15

نعمت دینے اور نہ دینے کے ساتھ امتحان

  • News cod : 18476
  • 10 ژوئن 2021 - 15:51
نعمت دینے اور نہ دینے کے ساتھ امتحان
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نعمات مل رہی ہوتی ہیں اور پھر ان نعمات کی وجہ سے انسان غلط کاموں میں پڑ جاتا ہے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگر خدا کے نزدیک میں اچھا نہیں ہوں تو مجھے یہ نعمتیں کیوں دی جا رہی ہیں۔ لیکن وہ سمجھ نہیں رہا کہ نعمتیں کسی کی اچھائی پر دلالت نہیں کرتیں۔ کسی کو خدا بہت کچھ دے کر امتحان لیتا ہے اور کسی کو نہ دے کر امتحان لیتا ہے تاکہ دیکھے جس کو نعمت دی گئی ہے اس نے کیا کچھ کیا اور جس کو نہیں دیا گیا اس کا رویہ کیسا ہے۔ لہٰذا جب نعمتیں بڑھتی جائیں اور خالق کی طرف سے توجہ گھٹتی جائے تو یہ علامت ہوتی ہے کہ انسان درجہ بدرجہ تباہی اور بربادی کی طرف جا رہا ہے۔

(حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی کے خطبات جمعہ سے اقتباس)

خداوند قدوس نے انسان کو نعمتیں عطا فرمائی ہیں لیکن خداوند عالم یہ چاہتا ہے کہ میری نعمتیں تجھے مجھ سے دور نہ کر دیں۔ ایسا نہ ہو کہ میں نعمتیں دیتا جائوں نعمات کی بارش آپ پر برسائوں اور جتنی میری نعمتیں بڑھتی جائیں اتنا ہی تو مجھ سے دوری اختیار کرتا جائے۔ یہ کسی صورت مستحسن نہیں ہے۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نعمات مل رہی ہوتی ہیں اور پھر ان نعمات کی وجہ سے انسان غلط کاموں میں پڑ جاتا ہے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگر خدا کے نزدیک میں اچھا نہیں ہوں تو مجھے یہ نعمتیں کیوں دی جا رہی ہیں۔ لیکن وہ سمجھ نہیں رہا کہ نعمتیں کسی کی اچھائی پر دلالت نہیں کرتیں۔ کسی کو خدا بہت کچھ دے کر امتحان لیتا ہے اور کسی کو نہ دے کر امتحان لیتا ہے تاکہ دیکھے جس کو نعمت دی گئی ہے اس نے کیا کچھ کیا اور جس کو نہیں دیا گیا اس کا رویہ کیسا ہے۔ لہٰذا جب نعمتیں بڑھتی جائیں اور خالق کی طرف سے توجہ گھٹتی جائے تو یہ علامت ہوتی ہے کہ انسان درجہ بدرجہ تباہی اور بربادی کی طرف جا رہا ہے۔
ارشاد رب العزت ہے:
سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِنْ حَیْثُ لاَ یَعْلَمُوْنَ وَ أُمْلِی لَھُمْ إِنَّ کَیْدِی مَتِیْنٌ
(سورہ اعراف: ۱۸۲، ۱۸۳، سورہ قلم: ۴۵۔۴۴)
ہم درجہ بدرجہ ان لوگوں کو لے جا رہے ہیں ایسے نتیجے کی طرف جس کا انہیں علم نہیں ہے خدا کہتا ہے کہ میں نعمتیں دے کر انہیں مہلت دے رہا ہوں۔ کیونکہ مہلت نہ دینے والے کو یہ خیال ہوتا ہے کہ جلدی جلدی اس کو پکڑ لیا جائے کہیں میرے ہاتھ سے نکل نہ جائے لیکن خدا فرماتا ہے کہ میرے متعلق کوئی تصور نہیں کیا جا سکتاہے کہ وہ میرے ہاتھ سے نکل جائے گا لہٰذا میں مہلت دے دیتا ہوں اس کی مکاری اور فریب کاری کی جو سزا ہو گی وہ میرے جیسی مضبوط ذات کے ہاتھ میں ہے یہ کبھی مجھ سے دور نہیں بھاگ سکتا۔
نعمت ، خدا کی دوری کا موجب نہ بنے:
نعمتوں کی وجہ سے بارگاہ رب العزت سے دور نہیں جانا چاہئے بلکہ نعمتیں اس وجہ سے ہوں کہ انسان خدا کی طرف اور زیادہ متوجہ ہو جائے۔ اسی لئے کئی خطبات میں پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ سورہ منافقون کی آیت ہے:
یَاأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لاَ تُلْھِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَ لاَ اَوْلاَدُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اﷲِ وَ مَنْ یَفْعَلْ ذَالِکَ فَأُوْلَئِکَ ھُمْ الْخَاسِرُوْنَ (سورہ منافقون:۹)
اے ایمان والو! تمہارا مال تمہاری اولاد تمہیں ذکر خدا سے غافل نہ کر دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اولاد کی وجہ سے خدا سے دور ہو جائے، مال و دولت کی کثرت کی وجہ سے خدا سے دور ہو جائے۔ یہ تو نعمتیں ہیں خدا کی، ان کا کام ہے اور زیادہ خدا کے قریب لانا اور زیادہ شکر ادا کرنا کہ خدا نے مجھے اولاد دی ہے توزیادہ شکر ادا کرنا چاہئے ہمیں خدا نے سب کچھ دیا ہے ان بیچاروں کو دیکھنا چاہئے کہ جن کو تیس تیس سال ہو گئے اولاد تک نہیں ہے ترس رہے ہیں اب اگر اولاد ہو تو اولاد کی وجہ سے، انسان خدا سے غافل نہ ہو جائے۔ اگر غافل ہو گیا تو یہ خسارے کی زندگی ہو گی۔
میں نے عرض کیا تھا کہ دو ہی موقف ہیں یا دنیا کا بندہ بن جائے یا آخرت کا بندہ بن جائے۔ خدا کے ہاں غیر جانبداری کا تصور نہیں۔ غیر جانبداری کا ذکر کرتے ہوئے خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:
مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذَلِکَ۔(سورہ نساء: ۱۴۳)
یہ غیر جانبدار لوگ مذبذب ہیں نہ اس طرف ہیں نہ اس طرف۔
یہ درحقیقت منافق ہیں اور منافق لوگوں نے جہنم کے نچلے درجے میں جانا ہے جہاں ان کو سزا دی جائے گی۔
دنیا کی محبت کے نقصانات:
دنیا دار بننے کی بجائے دیندار بنو۔ دنیا خود تمہیں مل جائے گی کام کرو دنیا کیلئے لیکن مقصد دنیا نہ ہو۔ مقصد آخرت ہونی چاہئے۔ مال و دولت کو انسان حکم کے مطابق استعمال کرتا ہے تو یہی مال و دولت آخرت بن جائے گی اور اگر حکم خدا کے تحت صرف نہیں کرتا تو یہ دنیاداری ہو گی۔
اسی لئے مولائے کائنات ؑ کا فرمان ہے: دنیا کی محبت انسان کو اندھا بنا دیتی ہے بہرہ بنا دیتی ہے، گونگا بنا دیتی ہے اور دنیا کی محبت انسان کی گردن کو ذلیل کر دیتی ہے وہ ہمیشہ دنیا کے پیچھے لگارہتا ہے۔ دنیا ہی کیلئے کام کرتا ہے لہٰذا وہ آزاد نہیں ہوتا غلام بن جاتا ہے۔
نہج البلاغہ کے خطبات میں مولائے کائنات حضرت علی ؑ صرف تین لفظوں میں دنیا کا تعارف کروا رہے ہیں۔
ان الدنیا تضر تمر……دنیا دھوکہ دینے والی ہے بار ہا قرآن میں آیا ہے کہ دنیا دھوکے کا گھر ہے
دوسرا فقرہ ہے تضریعنی ضرر دینے والی نقصان دینے والی ہے۔
اور تیسرا فقرہ ہے تمریعنی اس نے چلے جانا ہے کبھی آپ کے ہاتھ میں نہیں رہے گی۔ دنیا جب تک ہاتھ سے نہ نکلے اس وقت تک کچھ بھی نہیں ملتا دنیا ہاتھ سے جائے گی تو اس کے بدلے کچھ نہ کچھ آئے گا دنیا دھوکہ دینے والی ہے ضرر دینے والی ہے اور پھر گزر کر جانے والی ہے۔
اسی مطلب کو قرآن مجید کے چودھویں پارہ میں ذکر کیا گیا ہے آپ کے پاس جو کچھ ہے خواہ کروڑوں کیوں نہ ہو، اربوں کیوں نہ ہو ختم ہو جائے گا۔ وما عند اﷲ باق اور صرف جو کچھ اﷲ کے پاس ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔
دنیا پلیٹ فارم ہے گھر نہیں:
ظاہر ہے وہی اﷲ ہے جس کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے وہ اﷲ ہمیں متوجہ کر رہا ہے کہ اس نے ہمیں آخرت کیلئے پیدا کیا ہے دنیا ایک گزر گاہ ہے دنیا ایک پلیٹ فارم ہے یہاں سے گزر کر آخرت کیلئے جانا ہے پلیٹ فارم کو آدمی کبھی گھر نہیں بناتا۔ وہ آ رہا ہے جا رہا ہے۔ مرکز آخرت ہے جہاں ہمیشہ کیلئے زندہ رہنا ہے اور نعمات خداوندی بھی دائمی ہو ں گی۔ کسی قسم کا نقصان و کمی پیدا نہیں ہو گی اور وہاں کی نعمات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے صرف تصور کیلئے دنیا کی نعمتوں سے تشبیہ دی گئی ہے وگرنہ کہاں دنیا کی نعمات کا مزہ اور کہاں آخرت کی نعمات کا لطف۔اب جب انسان دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کی نظر اپنی ذات کی طرف ہوتی ہے جو کام کرتا ہے ذات کیلئے کرتا ہے جو کام کرتا ہے اولاد کیلئے کرتا ہے۔
وسیع النظر ہستیاں:
جن کی نظر وسیع ہوتی ہے جن کا خلق وسیع ہوتا ہے وہ اپنی ذات کیلئے نہیں کرتے بلکہ ان کی توجہ رہتی ہے کہ پوری دنیا کیلئے میں کیا کر رہا ہوں انسانیت کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہوں انسانیت کو عروج دینا چاہتا ہوں۔ وہ انسانیت کیلئے کام کرتا ہے اپنی ذات کیلئے کام نہیں کرتا۔
آپ نے دیکھا ہو گا بڑے بڑے انقلاب دنیا میں آئے جو کامیاب انقلاب تھے کافی عرصہ ان کا اثر رہا لیکن آپ نے دیکھا انقلاب اسلامی جس کے موسس اور بانی حضرت رسول اعظم ؐ تھے وہ انقلاب صرف حضرت ؐ کیلئے نہیں آیا یا حضرت ؑ کے خاندان کیلئے نہیں آیا۔ بلکہ حضرت کے خاندان کو متوجہ کر کے کہا گیا ہے اے سادات کرام! اگر غلط کام کرو گے تو دگنی سزا ملے گی، کیونکہ آپ کا رسول اﷲ ؐ کے ساتھ تعلق بھی ہو اور آپ غلط کام بھی کریں؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اگر اچھا کام کرو گے تو جزا بھی پھر دگنی مل جائے گی کیونکہ بڑے لوگوں سے تیرا رابطہ ہے انہیں کا خون تیرے اندر دوڑ رہا ہے۔ انکا کام کس لئے تھا؟ اسلام کیلئے! اسلام کا دوسرا نام ہے انسانیت کا عروج انہوں نے انسانیت کیلئے کام کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اسلام باقی ہے اور باقی رہے گا۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=18476