
فلسطینی مزاحمت کی بہترین حکمت عملی
کسی بھی جنگ کے اختتام پر یہ فیصلہ کرنا کہ کون فاتح ہے کون شکست سے دوچار ہوا تجزیاتی جائزہ لینا ذہنی آزمائش ہے لیکن تاریخ اور علوم سیاسیات کے طالب ہونے کے ناطے لڑائی کے بنیادی اصول کا جائزہ لیتے ہیں

تجزیاتی رپورٹ : توقیر کھرل
فلسطین میں جنگ ختم ہوگئی ہے لیکن بعض مقامات پر جھڑپیں جاری ہیں ۔یہ صورتحال ممکن ہےکچھ دن تک جاری رہے ۔
کسی بھی جنگ کے اختتام پر یہ فیصلہ کرنا کہ کون فاتح ہے کون شکست سے دوچار ہوا تجزیاتی جائزہ لینا ذہنی آزمائش ہے لیکن تاریخ اور علوم سیاسیات کے طالب ہونے کے ناطے لڑائی کے بنیادی اصول کا جائزہ لیتے ہیں
۔جنگ کے مخالف افراد اس جنگ کو (فلسطینی مزاحمت کی صہیونی ریاست سے جنگ ) بڑی طاقت سے چھوٹے گروہ کی جنگ قرار دے رہے ہیں اور حماس کو مکمل ناکام ٹھہرا رہے ہیں ۔
قارئین محترم ! سیاست کی دنیا میں عام طو رپہ چار جنگیں رائج ہیں علوم سیاسیا ت نے جنگوں کو باقاعدہ اصلاحات دی ہیں جیسا کہ ایک جنگ جسے سخت جنگ کہتے ہیں یا ہارڈ وار، دوسری جنگ سیمی ہارڈ وار تیسری نفسیاتی جنگ اور چوتھی جنگ جو آج کے دور میں زیادہ رائج ہے اسے ہم سافٹ وار یا نرم جنگ کہتے ہیں
۔اسرائیل اور فلسطینی مزاحمت کی اس جنگ میں اسرائیل نے ہر محاذ پر جنگ آزمائی کی ہے لیکن ہر محاذ پر ناکام یا کامیاب ہونے کا فیصلہ آپ خود کریں۔
اگر ہم جنگ کی پہلی قسم، ہارڈ وار یا سخت جنگ کی بات کریں توایک ایسی جنگ ہے جس میں چاقو جیسے معمولی ہتھیار سے لیکر تمام قسم کے بم شامل ہیں میزائل، ایٹمی ہتھیاری ،طیاروں کا استعمال بھی شامل ہوتا ہے۔
جنگ کے پہلے روز سے اسرائیل نے تمام حملوں میں ڈیفنس کے تمام ذرائع کو استعمال کیا ہے غزہ میں شدید بمباری کی ہے جس میں کئی بچے اور خواتین شہید ہوئے ہیں۔
اسرائیلی ڈیفنس فورس نے آج صبح سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر سے ایک پیغام جاری کیا ہے کہ ہم دن رات آئرن ڈوم کو بہتر کرنے میں مگن ہیں تاکہ اسرائیل کا دفاع مضبوط کیا جاسکے”
یہ دراصل صہیونی فورسز کااپنی ٹیکنالوجی کے ناکارہ ہونے کا اعتراف ہے ہارڈ وار میں ایک اور ناکامی یہ بھی ہوئی کہ اسرائیلی عبرانی چینل 12 کے مطابق” اسرائیلی افواج میں حماس کے سینئر رہنماوں کو قتل نہ کرنے پر مایوسی پائی جارہی ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ میں راکٹ برسانے والے مقامات کے بارے میں ہماری خفیہ رپورٹ ناقص تھی”
۔اسرائیلی فوج کے تمام اعترافات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ غزہ کے عوام کو آسانی سے ٹارگٹ کرتے رہے ہیں اور اپنے اصل اہداف کے حصول میں ناکام رہے ۔
جبکہ دوسری طرف فلسطینی مزاحمت نے عوامی مقامات کو نشانہ نہیں بنایا تاہم پھر بھی متعدد مقامات پر شہریوں کی بہت ہی کم تعداد ہلا ک ہوئی ۔
۔اگر جنگ کی دوسری قسم سیمی ہارڈ وار یا نیم سخت جنگ کا مشاہدہ کریں تواس محاذ پر فلسطینی مزاحمت مکمل طور کامیاب دکھائی دیتی ہے۔
اسرائیلی فورسز نے آسان ہدف عوام کو بنایا اور کنفیوژن کا شکار فورسز نے چند عمارتوں کو بھی ٹارگٹ کیا۔
سیمی ہارڈ وار حماس کی بہترین حکمت عملی قرار دی جارہی ہے ۔
حماس نے عوامی مقامات کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ اسرائیل کی اہم عمارتوں اور تنصیبات کو ہدف کا نشانہ بنایا اگر ہم سانحہ بغداد
4)جنوری 2020 )ایرانی فورسز کا عراق میں امریکی بیس پر حملہ کا جائزہ لیں تو اس حملہ میں بھی امریکی فوجیوں کو نہیں بلکہ امریکہ تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جس کے بعد امریکی صدر نے کہا تھا آل از ویل (All is Well) !
یہی حکمت عملی اسرائیل کے خلاف بھی اختیار کی گئی ہے اور سیمی ہارڈ وار میں ایک حد تک پہلے خفیہ ادارے یا انٹیلی جنس اپنا کام کرتے ہیں جس کے تحت اطلاعات اور معلومات اکٹھی کرتے ہیں
جس کے نتیجے میں دشمن ملک کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو دیکھا جاتا ہے اہم تنصیبات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کہاں پر حملہ کرنا مناسب ہے اور کہاں پر نہیں ۔
یعنی آدھا کام خفیہ ادارے کرتے ہیں جبکہ باقی نقصان پہنچانے کا کام ہارڈ وار کے ماہرین یا دوسرے لفظوں میں ہمہ اقسام کی فورسز یا افواج اس پہ حملہ کرتی ہیں اس لئے اسے سیمی ہار ڈ وار کہتے ہیں ۔
حماس نے اسرائیل کے اہم شہر تل ابیب پر حملہ کرنے سے قبل بتایا کہ ہم دو گھنٹوں بعد حملہ کریں گے پھر بروقت حملہ کیا گیا پوری دنیا سے براہ راست تل ابیب کے مناظر دیکھے آسمان بلیسٹک میزائلوں سے بھر گیا تھا اور تاروں کی روشنی کم پڑ گئی تھی
یہ فلسطینی مزاحمت کی افسانوی طاقت اسرائیل کو سیمی ہارڈ وارمیں ایک بڑی شکست سے دوچار کرنے کا عملی قدم تھا حملہ کے بعد حماس نے کہا، اگر دوبارہ حملہ کیا گیا تو اس سے بڑا سرپرائز بھی ہے۔
اسی باعث جنگ بندی بھی فلسطین کے استقامتی محاذ کی جانب سے قدس شریف ، مسجد الاقصی پر عدم جارحیت سے متعلق تل ابیب کو دی جانے والی مہلت کے بعد عمل میں آئی ہے۔
صیہیونیوں کی سیمی ہارڈ وار میں ناکامی کا اعتراف اسرائیلی اخبا ر کے ہاریتز اخبارکے ایڈیٹر ان چیف ایلوف بین نے اداریئے میں ان لفظوں میں کیا ہے۔
” غزہ میں جاری کارروائی کی وجہ سے اسرائیلی فوج کی تیاریوں، رویئے اور ناکامیوں کا سلسلہ بے نقاب ہوگیا ہے اور اس کے پیچھے بے بس اور پریشانی کا شکار اسرائیلی حکومت اور اس کی قیادت ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی کھل گئی ہے کہ اسرائیلی قیادت کنفیوژن کا شکار اور بے بس ہے۔
۔ غزہ میں تباہی، بربادی اور موت پھیلا کر فاتحانہ تاثر پیش کرنے کی بیکار کوشش کرنے اور اسرائیلیوں کی زندگی تہس نہس کرنے کی بجائے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کو چاہیئے کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کریں۔”
اب نفسیاتی جنگ اورسافٹ وار کا مشاہدہ کرتے ہیں اسے بیانیہ کی جنگ بھی کہا جاتا ہے یہ جنگ ذہن کی جنگ ہے۔
اس میں تنصیبات یا عمارت کا نقصان نہیں اورنا ہی کسی چاقو چھری جیسے کسی بھی معمولی ہتھیار کا عمل دخل ہوتا ہے بلکہ انسانی سوچ کا عمل دخل ہوتا ہے دوسرے انسان کی سوچ تبدیل کرنے کے لئے جو طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے اس طریقہ کو سافٹ وار کہتے ہیں
۔اس جنگ میں بھی اسرائیل دوسرے محاذو ں کی مانند ناکام اور رسوا نظر آتا ہے ۔
تین دن قبل سی این این کے پروگرام امانپور میں دیے گئے انٹرویو کے دوران شاہ محمود قریشی نے یہ پوچھا گیا کہ کیا ان کے پاس سیز فائر سے متعلق کوئی خبر ہے؟
تو انھوں نے جواب دیا : اسرائیل میڈیا کی جنگ ہار رہا ہے اور وہ اپنے تعلقات کے باوجود یہ جنگ ہار رہا ہے
۔جب بیانا گولوڈریگا نے ان سے پوچھا کہ آپ کن تعلقات کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟
تو پاکستانی وزیرِ خارجہ نے جواب دیا کہ ‘ڈیپ پاکٹس۔’اینکر نے پوچھا: اس کا کیا مطلب ہے؟
شاہ محمود قریشی سے کہا : وہ بہت بااثر لوگ ہیں، وہ میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔اس پر بیانا نے کہا کہ میں اسے ایک یہود مخالف بیان کہوں گی۔
اس بیان کے بعد صہیونی میڈیا میں کہرام مچ گیا
۔سی این این اینکر کا تعلق یہودی مذہب سے قرار دیا جارہا ہے اور شاہ محمود قریشی کو جواب دینے پر صہیونی میڈیا کی طرف سے ہیرو بھی قرار دیا جارہاہے جبکہ دراصل یہ نفسیاتی اور سافٹ وار میں اسرائیلی فورسز کی واضح ناکامی ہے۔
۔بیانیہ کی اس جنگ میں بوکھلاہٹ کا شکار اسرائیل نے غزہ مین الجزیرہ کے دفتر کو بھی تباہ کردیا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیسک پر بھی اسرائیل مخالف مواد کو ہٹایا ہے ۔
دنیا بھر کی طاقت ،ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال کرنے کے باوجود اسرائیلی فورسز فلسطینی مزاحمت کی بہترین حکمت کے باعث ناکام و رسوا ہوئی ہے اور جنگ کے محاذ پر شکست سے دچار ہوئی ہے ۔
۔اب آپ خود فیصلہ کیجئے افسانوی طاقت اسرائیل، سپرپاور امریکہ کی حمایت کے باوجود غلیل سے میزائل تک کا سفر کرنے والے سے مزاحمت کرنے والوں کا” دفاعِ ارض ِ فلسطین “حکمت عملی بہترین تھی یا وہ ناکام ہوئے؟
علوم سیاسیات کے تناظر میں جائزہ لینے کے بعد آپ کے نزدیک یہ فلسیطنیوں کی ناکامی ہے توبمباری کے نتیجے میں ملبے میں دبے فلسطینی بچے کے خاک آلود اور زخمی ہاتھ کی خون آلود وکٹری کا نشان بناتی انگلیاں مظلومین کی فتح کا اعلان ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=17746