1928میں جب آپکی عمر 14سال تھی اعلی تعلیم کے حصول کے لئے مرکز علم و ادب حوزہ علمیہ لکھنؤ داخل کروا دیا گیا۔اپ نے لکھنوء سے فاضل ادب اور فاضل حدیث کی اسناد بھی حاصل کیں خدا داد صلاحیت اور اعلی زہانت کی بدولت آپ نے 16سال کا نصاب صرف 8سال میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا
کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک) ( آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح) درس پنجم نکات :معرفت کے منکر بھی اللہ کی […]
نکات :سیر و سلوک کے درس کے بارے ایک بنیادی وضاحت، اسلام دین رھبانیت نہیں دین اجتماع ہے، صوفیت کی نفی، اصول کافی کی روایت میں امام صادق ع کا زندیق سے مکالمہ، معرفت کے مخالف بھی معرفت رکھتے ہیں
۲۷ رجب المرجب کو بعثت رسول اکرم ﷺ کا مبارک دن ہے اور ۲۸ رجب المرجب کو فرزند رسول کا مقاصد بعثت کی تکمیل و ترویج کے لئے ہجرت کا دن ہے ۔
مرحوم آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی ؒ بات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ ہرگز لقاء اللہ سے مراد موت نہیں ہے بلکہ ہم اس سے وہی اخذ کریں گے جو محمدؐ و آل محمدؑ کی احادیث اور ان سے منقول دعاؤں میں ذکر ہوا ہے۔
شیعہ و سنی منابع آپ کے علم، عبادت، بردباری اور سخاوت کی تعریف و تمجید کے ساتھ ساتھ آپ کو کاظم اور عبد صالح کے لقب سے یاد کرتے ہیں
پہلا نظریہ: ماہرین کلام شیعہ کہتے ہیں تنزیہ صرف یعنی خالص تنزیہ سے مراد ہے کہ پروردگار عالم منزہ ہے کہ کوئی اس سے ملاقات کرے یا اس کی معرفت پیدا کرے ۔ انسان کسی بھی صورت میں اللہ کی معرفت پیدا نہیں کر سکتا کیونکہ وہ لا محدود ہے اور ہم محدود ہیں۔ اور ایک محدود کسیے لا محدود کو درک کر سکتا ہے ۔
آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزؒی کی سیرت طیبہ سے کچھ گوشے۔: سید احمد فہری لکھتے ہیں کہ یہ وہ شخصیت ہیں کہ جن کے لیے آئمہ ؑ کے فرامین ہیں کہ: امام صادقؑ ع نے جو ایک فقیہ کی چار صفات لکھیں۔ 1۔ اپنے نفس کو بچاتا ہو 2۔ اپنے دین کا محافظ ہو 3۔ اپنی خواہشات کا مخالف ہو 4 ۔ اپنے مولا ؑ کے امر کا مطیع ہو
سیر و سلوک اور باطنی پاکیزگی کے حوالے سے ایک بہترین کتاب ” رسالہ لقاءاللہ” کہ جسے امام خمینیؒ کے اساتذہ میں سے ایک بہت بڑی شخصیت عظیم فقیہ، عالی قدر عارف، آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزیؒ نے تحریر کیا ہے اور اس میں مذید کاوش ایک بہت بڑی ہستی سید احمد فہری نے اس کا پیش لفظ ،اس رسالے کا ترجمہ اور اس میں مذید حاشیے اور وضاحتیں بیان کیں۔
کسی بھی قوم و ملک کی ترقی اس کے سماجی حالات پر انحصار کرتی ہے ایک ترقی یافتہ قوم کے وجود اور بقاء کے لیے معاشرے کے تمام افراد اپنے حصے کا کردار ادا کرنے میں برابر کے شریک ہوتے ہیں اکیلا فرد اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے طرح طرح کی مشکلات سےدو چار ہوتا ہے اور منفی قوتیں الگ سے اسے الجھنوں کا شکار کرتیں ہیں ۔