8

غیبت امام مہدی عج(قسط23)

  • News cod : 26131
  • 05 دسامبر 2021 - 10:25
غیبت امام مہدی عج(قسط23)
4 مکتب تشیع کا تحفظ: ہر معاشرے کو اپنے نظام کی حفاظت اوراپنے مطلوبہ مقصد تک پہنچنے کے لئے ایک آگاہ رہبر کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کی اعلیٰ قیادت اور رہنمائی میں معاشرہ صحیح راستہ پر قدم بڑھائے۔ ایک رہبر اور ہادی کا وجود معاشرے کے افراد کے لئے بہت بڑی پشت پناہی ہے تاکہ معاشرہ ایک بہترین نظام کے تحت اپنی حیثیت کو باقی رکھ سکے اور آئندہ کے پروگرام کے استحکام کے لئے کمر ہمت باندھ لے۔

سلسلہ بحث مہدویت

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

غیبت امام عج کے اس پر مصائب اور فتن و حوادث سے بھرے دور میں ہم کیسے اپنے محبوب امام عج سے فیضیاب ہوں ؟
یہ وہ سوال تھا جس نے ہمارے بہت سے تشنہ حقیقت اذھان کو پریشان کیا ہوا ہے.اس سوال کے جواب میں گذشتہ کچھ اقساط میں ہم نے قران و احادیث کی رو سے بحث کی اور کائنات بالخصوص اپنی دنیاوی زندگی میں وجود امام عج کے محسوس اثرات بیان کیے ہیں.
اگرچہ گذشتہ قسط میں کوشش کی ہے کہ اس بحث کو سمیٹ دیا جائے اور ایک نیا موضوع شروع کریں, لیکن کچھ احباب کا اصرار ہے اس بحث کو مزید بڑھایا جائے اور غیبت کے باوجود یوسف زھراء عج کے ہمارے درمیان فیوض و برکات پر روشنی ڈالی جائے.اسی لیے چند نکات کا اضافہ کیا جاتا ہے.
4 مکتب تشیع کا تحفظ:
ہر معاشرے کو اپنے نظام کی حفاظت اوراپنے مطلوبہ مقصد تک پہنچنے کے لئے ایک آگاہ رہبر کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کی اعلیٰ قیادت اور رہنمائی میں معاشرہ صحیح راستہ پر قدم بڑھائے۔
ایک رہبر اور ہادی کا وجود معاشرے کے افراد کے لئے بہت بڑی پشت پناہی ہے تاکہ معاشرہ ایک بہترین نظام کے تحت اپنی حیثیت کو باقی رکھ سکے اور آئندہ کے پروگرام کے استحکام کے لئے کمر ہمت باندھ لے۔
ایک زندہ اورمتحرک رہبر اگرچہ لوگوں کے درمیان نہ بھی ہو پھر بھی اعلی مقاصد تک پہنچنے کے لئے پروگرام اور اصول پیش کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اور مختلف طریقوں سے منحرف راستوں سے خبردار کرتا رہتا ہے۔
امام عصر عليہ السلام اگرچہ پردہ غیبت میں ہیں لیکن آپ کا وجود مذہب شیعہ کے تحفظ کا عظیم اور حقیقی عامل ہے۔ آپ دشمنوں کی سازشوں سے مکمل آگاہی کے ساتھ شیعہ عقائد کی فکری سرحدوں کی مختلف طریقوں سے حفاظت کرتے ہیں اور جب مکار اور فریب کار دشمن مختلف چالوں اور حیلوں کے ذریعہ مکتب شیعہ کے اصول اورلوگوں کے عقائد کو نشانہ بناتا ہے، اس وقت امام عليہ السلام علماء اور برگزیدہ افرادکو ہدایت و ارشاد کرتے ہوئے دشمن کے نفوذ کے تمام راستے بند کر دیتے ہیں۔
نمونہ کے طور پر بحرین کے شیعوں پر حضرت امام مہدی عليہ السلام کی عنایت اورلطف کو علامہ مجلسی(رہ) کی زبانی سنتے ہیں:
”گزشتہ زمانہ میں بحرین پرایک ناصبی حاکم حکومت کرتا تھا جس کا وزیر وہاں کے شیعوں کے ساتھ بادشاہ سے بھی زیادہ دشمنی رکھتا تھا۔
ایک روز وزیر ، بادشاہ کے پاس حاضر ہوا، جس کے ہاتھ میں ایک انار تھا جس پر طبیعی شکل میں یہ جملہ نقش تھا:
”لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَسُوْلُ اللّٰہ، وَ اَبُوبَکر و عُمْر و عُثْمَان و عَلِی خُلُفَائُ رَسولِ اللّہِ”۔
بادشاہ اس انار کو دیکھ کر تعجب میں پڑگیا اور اس نے اپنے وزیر سے کہا: یہ تو شیعہ مذہب کے باطل ہونے کی واضح اور آشکار دلیل ہے۔ بحرین کے شیعوں کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟
وزیر نے جواب دیا: میری رائے کے مطابق ان کو حاضر کیا جائے اور یہ نشانی ان کو دکھائی جائے، اگر ان لوگوں نے مان لیا تو انہیں اپنا مذہب چھوڑنا ہوگا، ورنہ تین چیزوں میں سے ایک چیزکا انتخاب کرنا ہو گا! یا تو اطمینان بخش جواب لے کر آئیں، یا جزیہ دیا کریں، یا ان کے مردوں کو قتل کردیں ، ان کے بچوں اور عوتوں کوقید کرلیں اور ان کے مال و دولت کو غنیمت میں لے لیں۔
بادشاہ نے اس کی رائے کو قبول کیا اور شیعہ علماء کو اپنے پاس بلا بھیجا اور ان کے سامنے وہ انار پیش کرتے ہوئے کہا:
اگرتم اس سلسلہ میں واضح اور روشن دلیل پیش نہ کرسکے تو تمھیں قتل کردوں گا اور تمھارے اہل و عیال کو اسیر کر لوں گا یا تم لوگوں کو جزیہ دینا ہوگا۔
شیعہ علماء نے اس سے تین دن کی مہلت مانگی چنانچہ ان حضرات نے بحث و گفتگو کے بعد یہ طے کیا کہ بحرین کے دس صالح اور پرہیزگار علماء کا انتخاب کیا جائے اور وہ دس افراد اپنے درمیان تین لوگوں کا انتخاب کریں .
چنانچہ ان تینوں میں سے ایک عالم سے کہا: آپ آج صحرا کی طرف نکل جائیں اور امام زمانہ عليہ السلام سے استغاثہ کریں اور ان سے اس مصیبت سے نجات کا راستہ معلوم کریں, کیونکہ وہی ہمارے امام اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہمارا وسیلہ ہیں۔
چنانچہ اس عالم نے ایسا ہی کیا لیکن امام زمانہ عليہ السلام سے ملاقات نہ ہوسکی، دوسری رات ، دوسرے عالم کو بھیجاگیا لیکن ان کو بھی کوئی جواب نہ مل سکا .
آخری رات تیسرے عالم بزرگوار بنام محمد بن عیسیٰ کو بھیجاگیا چنانچہ وہ بھی صحرا کی طرف نکل گئے اور روتے پکارتے ہوئے امام عليہ السلام سے مدد طلب کی۔ جب رات اپنی آخری منزل پر پہنچی تو انھوں نے سنا کہ کوئی شخص ان سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے:
اے محمد بن عیسیٰ! میں تمہیں اس حالت میں کیوں دیکھ رہا ہوں اور تم جنگل و بیابان میں کیوں آئے ہو؟
محمد بن عیسیٰ نے ان سے کہا کہ مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو. انھوں نے فرمایا: اے محمد بن عیسیٰ! میں تمہارا صاحب الزمان ہوں، تم اپنی حاجت بیان کرو!
(جاری ہے….)

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=26131