29

علامہ قاضی نیاز حسین نقوی مرحوم داعی اتحاد بین المسلمین تھے،علامہ افتخار نقوی

  • News cod : 23868
  • 19 اکتبر 2021 - 12:58
علامہ قاضی نیاز حسین نقوی مرحوم داعی اتحاد بین المسلمین تھے،علامہ افتخار نقوی
"وفاق ٹائمز " سے گفتگو میں انہوں نے علامہ قاضی نیاز حسین مرحوم کے بارے میں کہا کہ علامہ مرحوم اسلام کا درخشاں ستارہ تھے انہوں نے پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ ایران کی سر زمین پر علمی حوالے سے اتنی ترقی اور نمایاں حیثیت حاصل تھی کہ انہیں باقاعدہ طور پر عدالتوں کا جج مقرر کیا گیا اور ہائیکورٹ کے جسٹس رہے تقریباً 25 سال نظام عدل سے وابسطہ رہے۔

بزرگ عالم دین علامہ قاضی نیاز حسین نقوی مرحوم جامعۃ المنتظر لاہور کے پرنسپل اور ملی یکجہتی کونسل پاکستان اور وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے نائب صدر تھے۔ مرحوم سیاسی و مذہبی امور پر گہری نظر رکھتے تھے، مختلف معاملات میں وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کی ترجمانی بھی کرتے رہے۔ سیاست میں بھی دلچسپی رہی۔ سیاسی بصیرت کی بدولت مختلف سیاسی جماعتوں کے اجتماعات میں جامعہ کی نمائندگی کرتے رہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر بھی ملت جعفریہ کی مؤثر آواز تھے۔ علامہ قاضی نیاز حسین نقوی اسلامی جمہوریہ ایران میں جج کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مرحوم امام جمعہ علی مسجد بھی تھے۔ علامہ سید قاضی نیاز حسین کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد 20 اکتوبر 2020ء کو ایران کے شہر قم میں انتقال کرگئے۔
علامہ قاضی نیاز حسین نقوی نے اپنے آخری ایام میں میڈیا کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستانی دینی مدارس کی ترجمانی کے لئے ” وفاق ٹائمز ” کے عنوان سے ایک میڈیا پلیٹ فارم بنایا جو کہ اپنی خدمات سرانجام دینے میں مصروف عمل ہے۔
علامہ قاضی نیاز نقوی کی پہلی برسی کی مناسبت سے ” وفاق ٹائمز ” نے مختلف شخصیات سے ان سے متعلق انٹرویوز کیا ہے جنہیں وقتاً فوقتاً قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔

اس سلسلے کا پہلا انٹرویو پیش خدمت ہے:

علامہ سید افتخار حسین نقوی کا شمار پاکستان کی معروف مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے اور آپ علامہ قاضی نیاز حسین نقوی کو بھی قریب سے جانتے ہیں ،”وفاق ٹائمز ” سے گفتگو میں انہوں نے علامہ قاضی نیاز حسین مرحوم کے بارے میں کہا کہ علامہ مرحوم اسلام کا درخشاں ستارہ تھے انہوں نے پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ ایران کی سر زمین پر علمی حوالے سے اتنی ترقی اور نمایاں حیثیت حاصل تھی کہ انہیں باقاعدہ طور پر عدالتوں کا جج مقرر کیا گیا اور ہائیکورٹ کے جسٹس رہے تقریباً 25 سال نظام عدل سے وابسطہ رہے اس کے بعد وہ پاکستان تشریف لائے اور پاکستان میں سب سے بڑی علمی درسگاہ جامعۃ المنتظر کی نظامت کو سنبھالا، پاکستان میں جہاں انہوں نے سینکڑوں طلباء کی تربیت،مساجد اور امام بارگاہوں کی تعمیر اور غریب و نادار افراد کی سرپرستی کی وہاں پر امت اسلامیہ کے اتحاد و وحدت کے لئے بہت ذیادہ کوششیں کیں۔ دینی مدارس میں شیعہ مکتب کے مدارس کی بھرپور نمائندگی کی اور اسی طرح وفاق المدارس کے پلیٹ فارم سے وحدت اور یکجہتی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا میں سمجھتا ہوں ان کے جانے سے بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے ان کی جگہ آسانی سے پر نہیں ہو سکے گی۔

علامہ سید افتخار حسین نقوی نے کہا کہ بلاشبہ ایک ممتاز علمی خانوادے سے تعلق رکھنے والی فاضل شخصیت کا داغ مفارقت دینا نہ صرف ان کے خانوادے بلکہ قوم و ملت کے لئے ناقابل تلافی نقصان کا سبب ہے۔ ان کی علمی،تعلیمی اور دینی خدمات اور اتحاد بین المسلمین جیسے اہم امور میں مرکزی کردار ہمیشہ کے لئے یاد رکھا جائے گا اور ایسے دور اندیش عالم دین کی کمی کو ہر وقت اور خاص طور پر علمی حلقوں میں شدت سے محسوس کیا جائے گا۔عالم کا مقام اسلام میں بہت بڑا ہے عالم معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ ہوتا ہے اور معاشرے کی ترقی کا مضبوط ستون ہے تو ہمارے بہت ہی مہربان عالم جنہوں نے پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری وہ ہم سے جدا ہو گئے ۔

ان کی وفات کو ابھی ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے، بہت ہی خوش اخلاق اور بہت ہی متواضع اور بہت ہی ذہین تھے، انہوں نے ایران میں رہ کر قضاوت کے میدان میں اتنا نمایاں مقام حاصل کیا ان کو ایران کی عدالتوں کا جج مقرر کیا گیا اور خرم آباد جیسا خطرناک علاقہ جہاں اس وقت روزانہ دھماکے ہوتے تھے وہاں انہیں جسٹس لگایا گیا اور انہوں نے اپنے اخلاق اور جرأت مندانہ فیصلوں سے اپنا مقام اور نمایاں کیا اور اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے چیف جسٹس تک چلے گئے ہائیکورٹ کی طرف سے وہاں پر ان کے لئے ہر قسم کی سہولتیں موجود تھیں ان کا بڑا مقام تھا خاص کر اسلامی جمہوریہ ایران میں جو عدالت کا سربراہ بن جاتا ہے اس کی بہت قدر کی جاتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ علامہ قاضی نیاز حسین نقوی مرحوم نے مناسب جانا کہ تمام سہولیات کو ترک کرتے ہوئے پاکستان واپس آئے اور اپنے مادر علمی جامعہ المنتظر میں خدمات سرانجام دینا شروع کیا یہاں انہوں نے جامعہ کی تعمیر و ترقی اور تدریسی نظام میں وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی لائی اور خاص کر ائمہ جمعہ و جماعت کے سسٹم کو منظم کرنے کے لئے کام کیا ان تمام سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے تصنیف و تالیف کو بھی ضروری امر جانا اور اس میدان میں بھی کافی کوششیں کیں اور مختلف علوم کی کتابیں بالخصوص اُردو زبان میں کم پائی جانے والی حدیثی تاریخی کتابیں ہیں ان پر کام کیا اگرچہ محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی بانی جامعہ المنتظر نے اس بنیاد کو پہلے ہی رکھ دیا تھا انہوں نے کثیر تعداد مین کتابوں کے تراجم خود بھی اور بالخصوص قرآن کی تفسیر کے حوالے قاضی صاحب نے مزید اس کام کو اگے بڑھایا اور انہوں نے علماء اہل سنت کے ساتھ روابط کو بڑا مضبوط کیا کیونکہ پاکستان میں فرقہ واریت کے خاتمے میں شیعہ علماء کا کرداد ہمیشہ نمایاں رہا ہے اس میں علامہ نیاز نقوی صاحب نے بہت عمدہ کردار ادا کیا ہے اور اسی طرح حکومت کے ساتھ وفاق المدارس کے پلیٹ فارم سے اس کے سربراہ سے مل کر نمایاں کردار ادا کیا اور حکومت کی سطح پر مذاکرات میں ہمیشہ مضبوط موقف پیش کیا اور ہمارے لئے اور خاص طور پر علمی حلقوں کے لئے ان کا جلدی کوچ کر جانا ایک صدمہ ہے کیونکہ ہر عالم کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے اس کا اپنا مقام ہوتا ہے جس میں وہ کام کر رہا ہوتا ہے اس عالم کے چلے جانے کے بعد وہ سلسلہ اسی کی خصوصیت ہوتا ہے اور ہمیں توقع ہے ان کی اولاد اس سلسلہ کو قائم اور دائم رکھے گی آپ لائق اور قابل اولاد بھی تڑکے کے طور پر چھوڑ گئے ہیں۔
ہماری دعا ہے اللہ ان کےدرجات کو بلند کرے اور ان کی اولاد کو توفیق دے کہ وہ اپنے بابا کے ان بہترین کاموں کو جاری وساری رکھے اور وہ بھی اپنے بابا کی طرح پاکستان کی سر زمین کو نور علم سے روشنی ادا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=23868