4

غیبت امام مہدی عج(قسط36)

  • News cod : 31624
  • 18 مارس 2022 - 6:19
غیبت امام مہدی عج(قسط36)
راہ انتظار پر چلنے والا (عاشق) امام مہدی عليہ السلام کے نام سے منسوب محافل اور مجالس میں شریک ہوتا ہے تاکہ اپنے دل میں ان کی محبت کی جڑوں کو مستحکم کرے اور امام عصر عليہ السلام کے نام سے منسوب مقدس مقامات جیسے مسجد سہلہ، مسجد جمکران اور سرداب مقدس میں حاضر ہوتا رہتا ہے۔

سلسلہ بحث مہدویت

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

گذشتہ سے پیوستہ:
حقیقی منتظر صدقہ دیتے وقت پہلے اپنے امام عليہ السلام کے وجود شریف کو مدّ نظر رکھتا ہے اور ہر طریقہ سے اس محبوب کے دامن سے متوسل ہوتا ہے اور ان کے مبارک ظہور کا مشتاق رہتا ہے اور ان کے بے مثال جمال پْر نور کے دیدار کے لئے آہ و نالہ کرتا رہتا ہے۔
”عَزِیز عَلَیَّ اَنْ اَرَی الخَلْقَ وَ لَا تُریٰ” ( مفاتیح الجنان،دعائے ندبہ.)
”(واقعاً) میرے لئے کتنا سخت ہے کہ میں سب کو دیکھوں لیکن آپ کا دیدار نہ ہوسکے!!”۔
راہ انتظار پر چلنے والا (عاشق) امام مہدی عليہ السلام کے نام سے منسوب محافل اور مجالس میں شریک ہوتا ہے تاکہ اپنے دل میں ان کی محبت کی جڑوں کو مستحکم کرے اور امام عصر عليہ السلام کے نام سے منسوب مقدس مقامات جیسے مسجد سہلہ، مسجد جمکران اور سرداب مقدس میں حاضر ہوتا رہتا ہے۔
امام مہدی عليہ السلام کے ظہور کا انتظار کرنے والوں کی زندگی میں آپ کی یاد کا بہترین جلوہ یہ ہے کہ ہر روز اپنے امام عليہ السلام سے تجدید عہد کریں اور وفاداری کا پیمان باندھیں اور اس عہد نامے پر برقرار رہنے کا اعلان کریں۔
جیسا کہ دعائے عہد کے فقرات میں ہم پڑھتے ہیں:
”اللّٰہُمَّ اِنیِّ اُجَدِّدُ لَہُ فی صَبِیحَةِ یَوْمِی ہَذَا وَ مَا عِشْتُ مِن اَیَّامِی عَہْداً وَ عَقْدًا وَ بَیْعَةً لَہُ فِی عُنُقیِ لاَ اَحْولُ عَنھا وَ لاَ اَزُوْلُ اَبَداً، اللّٰہُمَّ اجْعَلنِی مِنْ اَنصَارِہِ وَ اَعوَانِہِ ، وَالذَّآبِّینَ عَنْہُ وَ المُسَارِعِینَ اِلَیہِ فِی قَضَآء ِ حَوَآئِجِہِ وَ المُمتَثِلِینَ لِاوَامِرِہِ وَ المُحَامِینَ عَنْہ وَ السَّابِقِیْنَ اِلیٰ اِرَادَتِہِ وَ المُستَشہَدِیْنَ بَینَ یَدَیہِ ” (دعائے عہد , مفاتیح الجنان)
اگرایک شخص ہمیشہ اس دعائے عہد کو پڑھتا رہے اور دل کی گہرائی سے اس کے مضمون پرکاربند رہے تو ہرگز سستی میں مبتلا نہ ہوگا اور اپنے امام کی آرزوؤں کو عملی جامہ پہنانے اور آپ کے ظہور کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتا رہے گا اور ایک لمحہ کیلئے بھی بے کار نہیں بیٹھے گا ۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ ایسا شخص ہی اس امام برحق کے ظہور کے وقت ان کے ہمراہ حاضرہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمایا:
”جو شخص چالیس دن تک ہر صبح اپنے خدا سے یہ عہد کرے تو خدا ان کو ہمارے قائم کا ناصر و مددگار قرار دے گا اور اگر امام مہدی عليہ السلام کے ظہور سے پہلے اسے موت بھی آجائے تو خداوندعالم اسے قبر سے اٹھائے گا (تاکہ حضرت قائم عليہ السلام کی نصرت و مدد کرے)…۔
✍منتظرین کا چوتھا وظیفہ: وحدت اور ہم دلی
امام زمانہ عليہ السلام کے ظہور کی انتظار کرنے والے افراد کی انفرادی ذ مہ داریوں سے بات کو آگے بڑھائیں تو ان کی اجتماعی ذمہ داریوں کے حوالے سے یہی کہنا چاہئے کہ ان کے پاس ایک ایسا منصوبہ ہو جس سے امام زمانہ عليہ السلام کے اہداف پورے ہوتے ہوں۔
دوسرے الفاظ میں آپ کے منتظر معاشرہ کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس طرح سعی وکوشش کرے کہ
جس سے امام مہدی عليہ السلام کی حکومت کے اسباب فراہم ہوسکیں۔
امام عصر عليہ السلام اپنے فرمان میں اس طرح کے افراد کے لئے یہ بشارت دیتے ہیں:
اگر ہمارے شیعہ (کہ خداوند عالم ان کو اپنی اطاعت کی توفیق عطا کرے) اپنے کئے ہوئے عہدو پیمان پر یکدل اور مصمم ہوں تو ہرگز (ہمارے)دیدار کی نعمت میں دیر نہیں ہوگی اور مکمل و حقیقی معرفت کے ساتھ ہماری ملاقات جلد ہی ہوجائے گی”۔  (احتجاج،ج٢،ش٣٦٠،ص٦٠٠.)
اور یہ عہد و پیمان وہی ہے جو کتاب خدا اور الٰہی نمائندوں کے کلام میں بیان ہوا ہے، جن میں سے چند کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:
1⃣آئمہ معصومین علیہم السلام کی پیروی کرنے کی ہر ممکن کوشش اور آئمہ ہدیٰ ع کے چاہنے والوں سے دوستی اور ان کے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرنا۔
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام پیغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو میری نسل سے قائم کو اس حال میں دیکھیں کہ ان کے قیام سے پہلے خود ان کی پیروی کریں اور ان کے دوستوں سے دوستی اوران کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کریں، تو ایسے افراد میرے دوست اور میرے ساتھی ہیں اور روز قیامت میرے نزدیک میری تمام امت میں سے عزیز و عظیم افراد ہوں گے”۔ (کمال الدین،ج١، باب٢٥، ح٢،ص٥٣٥.2

2⃣دین میں تحریفات ،بدعتوں اور معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں اور فحشاء کے مقابلہ میں انتظار کرنے والوں کو بے توجہ نہیں رہنا چاہئے، بلکہ نیک سنتوں اور اخلاقی اقدار کے بھلائے جانے پر ان کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔
حضرت رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
”یقینا اس امت کے آخری زمانہ (آخر الزمان) میں ایک گروہ ایسا آئے گاجن کی جزاء اسلام میں سبقت کرنے والوں کی طرح ہوگی تو وہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرتے ہوں گے اور اہل فتنہ (و فساد) سے جنگ (مقابلہ) کرتے ہوں گے”۔ (دلائل النبوة،ج٦،ص٥١٣.)
(جاری ہے……)

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=31624