5

جامعۃ المصطفیؐ العالمیه۔۔۔ تعلیم و تربیت اور تحقیق کا حسین امتزاج

  • News cod : 41996
  • 29 دسامبر 2022 - 11:50
جامعۃ المصطفیؐ العالمیه۔۔۔ تعلیم و تربیت اور تحقیق کا حسین امتزاج
اسلامی انقلاب کے بعد حوزہ علمیہ قم کی مدیریت میں مزید بہتری آئی۔ 27 فروری 1981ء کو حضرت امام خمینی ؓ اور دیگر مراجع عظام کی مشاورت سے حوزہ علمیہ قم کی مدیریت کیلئے پہلا گروہِ مدیریت تشکیل دیا گیا۔ 1992ء میں رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی تجویز اور قم کے دیگر مراجع کرام کی منظوری سے ایک مرتبہ پھر حوزہ علمیہ قم کی سپریم کونسل تشکیل دی گئی۔ اس کونسل نے تمام تر منصوبہ بندی اور اہم فیصلے کیے اور انتظامی کام انتظامی کمیٹی کے سپرد کیا اور دینی مدارس کے مدیران کی تقرری اس کونسل کے سپرد کی گئی۔

تحریر: نذر حافی

آپ نے بھی جامعة المصطفیٰ العالمیه کا نام تو سُنا ہوگا۔ ایران کے شہر قم المقدس میں اس یونیورسٹی کا مرکزی دفتر ہے۔ جب بھی حدیث کے سکول آف تھاٹس کی بات ہوگی تو ایران کے شہر قُم کا ذکر ضرور ہوگا۔ چنانچہ صدیوں سے اس شہر کا ایک دینی و علمی مرکز ہونا اہلِ علم سے مخفی نہیں۔ تاہم قم المقدس میں موجودہ دینی و علمی حوزے کی بنیاد آیت اللہ عبدالکریم حائری ؓ نے 1922ء میں رکھی۔ آپ نے حوزہ علمیہ کی بنیاد بھی رکھی اور آیت اللہ بروجردی، حضرت امام خمینی، آیت الله سید محمد تقی خوانساری اور آیت اللہ ہاشم آملی جیسے عظیم شاگردوں کی تربیت بھی کی۔ آیت اللہ حائری کی وفات کے بعد حوزہ علمیہ قم کی مدیریت آیت اللہ سید محمد حجت کوہ کامری، آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری اور آیت اللہ سید صدرالدین صدر نے کی۔

بعد ازاں حوزہ علمیہ قم میں آیت اللہ بروجردی کی آمد سے اس کی علمی رونق اور مقام میں اضافہ ہوا۔ آپ کے عہد میں ہی حوزہ علمیہ قم نے اپنی بین الاقوامی فعالیت کا آغاز کیا آپ نے مدینہ منوّرہ میں تبلیغ کے لیے سید محمد تقی طالقانی آل احمد اور ان کی وفات کے بعد سید احمد لواسانی اور پھر شیخ عبدالحسین فقیہ رشتی کو بھیجا، اسی طرح آپ نے سید زین العابدین کاشانی کو کویت، شریعت زادہ اصفہانی کو پاکستان، مہدی حائری یزدی کو امریکہ اور سید صدرالدین محمد تقی بلاغی نائینی کو یورپ میں اپنے نمائندے کے طور پر بھیجا۔

اسلامی انقلاب کے بعد حوزہ علمیہ قم کی مدیریت میں مزید بہتری آئی۔ 27 فروری 1981ء کو حضرت امام خمینی ؓ اور دیگر مراجع عظام کی مشاورت سے حوزہ علمیہ قم کی مدیریت کیلئے پہلا گروہِ مدیریت تشکیل دیا گیا۔ 1992ء میں رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی تجویز اور قم کے دیگر مراجع کرام کی منظوری سے ایک مرتبہ پھر حوزہ علمیہ قم کی سپریم کونسل تشکیل دی گئی۔ اس کونسل نے تمام تر منصوبہ بندی اور اہم فیصلے کیے اور انتظامی کام انتظامی کمیٹی کے سپرد کیا اور دینی مدارس کے مدیران کی تقرری اس کونسل کے سپرد کی گئی۔ رہبر معظم نے حوزہ علمیہ قم میں تحوّل اور تبدیلی کے حوالے سے اب تک کئی مرتبہ گفتگو کی ہے۔ آپ کی گفتگو کی روشنی میں ہی جامعۃ المصطفی ؐ العالمیہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔

جامعۃ المصطفی ؐ کا متبادل نام المصطفیٰ ؐ انٹرنیشنل یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی سے پہلے ایران سے باہر کے دینی طلباء کی تعلیم و تربیت کیلئے قم المقدس میں “سازمان مدارس” اور “مرکز جهانی علوم اسلامی” کے نام سے دو مشہور ادارے سرگرم تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد دنیا بھر میں ایران کو صرف فقہ جعفری کا مرکز سمجھنے کے بجائے اسلامی معارف اور اسلامی آئیڈیالوجی کا مرکز بھی سمجھا گیا۔ چنانچہ اسلامی انقلاب کے بعد دنیا بھر سے تشنگان اسلام اور محققین نے بڑی تعداد میں ایران کا رُخ کیا۔ ایسے وقت میں ایک کلاسک اور قدیمی دینی مدرسہ، آج کی جدید دنیا کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق دنیا بھر کی علمی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ناکافی تھا۔

ایران کے رہبرِ اعلیٰ نے چند سال اس ساری صورتحال کا مسلسل جائزہ لینے کے بعد فقہ جعفری کے علاوہ دیگر علوم میں بھی اجتہاد کی اہمیت پر زور دیا۔ آپ کے بقول: “اجتہاد صرف فقہ سے مخصوص نہیں ہے۔ عقلی علوم میں جیسے فلسفہ و کلام وغیرہ میں دیگر علوم کے ماہر افراد کا اجتہاد ضروری ہے۔ اگر یہ اجتہاد نہ ہوا تو ہم ٹھہرے ہوئے پانی کا جوہڑ بن جائیں گے۔”[1] آپ کی گفتگو کا ایک بڑا حصّہ رائج حوزوی دینی تعلیم کے طریقہ کار میں تبدیلی پر مبنی ہے۔ آپ نے دینی مدارس کے مدیر حضرات اور اساتذہ کرام سے واشگاف الفاظ میں یہ کہا ہے کہ “تبدیلی کی مدیریت کریں۔ تبدیلی سے فرار ممکن نہیں۔ تخلیق میں تبدیلی ایک فطری امر اور الہیٰ سُنّت ہے۔ آپ کسی ایسی اکائی یا ہستی[چیز] کو فرض کریں کہ جس میں حالات کے مطابق تبدیلی نہیں ہوتی تو وہ چیز دو میں سے ایک حالت میں ہوگی: یا تو اپنی موت آپ مر جائے گی اور یا پھر سب سے الگ تھلگ ہو جائے گی، یعنی عضوِ معطّل بن جائے گی۔ ایسی شئے کو بدلتے ہوئے حالات کے ہنگاموں میں زندہ رہنے کا میدان نہیں ملتا، وہ روند دی جاتی ہے، صفحہ ہستی سے محو ہو جاتی ہے اور اگر بچ بھی جائے تو الگ تھلگ ہو جائے گی۔[2]

ہم یہاں پر یہ بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ حوزہ علمیہ میں تحوّل اور تبدیلی کی بات فقط کتابوں کی تبدیلی تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک دینی مدرسے کے ڈھانچے اور شعبہ جات میں تبدیلی، اساتذہ کی تشخیص، اہلیت، انتخاب اور تربیت کے طریقہ کار میں تبدیلی، طالب علموں کی استعداد کی شناخت، طریقہ تدریس اور اندازِ امتحانات میں تبدیلی، دینی مدارس کی تحقیقی، ورزشی و ثقافتی سرگرمیوں میں حالات اور دور کے مطابق تبدیلی، علماء کے تبلیغی طریقہ کار، دینی مدارس کی فلاحی و رفاہی خدمات اور عوام کے ساتھ دینی مدارس کے تعلقات و رابطے میں تبدیلی۔۔۔ یہ سب تبدیلیاں مقصود ہیں۔ حوزہ علمیہ میں رہبر معظم کس قسم کی تبدیلی کے خواہاں ہیں، اُس کو سمجھنے کیلئے فارسی دان قارئین مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں:تحول در حوزه

سال 2007ء میں رہبرِ معظم کے حکم کی تعمیل کی خاطر آپ کے وژن کے مطابق “سازمان مدارس” اور “مرکز جهانی علوم اسلامی” کو ایک دوسرے میں ضم کرکے قم المقدس میں المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ اس یونیورسٹی کے بانی اور سرپرستِ اعلیٰ سید علی خامنہ ای ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف ماہرین پر مشتمل ایک بورڈ آف ٹرسٹیز ہے، اس بورڈ کو رہبر معظم سات سال کیلئے منتخب کرتے ہیں۔ رہبر معظم کی سرپرستی میں یہ بورڈ آف ٹرسٹیز ہر پانچ سال کیلئے اس یونیورسٹی کے سربراہ کا تعیّن کرتا ہے۔ یونیورسٹی کے اغراض و مقاصد میں سب سے اہم مقصد دینی تعلیم کو تحقیق محور بنانا اور اسلامی تربیت کے ساتھ مخلوط کرنا ہے۔ چنانچہ تعلیم کے شعبے کو تحقیق اور تربیت کے ساتھ مرکب کر دیا گیا ہے۔ اسے جدید اصطلاح میں ہائبرڈ ایجوکیشن کہتے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم میں کتاب اور الفاظ کا حجم کم کرکے اس کی جگہ جدید سوفٹ وئیرز، جدید طرزِ تدریس، درسی مہارتوں، تحقیقی فعالیّت اور تربیتی سرگرمیوں کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس نظام تعلیم میں ایک ہی طریقے سے کتاب کو بار بار دہرانے کے بجائے مختلف انداز میں افہام و تفہیم کو اہمیت حاصل ہے۔ یہ افہام و تفہیم تحقیق و تربیت کے گردا گرد ہے۔

صاحبانِ علم جانتے ہیں کہ تحقیق سے انسان کے علم کی پیمائش ہوتی ہے اور سند یا ڈگری سے انسانی کی تعلیم کو ماپا جاتا ہے۔ مثلاً ایف اے/ایف ایس سی، بی اے/ بی ایس سی وغیرہ سے انسان کی تعلیم کی نشاندہی ہوتی ہے، لیکن اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ انسان کے پاس علم کتنا ہے۔ علم کی پیمائش کا پیمانہ تحقیق ہے۔ چنانچہ اس یونیورسٹی میں علم کو تحقیق محور قرار دینے کے ساتھ ساتھ ایران کی وزارت تعلیم کی طرف سے تعلیی اسناد جاری کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ دوسری طرف تعلیم کو تربیت سے مرکب کرنے کیلئے کلچرل یا فرھنگی سرگرمیوں کے ساتھ بھی نظام تعلیم کو گرہ لگائی گئی ہے۔ اس نظامِ تعلیم میں بظاہر درسی کتاب ماضی کے مقابلے میں کچھ مختصر ہوگئی ہے، لیکن درحقیقت ایک طالب علم کو ایک درس کیلئے کئی کتابیں کھنگالنے، کئی اساتذہ سے رجوع کرنے اور مختلف آراء و نظریات کا موازنہ کرنا پڑتا ہے۔

قابلِ ذکر ہے کہ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای صرف اس یونیورسٹی کے موسس اور نظارہ گر نہیں ہیں بلکہ اس کے پالیسی ساز اور فعال سرپرست بھی ہیں۔ جدید دنیا کی ماڈرن ضروریات کے مطابق علومِ دین کو نئی مہارتوں اور جدید اسالیب کے ساتھ سیکھنا اور سکھانا اس یونیورسٹی کی انفرادیت ہے۔ دنیا کے ساٹھ سے زائد ممالک میں اس یونیورسٹی کے تعلیمی نیٹ ورک کی موجودگی سے کسی کو انکار نہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی جان لیجئے کہ اس یونیورسٹی میں شیعہ مذہب کے علاوہ اہل سنت اور دیگر ادیان و مذاہب کے طلباء بھی حصول ِعلم میں مشغول ہیں۔ المصطفیٰ ؐ یونیورسٹی میں صرف فقہ جعفری پڑھانے کا ہی اہتمام نہیں بلکہ علوم قرآن، علوم حدیث، علومِ انسانی، علوم تاریخ، فقہ جدید و مقارن، مہدویت، سماجی علوم، ادبیات ِعرب، ادبیاتِ فارسی، ابلاغیات، علومِ سیاسی، علم التعلیم، عرفان سمیت متعدد علوم و فنون پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں۔

یونیورسٹی کے نظام تعلیم میں آنلائن کانفرنسز، سیمینارز، کلاسز اور تعلیمی سوفٹ وئیرز سے استفادہ تو لازمی ہے ہی، لیکن اس کے علاوہ الگ سے المصطفیٰ ورچوئل یونیورسٹی بھی موجود ہے۔ المصطفی ؐ یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات متعدد زبانوں میں کئی ریسرچ جرنلز شائع کرتے ہیں اور مختلف زبانوں میں تحقیقی کتب اور مقالہ جات نشر ہوتے ہیں۔ المختصر یہ کہ جامعة المصطفیؐ العالمیه کے سمندر کو جس طرح کوزے میں بند کرنا محال ہے، اُسی طرح اس کے وژن، اہداف، پالیسیز اور مشن کو سمجھے بغیر اس نعمت سے مستفید ہونا بھی ممکن نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] اجتهاد مخصوص فقه هم نیست؛ در علوم عقلی، در فلسفه، در کلام، اجتهاد کسانی که فنان این فنون هستند، امر لازمی است. اگر این اجتهاد نباشد، خواهیم شد آب راکد۔
[2] تحول را مدیریت کنید… تحول اجتناب ناپذیر است. تحول، طبیعت و سنت آفرینش الهی است… موجودی را فرض کنیم که تن به تحول ندهد؛ از یکی از دو حال خارج نیست: یا خواهد مُرد یا منزوی خواهد شد. یا در غوغای اوضاعِ تحول یافته مجال زندگی پیدا نمی کند، زیر دست و پا له می شود، از بین می رود؛ یا اگر زنده بماند، منزوی خواهد شد۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=41996