9

غیبت امام مہدی عج(قسط35)

  • News cod : 31593
  • 17 مارس 2022 - 13:58
غیبت امام مہدی عج(قسط35)
جو چیز امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی معرفت حاصل کرنے اور آپ کی پیروی کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے اور انتظار کی راہ میں پائیداری و استقامت عطا کرتی ہے ، وہ روحوں اور دلوں کے طبیب (امام مہدی عليہ السلام ) سے ہمیشہ رابطہ برقرار رکھنا ہے۔

سلسلہ بحث مہدویت

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

منتظرین کا دوسرا فریضہ:
نمونہ عمل :
جس وقت امام عليہ السلام کی معرفت اور ان کی سیرت کے خوبصورت جلوے ہماری نظروں کے سامنے ہوں گے , تو اس مظہر کمالات کو نمونہ قرار دینے کی بات آئے گی۔
پیغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
”خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو میری نسل میں سے قائم کو اس حال میں دیکھیں کہ ان کے قیام سے پہلے خود ان کی اور ان سے پہلے آئمہ کی اقتداء کرتے ہوں اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرتے ہو۔ ایسے افراد میرے دوست اور میرے ساتھی ہیں اور یہی لوگ میرے نزدیک میری امت کے سب سے معززو عظیم افراد ہیں”۔ ( کمال الدین،ج١،باب٢٥،ح٣،ص٥٣٥.)
واقعاً جو شخص تقویٰ، عبادت، سادگی، سخاوت، صبر اور تمام اخلاقی فضائل میں اپنے امام کی پیروی کرے تو اس الٰہی رہبر کے نزدیک ایسے شخص کا رتبہ کس قدربلند ہوگا اور ان کے حضور میں شرفیابی سے کس قدر سرفراز اور سربلند ہوگا؟!
کیا ایسا نہیں ہے کہ جو شخص دنیا کے سب سے خوبصورت موجود کا منتظر ہے وہ اپنے وجود کو خوبیوں سے آراستہ کرتا ہے اور خود کو برائیوں اور اخلاقی پستیوں سے دور رکھتا ہے؟!

نیز انتظار کے لمحات میں اپنے افکار و اعمال کی حفاظت کرتا رہے؟!
اگر ایسانہ ہو تو انسان آہستہ آہستہ برائیوں کے جال میں پھنس جائے گا اور اس کے اوراس کے امام کے درمیان فاصلہ زیادہ ہوتا جائے گا۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو خود خطرات سے آگاہ کرنے والے امام عليہ السلام کے کلام میں بیان ہوئی ہے:
”فَمَا یَحْبِسُنَا عَنہُم الاَّ مَا یَتَّصِلُ بِنَا مِمَّا نُکْرِہُہْ وَلاٰ نُوُثِرُہُ مِنْہُم” ( بحار الانوار ج٥٣،ص ١٧٧.)
‘کوئی بھی چیز ہمیں شیعوں سے جدا نہیں کرتی، مگر خود ان کے وہ (برے) اعمال جو ہمارے پاس پہنچتے ہیں جن اعمال کو ہم پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ایسے کاموں کی ہمیں اپنے شیعوں سے توقع ہے!”۔منتظرین کی آخری آرزو یہ ہے کہ امام مہدی عليہ السلام کی عادلانہ عالمی حکومت کی تشکیل میں کچھ حصہ ان کا بھی ہو اور اس آخری حجت خدا کی نصرت و مدد کا فخر ان کو بھی حاصل ہو، لیکن اس عظیم سعادت کو حاصل کرنا خود سازی اور اخلاقی صفات سے آراستہ ہوئے بغیر ممکن نہیں ہے۔
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ہیں:
”مَنْ سَرَّہ ان یَکُونَ مِن اصحَابِ القَائِمِ فَلْیَنْتَظِرُ و لْیَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الاَخْلاَقِ وَ ہُوَ مُنْتَظِر”
”جو شخص یہ چاہتا ہو کہ حضرت قائم عليہ السلام کے مدگاروں میں شامل ہو تو اسے منتظر رہنا چاہئے اور انتظار کے دوران تقویٰ اور پرہیزگاری اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ہونا چاہیے”۔( غیبت نعمانی ،باب١١،ح ١٦،ص٢٠٧.)
یہ بات روشن ہے کہ ایسی آرزو تک پہنچنے کے لئے خود امام مہدی عليہ السلام سے بہتر کوئی نمونہ نہیں مل سکتا جو تمام خوبیوں کا آئینہ ہے۔
منتظرین کا تیسرا وظیفہ

امام عليہ السلام کی یاد:
جو چیز امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی معرفت حاصل کرنے اور آپ کی پیروی کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے اور انتظار کی راہ میں پائیداری و استقامت عطا کرتی ہے ، وہ روحوں اور دلوں کے طبیب (امام مہدی عليہ السلام ) سے ہمیشہ رابطہ برقرار رکھنا ہے۔
واقعاً جب وہ مہربان امام ہر وقت اور ہر جگہ شیعوں کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کوکبھی نہیں بھولتے تو کیا یہ مناسب ہے کہ ان کے چاہنے والے دنیاوی امور میں مست ہو جائیں اور اس محبوب امام سے غافل اور بے خبرہوجائیں؟
�یا دوستی اور محبت کی راہ و رسم یہ ہے کہ ہر حال میں ان کو اپنے اور دوسروں پر مقدم رکھا جائے، جس وقت مصلائے دعا پر بیٹھیں ان کی سلامتی اور ظہور کے لئے دست دعا بلند کریں. جس کے لئے خود حضرت نے بھی فرمایا ہے:
�”میرے ظہور کے لئے بہت دعا کیا کرو کہ اس میں خود تمہاری گشائش بھی ہے۔” ( کمال الدین،ج١، باب٤٥،ح٤ص٢٣٧.)
�لہٰذا ہمیشہ یہ دعا ہماری ورد زبان رہے:
�”اَللَّہُمَّ کُنْ لِوَلِیِّکَ الحُجَّةِ بْنِ الحَسَنِ صَلَوٰاتُکَ عَلَیہِ وَ عَلٰی آبَائِہِ فِی ہَذِہِ السَّاعَةِ وَ فِی کُلِّ سَاعَةٍ وَلِیاً وَ حَافِظاً وَ قَائِداً وَ نَاصِراً وَ دَلِیلاً وَ عَیناً حَتّٰی تُسکِنَہُ اَرْضَکَ طَوْعاً وَ تُمَتِّعَہ فِیْہَا طَوِیْلاً”۔
”پروردگارا! اپنے ولی حجت بن الحسن کے لئے کہ تیرا درود و سلام ہو ان پر اور ان کے آباء و اجداد پر ، اس وقت اور ہر وقت سرپرست اور محافظ، رہبر، ناصر و مددگار، راہنما اور نگہبان بن جا، تاکہ ان کو اپنی زمین میں اپنی رغبت اور مرضی سے سکونت دے اور ان کو طولانی زمانہ تک زمین پربہرہ مند فرما”۔
( کمال الدین،ج١ ،باب٤٥،ح٤ص٢٣٧.)

(جاری ہے……)

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=31593