وقت آن پہنچا کہ مسلم ریاستیں بڑے ہدف کیلئے یکجا ہوں، قائد ملت جعفریہ پاکستان
جیسے مقدس اردبیلی رح کے واقعہ میں دیکھتے ہیں کہ مرجع دنیائے شیعہ کی علمی و فقہی مشکلات کو دور کرنے کے لیے آپ عج انکے لیے مسجد کوفہ کے محراب میں ظاھر ہوتے ہیں۔
بعض مقامات پر آپکی غیبت کو حضرت خضر ع سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح وہ جسمانی طور پر نگاہوں سے پنہاں ہیں اسی طرح امام زمان عج مخفی و غائب ہیں۔
کتاب کمال الدین صدوق، غیبت طوسی، الارشاد شیخ مفید، تاریخ غیبت کبری صدر نیز دیگر بہت سی کتب میں احادیث و روایات نیز علماء اعلام کی آراء کے پیش نظر غیبت امام زمان عج کی تین طرح کی تشریح سامنے آئی ہے
عالم اھل سنت احمد بن محمد بن صدیق کہتے ہیں : امام مہدی(عج) کے قیام پر ایمان واجب ہے اور ان کے ظہور پر عقیدہ پیغمبر اکرم(ص) کی حدیث کی بنا پر حتمی و ضروری ہے (ابراز الوھم المکنون ص ۴۳۳ حدیث ۴۳۶)
مرحوم آیت اللہ محمد تقی بافقی رحمۃ اللہ امام زمان (عج) سے بہت گہرا تعلق اور رابطہ رکھتے تھے ان کا اس حوالے سے ایمان کامل تھا جب بھی ضرورت محسوس ہوتی تو فورا مسجد جمکران میں امام زمان (عج) سے مشرف ہوتے اور اپنی حوائج شرعیہ پیش کرتے تھے ۔
جہالت: ایک اور چیز جو ہمیشہ حقیقت کے لیے خطرہ بنی رہتی ہے وہ دوستوں کی جہالت اور نادانی ہے جو خطرے کا سبب بنتی ہے ، آج کل واضح طورپر جاھل اور نادان دوستوں کی طرف سے خطرہ محسوس کیا جاتا ہے ، جو انتظار کے نام سے مھدویت کی فکرکو نقصان پہنچادیتے ہیں۔ ایسے نادان لوگ جو انتظار کے نام سے ظلم و ستم کے مقابلے میں خاموش اور تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
موعود ” یا “مصلح کل” کا موضوع ایک ایسا نظریہ اور خیا ل نہیں ہے کہ جووقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوا ہو اور یہ ایسا موضوع ہو کہ جو انسانیت کے دردوں کی تسکین اور مظلوموں کی دلداری کا ذریعہ ہوبلکہ یہ موضوع شیعیت کی شناخت ہے۔کہ جس کی ضرورت اور اہمیت کو آیات و روایات کی روشنی میں درک کیا جا سکتا ہے۔
خدا اور قیامت کے ایمان کی بنیاد پر انسانیت دونوں ہاتھ پھیلا کر عادل پیشوا کی حکومت کا استقبال کرے۔