کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک)
(آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح)
درس 9
نکات :عارف کا مقام ، امام صادق علیہ السلام کے دو فرمان ، حدیث قدسی میں واجبات کی ادائیگی کے بعد مستحبات انجام دینے کا ثمرہ، عارف کا دل ہمیشہ اللہ کے ساتھ، عارف کی منزلت و عظمت، معرفت کے دروازے سب کے لیے کھلے، شریعت کے تابع رہ کر سیر و سلوک کریں
حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی
ہم اس کتاب کے اس حصے پر پہنچے تھے کہ جہاں صاحب معرفت یعنی ایک عارف شخص ہے اس کی حقیقت، منزلت اور فضائل بیان ہوئے۔ جو اللہ کی راہ میں سیر و سلوک کرتے ہیں اپنا تذکیہ نفس کرتے ہیں اپنی روح کی تربیت کرتے ہیں ۔ وہ خدا اور اس کے اولیاء کی نگاہ میں کیسے ہوتے ہیں۔
امام صادقؑ کا فرمان ہے: (کتاب شریف مصباح الشرعیہ)
فرمان طولانی ہے اور اس کے پہلے حصے میں امامؑ فرماتے ہیں کہ:
” صاحب معرفت(عارف) وہ ہے کہ جس کا بدن مخلوق خدا کے ساتھ ہے لیکن اس کا دل ہمیشہ خدا کے ساتھ ہے۔ اگر ایک پلک جھپکنے کی مدت تک بھی اس کا دل یاد خدا سے غافل ہو جائے تو وہ خدا کے اشتیاق میں مر جائے گا۔”
پھر فرماتے ہیں کہ:
” عارف وہ ہے کہ جو خدا کی امانتوں کا امین ہے اور خدا کے ثمرات کا خزانہ ہے اور اللہ کے انوار کی کان ہے۔ اور خدا اپنی مخلوق پر جو اللہ رحمت کرتا ہے اس کی دلیل یہی عارف ہے۔ وہ اللہ کے علوم کا حامل ہے اور اللہ کے میزان و عدل کا ترازو ہے۔ ”
فرماتے ہیں۔
” عارف خدا کی مخلوق ، دنیا کی خواہشات اور خود دنیا سے بے نیاز ہے۔ اس کا اللہ کے علاوہ کوئی ہمدم نہیں۔ ”
فرماتے ہیں کہ:
” عارف کا کوئی قول، اشارہ حتی کہ اس کا سانس اگر ہے تو وہ اللہ کے ساتھ، اللہ کے لیے اللہ کی طرف سے اور اللہ کی ہمراہی میں ہے”۔
فرماتے ہیں کہ:
“عارف وہ ہے جو پروردگار کے مقدس باغوں میں رفت و آمد کرتا ہے ۔ اس کی خوراک پروردگار کی جو ظریف اور لطیف فضیلتیں ہیں کہ جن کو ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ خدا کے ان تمام فضل و کرم سے اگر کوئی فیض لیتا ہے تو وہ عارف ہے۔”
فرماتے ہیں :
“ایک مومن کے لیے اصل چیز معرفت ہے کہ وہ حقائق کو سمجھے، حقیقت کو درک کرے اور مقام معرفت کو پائے۔”
اس کے بعد اصول کافی میں توحید کے باب میں امام صادقؑ کا ایک اور فرمان ہے۔
“مومن کی روح ، روحِ پروردگار سے اتنی متصل ہے کہ اتنی زیادہ سورج کی شعاع اس سے نہیں جڑی ہوئی۔ یعنی جس طرح سورج کی روشنی کا سورج سے تعلق ہے اس سے زیادہ مومن کی روح کا روح پروردگار سے تعلق ہے یعنی انسان کی روح و قلب ، اس کا نفس و باطن الہیٰ اور روحانی ہونا چاہیے۔ جتنا سورج کی شعاع کا سورج سے تعلق ہے اس سے زیادہ تعلق انسان کا پروردگار سے ہونا چاہیے۔
استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب کا ایک جملہ ہے:
ہمارے ہاں ہمیشہ برعکس ہوتا ہے۔ لوگ بظاہر الہیٰ نظر آتے ہیں لیکن اندر سے شیطان ہوتے ہیں اور دنیائے باطن یعنی اپنے اندر کی دنیا میں کافر اور منافق ہوتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے ان کا خدا اور قیامت پر ایمان ہی نہ ہو کیونکہ یہ ان کے اعمال سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن لوگوں کے سامنے ریاکاری دکھاتے ہیں خود کو الہیٰ ظاہر کرتے ہیں۔ حالانکہ اس سے برعکس ہونا چاہیے
ہو سکتا ہے ایک عارف بظاہر ایک سادہ مسلمان نظر آتا ہو۔ جو شریعت کا مقید ہے اور اس کے مطابق زندگی گذار رہا ہے لیکن اس کی روح شدت سے الہیٰ ہے یعنی اندر کی دنیا میں وہ کاملاً پروردگار کی منشاء کے مطابق زندگی گذار رہا ہے۔ اس کی سوچ خدائی ہے۔
تیسرا فرمان جو کتاب میں آیا ہے۔
حدیث قدسی میں یہ ذکر ہوا ہے البتہ جو تحقیق کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب نبیؐ کریم معراج میں تشریف لے گئے تو پروردگار نے جو رسولؐ اللہ سے خطاب کیا تھا وہ کافی طولانی تھا اور اس کا ایک حصہ آیت اللہ میرزا جواد ملکی تبریزی بیان کرتے ہیں وہ بھی سیروسلوک ، تہذیب نفس اور پروردگار کے تقرب کے حوالے سے ہے۔
آیت اللہ میرزا جواد ملکی تبریزی فرماتے ہیں کہ:
حدیث قدسی میں آیا ہے کہ:
خدائے کریم نے نبی ؐ کریم کو فرمایا:
“کوئی بھی چیز میرے لیے تقرب کا ذریعہ نہیں ہے سوائے واجبات کے ۔ یعنی اگر کسی میرے بندے نے میرا تقرب لینا ہے تو وہ جو چیزیں واجبات کی شکل میں میں نے واجب کیں ہیں ان سے زیادہ میرے لیے کچھ محبوب نہیں ہے۔ ”
یعنی اگرکوئی میرا قرب چاہتا ہے تو وسیلہ فقط وہ چیزیں ہیں جو مجھے محبوب ہیں اور میں نے واجب کیں ہیں۔
پھر پروردگار فرماتا ہے کہ:
اگر کوئی میرا بندہ واجبات کے بعد مستحبات کے ذریعے یعنی نافلہ اعمال کے ذریعے میرے قریب ہوتا ہے تو پھر میں اسے اپنا محبوب کر لیتا ہوں اور اس کو اتنا نزدیک کر لیتا ہوں گویا میں اس کا کان بن جاتا ہوں۔ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، میں اس کی زبان بن جاتا ہوں، میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں ۔ اگر یہ دعا کرے گا تو میں قبول کروں گا۔ اور اگر یہ کچھ مانگے گا تو میں عطا کرتا ہوں۔ ”
یہاں بہت بڑا درس ہے۔
ہمارے اردگرد بہت سارے صوفیاء ، ملنگ، مرشد ہیں جنہوں نے دکانیں چمکا رکھیں ہیں۔ بظاہر وہ شریعت میں نظر نہیں آتے لیکن انہوں نے مختلف اذکار میں خود کو اور لوگوں کو لگایا ہوا ہے۔
درست ہے کہ یہ اذکار مستحب ہیں۔ لیکن ان کا مقام واجبات کے بعد ہے۔ تو مولاؑ نے اور ہمارے آئمہ ؑ نے اس کی وضاحت کی اور اس حدیث قدسی میں اللہ نے حجت تمام کر دی کہ اگر کسی نے میرے قرب میں میری راہ میں آنا ہے تو وہ سب سے پہلے واجبات(نماز، روزہ، حج ، زکوۃٰ ، خمس۔۔) پورے کرے ۔ اور جب اس کے واجبات پورے ہو جائیں گے پھر وہ اپنے باطن پر کام کریں یعنی پھر وہ دل و جان سے میرے قرب کے لیے مستحبات انجام لائے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ:
پہلے ہم اپنی یومیہ نمازوں پر توجہ کریں جب ہم ان کو ٹھیک طرح سے پڑھنا شروع کریں تو تب ہم نافلہ عبادات انجام لائیں۔ اسی طرح ہم پہلے واجب روزے ادا کریں پھر نافلہ روزے ادا کریں۔ یعنی (ہر مہینے کے تین مستحب روزے رکھیں۔)
اسی طرح پہلےواجب زکوۃٰ خمس اور پھر صدقات۔ اسی طرح پہلے واجب حج انجام دیں پھر عمرہ اور زیارات انجام دیں۔
ہماری باقی زندگی کے جو اعمال ہیں اس میں پہلے واجب ہے یعنی تہمت اور گالی سے بچیں پھر لوگوں پر لطف و کرم کریں جو اس سے بڑھ کر مستحب ہے ۔
نتیجہ:
جو واجب زندگی گذارتا ہے وہ اللہ کے قرب میں ایک قدم بڑھتا ہے گویا وہ اللہ سے محبت کر رہا ہے۔ لیکن جب وہ نوافل اور مستحبات شروع کرتا ہے تو پھر خدا اس سے محبت شروع کر دیتا ہے۔ پھر اتنی محبت ہو جاتی ہے کہ پھر اس کے وجود کا سارا حصہ خدا کہتا ہے کہ میرا ہے۔ اس کی آنکھ میری ہے ۔ یعنی وہ نہیں دیکھ رہا میں دیکھ رہا ہوں۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ کیوں ہمارے آئمہ اس بلند مقام پر تھے کہ ان کی آنکھ خدا کی آنکھ تھی ان کی زبان خدا کی زبان تھی۔
جیسا کہ قرآن میں اللہ اپنے پیغمرؐ کو کہتا ہے :
“تو تیر نہیں مار رہا میں مار رہا ہوں۔”
اس حدیث قدسی میں اللہ کہتا ہے اس کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے یعنی وہ حملہ نہیں کر رہا میں کر رہا ہوں۔
ان ساری چیزوں کا سب سے بڑا مصداق پیغمبرؐ اسلام ؐ اور ان کے پاک اوصیا ہیں اور ان کے بعد ان کے شاگرد اور ان کے اصحاب ان کی راہ پر چلنے والے اولیاء اور صالحین ہیں۔ لیکن تمام راستے کھلے ہوئے ہیں اللہ نے درِ معرفت کو بند نہیں کیا۔ ہماری بہت ساری احادیث ہیں جن میں اللہ فرما رہا ہے کہ اگر ایک چیز کو تم گناہ سے بچا لو مثلاً چالیس دن کے لیے اپنی زبان کو گناہ سے بچا لو تو میں تم پر علم و حکمت کے دروازے کھول دوں گا۔
پروردگار ہم سب کو توفیق دے کے لقاءاللہ کتاب شریف سے جو تین فرمان ہم نے نقل کئے ہیں ہم ان پر غور و فکر کریں ان کو سمجھیں اور انہیں اپنی زندگی کے لیے مشعل راہ بنائیں اس پر عمل کریں اور اپنے زمانے کے امام کے لیے سچے منتظر ثابت ہوں۔