ملک میں مون سون بارشوں سے 77 اموات ہوئیں، وزیر ماحولیات
گر قربانی کی تاریخ کو تاریخی اوراق میں تلاش کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کی تاریخ بہت پرانی ہے جسے حضرت آدمؑ کے زمانے میں پایا جا سکتا ہے۔ حضرت آدمؑ کے بیٹوں کی مشہور قربانی جسے انسانیت کی تاریخ میں سب سے پہلی قربانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۲۷ سے لے کر ۳۰ تک اسے تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے
تربیتِ بشر ایک دینی و الہیٰ فریضہ ہے۔ اسی فریضے کی انجام دہی کیلئے خدا نے انبیا مبعوث کئے اور کتابیں نازل کیں۔ انسان تخلیقی طور پر خالق ِکائنات کا ایک شہکار ہے۔ ہماری اس کائنات کے امن، حُسن اور ترقی و کمال کا کوئی بھی خواب اس شہکار کی تعلیم و تربیت کے بغیر پورا نہیں ہوسکتا۔ دراصل تربیت انسان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور انہیں نکھارنے کا نام ہے۔
کسی بھی حکومت کو مشکل فیصلے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس بہترین آئیدیالوجی ہو، مضبوط قؤہ فیصلہ رکھتی ہو، مصمم ارادے کا حامل ہو، آزادانہ پالیسی بنانے کا اختیار رکھتی ہو اور ہر قسم کے چیلنجز سے نمٹنے کی جرأت و حوصلہ رکھتی ہو۔
یاد رہے 2017 سے مرحوم علامہ شیخ حسن فخرالدین، علامہ سید عباس رضوی اور امام جمعہ سکردو علامہ شیخ حسن فخرالدین کی صوابدید پر شیخ ذاکر فخر الدین اس لائبریری کی مدیریت کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔
قرآن مجید نے بہت سی آیات میں ان معنی کی تکرار کی ہے اور ان میں توبہ کو اصلاح اور تلافی کے ساتھ قرار دیا ہے ۔
فی الحال الفجر یونیورسٹی کی بات کرتے ہیں۔ مذکورہ یونیورسٹی دراصل امام خمینیؓ ٹرسٹ رجسٹرڈ میانوالی کے زیرِ انتظام تعلیمی منصوبہ جات میں سے ایک منصوبہ ہے۔ علامہ سید افتخار حسین نقوی النجفی صاحب نے 1982ء میں ماڑی انڈس کے اندر جس دینی مدرسے کی بنیاد رکھی تھی، اب وہ رفاہی و فلاحی خدمات کے حوالے سے ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ آب رسانی، صحتِ عامہ، وحدتِ اسلامی، نادار اور مستحق افراد کی امداد، مفت تعلیم، مبلغین کی تربیت، مساجد و مدارس کی فعالیت اور آباد کاری نیز تعلیم و تربیت کے میدان میں اس ادارے نے اب تک انمٹ نقوش مرتب کئے ہیں۔
پاکستان میں تعلیمی ادارے بند ہونے کو ہیں۔ نوجوان جتنے خوش ہیں، اُن کے والدین اور اساتذہ اتنے ہی فکر مند۔ جون اور جولائی میں ان کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ ہمارے آج کے نوجوانوں کو نِت نئی ایجادات و اختراعات اور سوشل میڈیا سے الگ کرنا ممکن ہی نہیں۔
قوم پرستی کا نعرہ لگاکر ہماری جوانوں کو گمراہ کرکے 1400سال پہلے کے دورِ جاہلیت کی طرف لے جانے والوں کو ہر فورم پر سرکوب کرنا ہماری ثقافت ہے،
نظم، نظم اور نظم یہ امام خمینیؒ کی زندگی میں انتہائی اہمیت رکھتا تھا۔ امام کے قریبی دوست ہو ،حکومتی عہدار یا انکے گھر والے سب اپنی گھڑیوں کو امامؒ کے کام کے مطابق ایڈجسٹ کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پرجب امامؒ کو صحن میں چلتے ہوئے دیکھتے تو اُنہیں ایک مقررہ وقت معلوم ہوتا تھا۔
مستضعفین جہاں کی حمایت: حضرت امام انقلاب کا مقصد مستضعفین جہاں کی حمایت قرار دیتے ہیں: ہمیں دنیا کے مستضعفین کی حمایت کرنا ہے،ہمیں انقلاب کو دنیا میں برآمد کرنے کے لیے کوشش کرنا چاہیے اور یہ فکر چھوڑ دیں کہ ہمیں اپنا انقلا پوری دنیام میں نہیں پہنچانا ہے،کیونکہ اسلام مسلمان ممالک کے بیچ فرق کا قائل نہیں ہے اور وہ پوری دنیا کے مستضعفین کاحامی وہمدرد ہے۔ (اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ ،امام خمینی،۱۴۲۹ھ:۴۸۵)