19

یکساں قومی نصاب ِ تعلیم اصلاح و پیش رفت مرتبہ

  • News cod : 18842
  • 22 ژوئن 2021 - 15:08
یکساں قومی نصاب ِ تعلیم اصلاح و پیش رفت مرتبہ
اس دوران 28 مئی کے دن علامہ شیخ محمد شفاء نجفی کو متعلقہ کمیٹی میں اپنا موقف منوانے کے لیے مشکلات پیش آئیں تو انہوں نے عقائد کے موضوع پرکسی قسم کی سودا بازی کرنے سے انکار کردیا۔ جس سے ماحول کشیدہ ہوا اور نوبت بائیکاٹ تک جا پہنچی۔ اس مرحلے پر علامہ شیخ محمد شفاء نجفی نے پہلے مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی اور پھر قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے حالات سے آگاہ کیا اور رہنمائی لی۔

یکساں قومی نصاب ِ تعلیم
اصلاح و پیش رفت
مرتبہ: سید اظہار بخاری
پس منظر
گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے حکومت ِ پاکستان کی طرف سے اعلان کردہ یکساں قومی نصاب ِ تعلیم کے حوالے سے خبریں تسلسل کے ساتھ آرہی تھیں اس حوالے سے مختلف طبقات نے اپنے متعلقہ امور کے حوالے سے آواز بلند کی اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے اقدامات شروع کئے۔ مذکورہ نصاب ِ تعلیم کے حوالے سے یہ تاثر بھی سامنے آیا کہ اس نصاب میں تعلیمی اداروں میں پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک کتب سے اسلامی مواد اور اسلامی تاریخ حذف کی جارہی ہے۔ اور اسلامیات کے علاوہ دیگر مضامین سے بالخصوص اردو‘ معاشرتی علوم‘ تاریخ‘ سماجیات‘ انگریزی وغیرہ سے اسلامی اور مسلم تاریخ پر مشتمل ابواب اور اسباق نکالے جارہے ہیں۔ اس پر اسلامی اور دینی طبقات نے اپنی معلومات کے مطابق حکومت کو متوجہ کیا جس پر کسی حد تک اقدامات ہوئے جس کے نتیجے میں جہاں اسلامیات کے نصاب کا نئے سرے سے جائزہ لیا گیا وہاں اسلامیات کے علاوہ دیگر مضامین میں بھی اسلامی و تاریخی ابواب و اسباق شامل کئے گئے۔ البتہ اقلیتوں کے بعض نمائندگان اور دیگر جدت پسند طبقات نے اپنے موقف کے حق میں اعلیٰ عدلیہ یعنی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جس پر سپریم کورٹ نے شعیب سڈل کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن بنایا جو تادم ِ تحریر سپریم کورٹ کے حکم پر نصاب ِ تعلیم میں اسلامی مواد کا جائزہ لے رہا ہے۔
حکومتی اعلان اور حقیقت
اگرچہ حکومتی سطح پر اعلان ہوا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام اسلامی مکاتب ِ فکر اور دینی طبقات کے لیے قابل ِ قبول نصاب تشکیل دیا جائے گا۔ مقاصد ِ تدریس میں واضح کہا گیاکہ اس نصاب کا رائج ہونے کا بڑا مقصد یہ ہے کہ”لسانی‘ علاقائی‘ صوبائی‘ مسلکی‘ گروہی تعصب اور فرقہ وارانہ سوچ سے بالاتر ہو کر ملی اتحاد قائم کرسکیں“لیکن نصاب ِ تعلیم کی تشکیل و تدوین میں مذکورہ بالا اصول کو مدنظر نہیں رکھا گیااس کے لیے اسلامیات کے نصاب کو متفقہ بنانے کے لیے نصاب کی تدوین اور نظرثانی کے لیے بنائے جانے والی کمیٹیوں میں مختلف مکاتب ِ فکر کے وفاق ہائے مدارس سے نمائندگان شامل کئے گئے لیکن غیر منظم و غیر مربوط نظام کے سبب متعدد اغلاط‘ سقم اور جانبداریاں سامنے آئیں جس سے مسلکی و گروہی تعصبات اور مکتب ِ تشیع سمیت مختلف مکاتب ِ فکر کے حقوق متاثر ہونے کا تاثر سامنے آیا۔ ایسی صورت حال میں سید اظہار بخاری نے یکساں قومی نصاب ِ تعلیم کا تازہ مسودہ حاصل کیا اور اکثر مضامین بالخصوص اسلامیات‘ اردو‘ تاریخ وغیرہ کے نصاب کا نہایت دقت اور توجہ سے مطالعہ کیا جس سے بے شمار اغلاط سامنے آئیں۔ تمام مکاتب ِ فکر کے بنیادی نظریات و عقائد اور عبادات اور محترم شخصیات کے حوالے سے متنازعہ مواد سامنے آیا جبکہ اسلامی تاریخ کے حوالے سے بھی بے شمار ابہامات اور غیر مستند عبارات و حوالہ جات شامل نظر آئے۔ نصاب کی پہلی خواندگی کے نتیجے میں مرتب ہونے والے موقف کا پہلا مسودہ قائد ِ ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی کے سامنے پیش کیا گیا اور ان سے رہنمائی و ہدایات کا عمل شروع ہوا۔

نصاب کا تجزیہ و خواندگی
قائد ِ محترم نے حسب ِ عادت و حسب ِ مرتبہ انتہائی توجہ اور دقت سے مسودے کا مطالعہ فرمایا اور جائزہ لینے کے بعد اس پر مزید کام کرنے کا حکم دیا۔ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر کام کا آغاز ہوا۔ جہاں نصاب ِ تعلیم میں موجود متنازعہ مواد کی نشاندہی اور جمع آوری کا سلسلہ جاری رکھا گیا وہاں اس اہم ایشو کو قومی و سرکاری سطح پر اٹھانے اور اجاگر کرنے کے حوالے سے پالیسی تشکیل دینے پر بھی غور و خوض و مشاورت جاری رہی۔ قائد ِمحترم نے ان دونوں امور میں ذاتی دلچسپی جاری رکھی اور ہر مرحلے پر رہنمائی فرماتے رہے۔ ایک ایک نکتے اور ایک ایک موضوع پر باریک بینی سے غور کیا جاتا رہا۔ سوالات اٹھائے جاتے رہے۔ بحث و تمحیص کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ ماہ ِ رمضان میں حالت ِ روزہ کے باوجود قومی حساسیت کے مدنظر نصاب ِ تعلیم کے امور کو ترجیحا ً دیکھا جاتا رہا۔ مسودے اور موقف میں کئی بار اصلاح و تبدیلی اور بہتری لائی جاتی رہی۔ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر ہونے والی پیش رفت اور حکومتی اقدامات کا جائزہ بھی لیا جاتا رہا۔ مختلف دینی طبقات اور وفاق ہائے مدارس کے موقف پر بھی نظر رکھی گئی۔ اقلیتوں‘ جدید نظام ِ تعلیم کے نمائندگان‘ یک رکنی عدالتی کمیشن اور بیرونی مداخلت کے حوالے سے سامنے آنے والے معاملات کو بھی مدنظر رکھا جاتا رہا۔
کم و بیش پندرہ سے بیس میٹنگز کے بعد جب مذکورہ مسودے نے قومی موقف پر مبنی دستاویز کی شکل اختیار کی تو قائد ِ محتر م کے حکم و مشاورت سے وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے فورم کو اس موقف کی ترجمانی اور متعلقہ فورمز تک پہنچانے کی پیش کش کی گئی۔ اسلامیات جماعت اول تا جماعت پنجم تک حکومت کی قائم کردہ نظرثانی کمیٹی میں مولانا سید محمد نجفی شامل تھے جبکہ ششم تا ہشتم تک کمیٹی میں علامہ شیخ محمد شفاء نجفی شامل تھے۔ اگرچہ پہلی سے پنجم تک کمیٹی نے اپنا کام گذشتہ سال مکمل کرلیا تھا اور نصاب کو حتمی شکل دے کر کتب کی اشاعت کے لیے پبلشرز کی طرف منتقل کردیا تھا لیکن اس کے باوجود اس نصاب میں متعدد متنازع مواد شامل تھا جس کی نشاندہی پر مشتمل مسودہ تیار کیا گیا۔ جبکہ جماعت ششم سے ہشتم تک کمیٹی کا کام جاری تھا اعتراضات و اشکالات پر مشتمل مسودہ علامہ شیخ محمد شفاء نجفی کے حوالے کیا گیا بعض امور کی طرف وہ پہلے ہی متوجہ تھے لیکن اس مسودے کے بعد انہوں نے نہایت استقامت اور محنت کے ساتھ اپنا موقف کمیٹی کے اجلاسوں میں رکھا اور دلائل کے ساتھ کافی نکات میں اصلاح کرکے انہیں نصاب میں شامل کرایا لیکن بعض نکات کچھ قانونی و انتظامی رکاوٹوں کے سبب اور بعض نکات چند جانبدار اراکین کے غیر منطقی اعتراض کے سبب شامل نہیں ہوپائے۔ علامہ شیخ محمد شفاء نجفی والی کمیٹی کا کام تا دم ِ تحریر جاری ہے اس میں پیش رفت کا کافی امکان ہے۔
نصاب ِ تعلیم میں اصلاح جیسے اہم قومی مسئلے پر ہم آہنگی پیدا کرنے‘ متفقہ قومی موقف کی تشکیل و ترسیل کے لیے‘ حکومت و ذمہ دار اداروں کی توجہات مبذول کرانے کے لیے اور اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کو منظم کرنے کے لیے قائد ِ محترم کی رہنمائی اور ہدایت میں چار حضرات نے مشاورتی عمل جاری رکھاجس میں علامہ محمد افضل حیدری‘ علامہ شیخ محمد شفاء نجفی‘ مولانا سید محمد نجفی اور سید اظہار بخاری شامل ہیں۔ یہی حضرات باہم رابطے اور مشاورتی عمل کے ذریعے پیش رفت کا جائزہ لیتے رہے۔
ا سلامیات (جماعت یکم تا پنجم) کی کتب کی خواندگی و جا ئزہ25 تا 27 مئی تک جامعۃ الکوثر اسلام آباد میں مذکورہ حضرات کی تین روزہ میٹنگ جاری رہی جس میں یکم سے پنجم تک اسلامیات کی کتب کی خواندگی نہایت تفصیل اور توجہ سے کی گئی۔ یکم سے ہشتم تک اسلامیات‘ اردو‘ انگریزی‘ تاریخ‘ سوشل اسٹڈیز‘ سائنس وغیرہ مضامین کے سلیبس کا جائزہ لیا گیا۔ علامہ شیخ محمد شفاء نجفی قومی نصاب کونسل کی طرف سے منعقدہ کانفرنس اور اسلامیات کلاس ششم تا ہشتم کے نصاب کے نظرثانی اجلاس کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اس میٹنگ میں بھی شریک رہے۔ جبکہ مولانا سید محمد نجفی بھی اپنی ذاتی مصروفیات کے باوجود شرکت کرتے رہے۔ باقی دو حضرات (علامہ محمد افضل حیدری اور سید اظہار بخاری) نے مکمل وقت دے کر میٹنگ کو ثمر آور اور نتیجہ خیز بنایا۔ اس کے بعد اسلامیات سمیت اکثر مضامین میں درج اعتراضات و اشکالات کو از سر ِ نو جمع کیا گیا۔
مستحسن اقدام
اس دوران 27 مئی کے دن علامہ شیخ محمد شفاء نجفی کو متعلقہ کمیٹی میں اپنا موقف منوانے کے لیے مشکلات پیش آئیں تو انہوں نے عقائد کے موضوع پرکسی قسم کی سودا بازی کرنے سے انکار کردیا۔ جس سے ماحول کشیدہ ہوا اور نوبت بائیکاٹ تک جا پہنچی۔ اس مرحلے پر علامہ شیخ محمد شفاء نجفی نے پہلے مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی اور پھر قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے حالات سے آگاہ کیا اور رہنمائی لی۔ جس کے بعد انہوں نے مزید استقامت سے اپنا موقف رکھا اور بالآخر اپنا موقف تسلیم کرالیا تب متفقہ مسودے پر دستخط کئے۔
کتب میں نقائص
یکم سے پنجم تک اسلامیات کی کتب میں موجود نقائص اور اعتراضات کا مسودہ قائد محترم کی خدمت میں پیش کیا گیا انہوں نے تفصیلی خواندگی اور جزیات کی حد تک مطالعہ کے بعد اصلاح فرمائی اس کے علاوہ ششم تک ہشتم اسلامیات کے سلیبس کا بھی تازہ صورتحال کے مطابق از سرِ نو جائزہ لیا اور اس میں موجود نقائص کی حتمی نشاندہی فرمائی۔
علاوہ بریں وفاقی اور صوبائی حکومتوں بالخصوص صدر عارف علوی‘ وزیر اعظم عمران خان‘ وزیر تعلیم شفقت محمود‘ وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری‘اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر‘ چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی‘ وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم‘ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد‘ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور‘ نصاب کونسل کے کوارڈینیٹر محمد رفیق طاہر‘ تمام صوبوں کے گورنرز‘ وزرائے اعلی‘ وزرائے تعلیم‘ آزادکشمیر کے صدر‘ وزیر اعظم‘ وزیر تعلیم اور دیگر متعلقین کے نام خطوط اور قومی نصاب تعلیم کے حوالے سے موقف و کتب پر اعتراضات پر مشتمل مسودات کے حتمی ڈرافٹ قائد ِ محترم کی رہنمائی میں تیار کئے گئے۔
مذکو رہ خطوط ہمراہ نصاب تعلیم کے بارے موقف اور کتب کے بارے میں نقائص کے مسودات علامہ محمد افضل حیدری جنرل سیکریٹری وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کی طرف سے ارسال کر دئیے گئے۔
سلسلہ رکا نہیں
سلسلہ یہیں رکا نہیں۔ یہ مختصر بریفنگ عوام کی معلومات اور صاحبان ِ اختیار کی توجہ کے لیے نشر کی جارہی ہے لیکن ابھی دیگر صوبوں بشمول آزادکشمیر کے ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے شائع ہونے والی یا اشاعت کے لیے آمادہ کتب کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے اور ان میں موجود نقائص و خامیوں اور اعتراضات و ابہامات کی نشاندہی کے لیے کام جاری ہے۔ جبکہ نویں دسویں اور گیارہویں بارہویں جماعت کے لیے مستقبل قریب میں سرکاری سطح پر سامنے آنے والے سلیبس‘ نصاب کے متعلق فیصلہ جات اور متوقع اقدامات پر بھی گہری نظر رکھی جا رہی ہے تاکہ یکساں قومی نصاب ِ تعلیم کو متفقہ‘ غیر متنازعہ اور تمام طبقات کے لیے قابل ِ قبول بنانے کی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے مناسب اقدامات اٹھائے جا سکیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=18842