13

5 جنوری۔۔۔۔ حقِ خود ارادیت تو دور کی بات

  • News cod : 27589
  • 05 ژانویه 2022 - 11:50
5 جنوری۔۔۔۔ حقِ خود ارادیت تو دور کی بات
جہانِ اسلام کو خبر ہو یا نہ ہو، عالمی برادری کو بھی یاد ہو یا نہ ہو، آج پانچ جنوری ہے۔ 1949ء کو آج ہی کے دن اقوامِ متحدہ نے ایک انتہائی اہم قرارداد منظور کی تھی۔ اس قرارداد میں کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت تسلیم کیا گیا تھا۔ تاریخی اسناد کے مطابق 1947ء میں ہی کشمیریوں نے علمِ آزادی بلند کر دیا تھا۔

تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

جہانِ اسلام کو خبر ہو یا نہ ہو، عالمی برادری کو بھی یاد ہو یا نہ ہو، آج پانچ جنوری ہے۔ 1949ء کو آج ہی کے دن اقوامِ متحدہ نے ایک انتہائی اہم قرارداد منظور کی تھی۔ اس قرارداد میں کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت تسلیم کیا گیا تھا۔ تاریخی اسناد کے مطابق 1947ء میں ہی کشمیریوں نے علمِ آزادی بلند کر دیا تھا۔ 27 اکتوبر 1947ء کو جب بھارت نے زبردستی کشمیر پر قبضہ کیا تو اُسے شدید مقاومت اور ردِّعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ جلد ہی اُسے احساس ہوگیا کہ زمینی حقائق اُس کے حق میں نہیں ہیں۔ چنانچہ بھارت نے یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں لے جانے کی ٹھانی۔ یکم جنوری 1948ء کو بھارت کی طرف سے پہلی مرتبہ یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں اٹھایا گیا۔ تین ماہ اور 20 دن کے بعد سلامتی کونسل نے اس مسئلے کیلئے ایک کمیشن بنایا۔ 21 اپریل کو کمیشن بنا اور 13 اگست کو اس کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں سلامتی کونسل نے ایک ابتدائی قرارداد منظور کی۔

ابتدائی قرارداد کے نواقص کو دیکھتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے اقوام متحدہ میں تعینات پاکستانی وفد کو قرارداد میں ضروری اصلاحات کی طرف متوجہ کیا۔ چنانچہ 5 جنوری 1949ء میں دراصل وہی قرارداد اصلاحات اور تکمیل کے بعد دوبارہ منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے اُنہیں یہ حق دیا گیا اور پاکستان و ہندوستان دونوں کو اس کا پابند کیا گیا کہ وہ اس مسئلے کے حل کیلئے کشمیر میں استصوابِ رائے کرائیں۔ یہ قراداد انتہائی اہم ہے۔ اسی کی وجہ سے مسئلہ کشمیر آج تک اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ مذکورہ بالا پسِ منظر کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے میں خود بھارت نے شامل کروایا ہے۔ اس کے بعد اقوامِ متحدہ میں کشمیریوں کی وکالت پاکستان نے کرنی تھی۔ ہم نہ صرف یہ کہ اقوامِ متحدہ میں کشمیر کی وکالت نہیں کرسکے بلکہ عالمِ اسلام کو بھی مسئلہ کشمیر پر اپنا ہمنوا نہیں بنا سکے۔

ایک طرف تو پاکستان جہانِ اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہے۔ ساری خلیجی ریاستیں اپنے دفاع کیلئے پاکستان کی طرف دیکھتی ہیں۔ سعودی ملٹری الائنس میں شامل 35 مسلم ممالک کی بین الاقوامی فورس کی قیادت کا سہرا بھی بظاہر ایک پاکستانی ریٹائرڈ جنرل کے سر پر سجتا ہے، لیکن دوسری طرف انہی ریاستوں کی طرف سے کبھی بھی کشمیر میں استصوابِ رائے کیلئے کسی قسم کا دباو بھارت پر نہیں ڈالا گیا۔ ہماری ستر سالہ سفارتی ناکامیوں اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 5 اگست 2019ء کو بھارت نے اپنے قانون میں ایک ترمیم کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا ہی خاتمہ کر دیا۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا آغاز ایک انسانیت سوز کرفیو سے کیا گیا۔ سات لاکھ سے زائد فوج نے نہتے لوگوں کا نظامِ زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، میڈیا پرسنز نیز اُمّت اُمّت اور اسلامی ملٹری الائنس کے نعرے لگانے والوں کو سانپ سونگھ گیا۔ ایسا بدترین کرفیو اور لاک ڈاون تھا کہ موبائل نیٹ ورک، انٹرنیٹ سروس، غذائی اجناس اور دوائیوں کی ترسیل تک قطع کر دی گئی۔ گلیوں میں موت رقص کر رہی تھی اور ہسپتال فوجی بیرکوں میں بدل گئے تھے۔

کشمیری قیادت نظربند اور گرفتار جبکہ عوام گھروں میں محصور رہے۔ اس عرصے میں سخت کرفیو اور بھاری فوج کی تعیناتی سے تنگ آکر لوگ وقتاً فوقتاً احتجاج کیلئے نکلتے اور مسلسل شہید و زخمی ہوتے رہے۔ ایک قیامت تھی جو مقبوضہ وادی میں ٹوٹی ہوئی تھی اور ایک خاموشی اور بے حسی تھی، جو ساری دنیا پر چھائی ہوئی تھی۔ بالاخر 21 اگست 2019ء کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس سکوت کو توڑا۔ انہوں نے ایران کے صدر کے ساتھ ملاقات میں کشمیر کے مسلمانوں کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں کشمیر کے حالات کی وجہ سے دُکھی ہوں۔ اگرچہ وزارتِ خارجہ کے دوست یہاں نہیں ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے مسلمان واقعی مجبور ہیں، اُن پر حقیقی معنوں میں شدید دباؤ ہے، وہاں کے ان شریف النّفس لوگوں کے ساتھ ہندوستان کو منصفانہ طرزِ عمل اپنانا چاہیئے۔

یہاں پر میں اپنے قارئین کی سہولت کیلئے ان کی گفتگو کا فارسی اقتباس بھی پیش کئے دیتا ہوں: “من از وضع کشمیر ناراحتم، حالا این دوستان وزارت خارجه اینجا حضور ندارند، واقعاً به مردم مسلمان کشمیر دارد زور گفته میشود، حقیقتاً دارد فشار وارد آورده میشود، یک سیاست منصفانه‌ای بایستی برای این مردم نجیب که در آنجا هستند، در پیش گرفته بشود از سوی دولت هند۔” ان کی اس گفتگو سے جہاں عالمی برادری کی توجہ کشمیر کی طرف مبذول ہوئی، وہیں ایران میں مقیم یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے طلباء نیز ایرانی میڈیا میں بھی ایک حرکت آئی۔ اگر آپ بطورِ نمونہ کچھ دیکھنا چاہیں تو اس لنک پر کلک کیجئے۔
https://farsi.khamenei.ir/video-content?id=43398

یاد رہے کہ یہ ایران کیلئے بڑا کٹھن مرحلہ تھا، کٹھن اس لئے کہ پہلے سے ہی ایران پر عالمی اداروں کی طرف سے اقتصادی پابندیاں ہیں۔ ان پابندیوں کے دوران تجارتی لحاظ سے ایران کیلئے بھارت بہت اہمیت رکھتا تھا۔ تاہم ایران نے اپنے تمام تر مفادات کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئے کشمیر کے مسئلے پر موثر آواز بلند کی۔ اس کے ساتھ ہی ایران میں مختلف اداروں کے طلبا اور عوام نے کشمیریوں کے حق میں مظاہرے بھی کئے اور تہران میں قائم ہندوستانی ایمبیسی کے سامنے بھی احتجاجی جلسے جلوس دیکھنے میں آئے۔ یہ سب بہت اچھا ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ دنیا کے سارے مسلمان ممالک خصوصاً خلیجی ریاستوں میں ایسی ہی لہر اور حرکت کی ضرورت ہے۔ سعودی ملٹری الائنس اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں اور تمام انسانیت کا احترام کرنے والے اداروں اور دانشوروں کی طرف سے کشمیریوں کو اُن کا حقِ خود ارادیت دلوانے کی خاطر بھارت پر دباو ڈالنے کی ضرورت ہے۔

عالمی برادری اور جہانِ اسلام کو خبر ہو یا نہ ہو، ہم انہیں یہ یاد دلائے دیتے ہیں کہ آج پانچ جنوری ہے۔ آج ہی کے دن اقوامِ متحدہ نے کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی قرارداد منظور کی تھی۔ ہم اگر کچھ اور نہیں کرسکتے تو کم از کم اُمتِ مسلمہ اور عالمی برادری کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ استصوابِ رائے تو دور کی بات ہے اب مقبوضہ کشمیر ایک انسان کُش جیل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایک ایسی جیل جو قبرستان بن چکی ہے، جہاں جلاد ہی حاکم اور جلاد ہی منصف ہے۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=27589