9

کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک) درس 8

  • News cod : 53840
  • 20 فوریه 2024 - 16:33
کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک) درس 8
نکات :معرفت پروردگار کی کلید اپنے نفس کی معرفت ، رب کی معرفت حاصل کرنے کے دو طریقے ، بوعلی سینا اور ابوسعید کی ملاقات کا احوال، اصول کافی میں امام صادق علیہ السلام کا نہایت عارفانہ کلام، معرفت الٰہی کی لذتیں کیسی ہیں، ایک توحید پرست قوم کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑا،اہل انتظار کی دعا

کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک)
(آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح)
درس 8
نکات :معرفت پروردگار کی کلید اپنے نفس کی معرفت ، رب کی معرفت حاصل کرنے کے دو طریقے ، بوعلی سینا اور ابوسعید کی ملاقات کا احوال، اصول کافی میں امام صادق علیہ السلام کا نہایت عارفانہ کلام، معرفت الٰہی کی لذتیں کیسی ہیں، ایک توحید پرست قوم کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑا،اہل انتظار کی دعا

حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی

خلاصہ:

موضوع سخن: آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح کی کتاب شریف لقاء اللہ ہے ۔ اور ہم اس مقام پر پہنچے تھے کہ اگر کوئی شخص اپنی روح کی حقیقیت کو درک کر لے یعنی اپنی معرفت پیدا کر لے تو پھر وہ رب کی معرفت بھی حاصل کر سکتا ہے۔

پھر اسی دنیا میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس کی آنکھوں سے ایسے پردے اٹھا دے گا کہ پھر وہ ایسی چیزیں دیکھے گا کہ جو جسم کی آنکھوں سے نہیں دیکھی جا سکتیں۔ یعنی اس کی باطنی روحانی آنکھیں بھی کھل جائیں گی۔

اسکے بعد آیت اللہ میرزا جواد ملکی تبریزیؒ فرماتے ہیں کہ ہم معرفت کے راستوں کو علم کے ذریعے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اور دلیل و برھان کی رو سے بھی انسان ان مراحل کو طے کر سکتا ہے۔ جیسے ہماری بعض مشہور اسلامی شخصیات اور دانشور اور بڑی بڑی ہستیوں نے معرفت کے مراحل کو علم و دلیل اور فکری و نظریاتی ابحاث سے حاصل کیا ۔ جس کی ایک بہت بڑی مثال شیخ الرئیس بوعلی سینا جیسی ہستی ہیں۔

دوسری راہ ریاضت ، مراقبہ ، تہذیب نفس اور اپنی تربیت ہے کہ جس کے بعد انسان مکاشفہ کے مقام تک پہنچتا ہے اور پروردگار اس کی آنکھیں کھول دیتا ہے۔ یعنی باطنی آنکھیں عقلی علمی کاوشوں سے بھی کھل سکتی ہیں اور تہذیب نفس اپنی پاکیزگی اور ہر قسم کی آلودگی سے اپنے روح و جسم و جان و فکر کو پاک کرنے سے بھی ایک انسان اپنی آنکھیں کھول سکتا ہے۔

اس کی ایک بہت خوبصورت سی مثال جناب سید احمد فہری اس کتاب شریف کے ایک حاشیے میں دیتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ :
ایک مرتبہ شیخ الرئیس بو علی سینا نے جناب ابو سعید ابوالخیر جو اس زمانے کے بہت بڑے عارف اور ولی پروردگار تھے ان سے ملاقات کی اور جب یہ ملاقات ختم ہوئی تو باہر لوگ منتظر تھے اس ملاقات میں یہ دونوں ہستیاں کمرے میں موجود تھیں بعض کہتے ہیں کہ یہ ملاقات تین دن تک جاری رہی۔ جب یہ دونوں عظیم ہستیاں ملاقات کے بعد باہر تشریف لائیں تو لوگوں نے بو علی سینا سے پوچھا کہ آپ نے ابو سعید ابو الخیر کو کیسا پایا۔
شیخ الرئیس بو علی سینا نے فرمایا کہ:
ہم جو کچھ جانتے ہیں یہ وہی کچھ دیکھتے ہیں۔

اور جب ابو سیعد ابو الخیر سے پوچھا گیا کہ آپ نے بو علی سینا کو کیسا پایا تو انہوں نے فرمایا:
میں جہاں جہاں اپنے مکاشفہ سے قدم رکھتا ہوا گیا ہوں یہ ہستی بھی اگرچہ اندھے تھے لیکن اپنے اعصا کے ساتھ وہاں وہاں پہنچے۔
(یہاں اندھے سے مراد یہ ہے کہ اگرچہ انہوں نے تہذیب نفس سے اپنی باطنی آنکھیں نہیں کھولیں لیکن اعصا ء یعنی دلیل و برھان کے ساتھ یہ بھی وہاں پہنچے اور میں نے انہیں دیکھا۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ علم و معرفت دو طریقے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ کثرت مطالعہ سے بھی حاصل ہو سکتی ہے اور اپنی تربیت اور تہذیب پر توجہ اور دقت سے بھی حاصل ہو سکتی ہے۔

کتاب شریف الکافی کی آٹھویں جلد میں ایک بہت خوبصورت سی حدیث ہے کہ :
امام صادقؑ کا ایک فرمان ہے جو اسی موضوع پر ہے کہ معرفت نفس سے معرفت پروردگار تک پہنچنا اور اس میں جو اللہ نے لذتیں رکھیں ہوئی ہیں اس پر مولاؑ اپنے اصحاب کو درس دے رہے ہیں ۔

فرمایا:
اگر لوگ یہ جان لیں کہ پروردگار کی معرفت میں کیا ثمرات اور کیا فضیلت ہے تو پھر وہ دشمن کا مال و دولت نہیں دیکھیں گے۔ اور ان لوگوں کے سامنے ان دشمنوں کی دنیا اس مٹی سے بھی کم اہمیت رکھتی ہے جو مٹی ان کے پاؤں کے نیچے ہے۔
(سبحان اللہ!)

ان کے دشمن کا مال و دولت ان ہستیوں کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں۔ یہ لوگ اللہ کی معرفت سے اس قدر نعمتیں پائیں گے اور اللہ کی معرفت سے ایسی لذت حاصل کریں گے۔ کہ جو لذت جنت کے باغوں میں اولیاء پروردگار کی ہمراہی میں ملتی ہے۔

پھر فرماتے ہیں کہ:
خدا کی معرفت ہے جو دلوں کو اطمینان اور سکون دیتی ہے اور ہر خوف سے محفوظ رکھتی ہے۔ اور خدا ہے کہ جو ہر تنہائی میں انسانوں کا محبوب تریں یار و دوست ہوتا ہے۔ اور تاریکی میں یہ اس کی معرفت روشنائی کا مقام پاتی ہے۔ اور ہر کمزوری کے مد مقابل اسے قوت اور طاقت دیتی ہے اور ہر درد کی شفا یہ معرفت ہے۔
سبحان اللہ!

اس کے بعد مولاؑ فرماتے ہیں کہ :
تم سے پہلے ایک قوم تھی جو خداپرست تھی ، موحد تھی اور دشمنوں نے ان کو بہت ظالمانہ طریقے سے ختم کیا اور ان کو جلایا اور آریوں کے ساتھ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کیے کہ زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ ان پر تنگ تھی لیکن یہ سارے ظلم اور اذیتیں انہیں اس روش اور زندگی بسر کرنے کے طریقے سے دور نہیں کر سکیں ۔ ان پر ظلم ہوا حالانکہ انہوں نے ان کے ساتھ کچھ نہیں کیا ان کو اذیت نہیں پہنچائی تھی۔ تو ان کا جرم یہ تھا کہ یہ خدائے عزیز و حمید پر ایمان رکھتے تھے۔

پھر مولاؑ اپنے اصحاب کو فرماتے ہیں کہ:
اے میرے اصحاب اللہ سے اس قوم کے درجات مانگیں۔ اور دنیا میں جو کچھ مشکلات اور مصیبتیں جھیل رہے ہو اس پر صبر کرو تاکہ تمھیں ان کی کاوشیں اور ان کا اجر نصیب ہو۔

جاری ہے۔

پروردگارا ہم سب کو اسی قوم کی کاوشیں ، اجر اور ہمت نصیب فرما کہ جس کا ذکر امام صادقؑ نے کیا تاکہ ہم بھی دنیا کی مشکلات پر اور دنیا کی اذیتوں پر ان لوگوں کی طرح صبر کریں اور ہمارا اخلاق ، توحید و معرفت بڑھےاور ہم ولی خدا کے شائستہ ہمراہی اور خدمت گذار بنیں۔ اور ان گناہوں کی ظلمتوں سے نکلیں اور کوئی نور ہمارے دلوں پر بھی چمکے انشاءاللہ۔

پروردگارا ہماری ان دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما اور اس قابل بنا کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اور جو کچھ سن رہے ہیں یہ ہمارے دل و دماغ ہماری روح ونفس میں یہ چیز راسخ ہو۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=53840