خواتین کے حقوق کے دفاع کا نعرہ، مغرب کا سب سے بڑا جھوٹ اور دھوکہ ہے، آیت اللہ احمد مروی
آج کے دور میں اسلام دشمن عناصر سازش کے تحت مسلم خواتین کو آلہء کار کے طور پر استعمال کر ریے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج كل كی عورتيں بھی modrenism کے شوق میں ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہیں ایک جانب تو مغربی ممالک کی پیروی کرتی ہوئی نظر آتی ہيں اور دوسری جانب مسلمان ہونے كا دعوا بھی کرتی ہیں۔
نظریات میں صوفیت و درویشیت کا نعرہ لگانے والا پنسلوانیا میں چھبیس ایکڑ کے محل میں رہتا تھا۔ گاندھی امن ایوارڈ لینے والے گولن کا ایران کے بارے میں کہنا تھا کہ اگر جنت کا راستہ ایران سے ہوکر جاتا ہے تو وہ اس راستے سے نہیں جائیں گے۔
آپ نے ساری زندگی مدرسہ محمدیہ میں خدمت دین خدا اور فقہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گزار دی
یہ شہادت درحقیقت راہِ مقاومت کو ایک نئی تحریک دے رہی ہے، جو نہ صرف ایک قیادت کی قربانی ہے بلکہ ہر اس شخص کے لیے مشعلِ راہ ہے جو ظلم کے خلاف کھڑا ہونا چاہتا ہے
1939ء میں علامہ نجف اشرف ( عراق) تحمیل علم کے لیے گئے جہاں آپ کا قیام تقریبا دو سال رہا۔ آپ کے اساتذہ میں ایک عظیم شخصیت آیت اللہ اعظمی میرزا حسین بجنوری کی ہے جنھوں نے سرکار نجم العلما کو اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ میں نجف میں چالیس سال سے درس اجتہاد دےرہا ہوں مگر میں نے ایسا لائق و فائق طالب علم آج تک نہ ایرانیوں میں دیکھا ہے اور نہ ہندوستانیوں میں
آج بلتستان کا کوئی علاقہ ایسا نہیں ھے کہ جہاں محمدیہ ٹرسٹ کا کوئی مدرسہ نہ ہو ؛ انہیں مدارس اور علماء کے مرھونِ منت آج بلتستان میں پاکستان کے باقی شہروں کی بنسبت لاکھ درجہ بہتر طور پر خطِ اہل بیت (ع) پر استوار ایک دینی اور اسلامی معاشرہ قائم ہے
یہ خطبہ جمعہ، شجاعت، استقامت، اور قربانی کا عکاس تھا جہاں رہبر معظم نے دشمن کی دھمکیوں کے باوجود محراب عبادت میں مصلہ بچھایا اور پوری دنیا کے سامنے فتح و صبر کا پیغام دیا۔ ایرانی قوم کے جذبے نے ثابت کیا کہ جنگیں اسلحے سے نہیں بلکہ کردار اور حوصلے سے لڑی جاتی ہیں۔ اس اجتماع نے دنیا کو دکھایا کہ علیؑ کی نسل کی وراثت میں خوف کا کوئی مقام نہیں ہے۔
مختصر حالات زندگی سیدالعلماء علامہ سید محمد تقی نقوی تحریر: ندیم عباس شہانی علامہ سید محمد تقی نقوی صاحب قبلہ یکم جولائ 1949 کو […]
١٩٥٠ء میں آپ نے پاکستان ہجرت فرمائی،لیکن صد افسوس کہ یہ علمی شاہنامہ اسی ادارہ میں رہ گیااور اس کے بعد اس سرکاری ادارہ میں بھی اس کاسراغ نہ مل سکا،مقدمہ تفسیرقرآن جیسے عظیم کارنامے کے علاوہ قیام پاکستان سے قبل آپ کی کئی تحریری کاوشیں دہلی سے طبع ہو چکیں تھیں
آیت اللہ محفوظی نے اپنی ابتدائی تعلیم ایران کے صوبہ گیلان کے ایک گاؤں رودسر میں مکمل کی اور پھر ہائی اسکول میں داخلہ لیا اسکے تقریباً ایک سال بعد دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے حوزہ علمیہ رودسر میں داخلہ لیا۔