17

امام مہدی (عج) احادیث کے آینہ میں

  • News cod : 11438
  • 23 فوریه 2021 - 23:45
امام مہدی (عج) احادیث کے آینہ میں
عالم اھل سنت احمد بن محمد بن صدیق کہتے ہیں : امام مہدی(عج) کے قیام پر ایمان واجب ہے اور ان کے ظہور پر عقیدہ پیغمبر اکرم(ص) کی حدیث کی بنا پر حتمی و ضروری ہے (ابراز الوھم المکنون ص ۴۳۳ حدیث ۴۳۶)

ترتیب وتنظیم:علی اصغرسیفی

احادیث کی کتابوں میں تقریبا دو ہزار سے زیادہ احادیث و روایات امام مہدی(عج) کے موضوع کے متعلق بیان ہوئی ہیں مثلا کتاب منتخب الاثر میں ۱۵۷ شیعہ سنی کتابوں سے ۹۰۰ کے قریب احادیث و روایات امام مہدی(عج) کے بارے میں جمع کی گئی ہیں۔

ہم یہاں سب سے پہلے امام مہدی (عج)کے حوالے سے شیعہ و سنی مشترک موقف اور احادیث بیان کریں گے اس کے بعد اختلافی موارد کو اختصار کے ساتھ بیان کریں کیا جائے گا

(اول)مشترک موضوعات:

یہ مہدویت کے متعلق وہ موضوعات ہیں کہ جن پر شیعہ و سنی ہر دو مکتب کا اتفاق ہے ان سب کو بالترتیب فریقین کی طرف سے ایک حدیث یا علماء و بزرگان کے کلمات کی تائید کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔

(۱)نظریہ مہدویت:

ایک موضوع کہ جس پر شیعہ اور ا ہل سنت کا اتفاق ہے وہ نظریہ مہدویت ہے یعنی تمام اسلامی امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آخر الزمان میں مہدی(عج) نام کے ایک شخص کہ جو پیغمبر اسلا م کی اولاد میں سے ہوں گے ظہور فرمائیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کردیں گے فریقین کے اس عقیدہ کی بنیادی وجہ پیغمبر اکرم (ص)سے منقول وہ بہت سی احادیث و روایات ہیں کہ جو متواتر (علم حدیث کی ایک اصطلاح ہے اس سے مراد حدیث یا روایت پر یقین و جزم حاصل ہوچکا ہے کہ یہ پیغمبر اکرم (ص)سے نقل ہوئی ہے )کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور جو بات تواتر کی حد تک پہنچ جائے وہ شک و تردید کے دائرہ سے نکل جاتی ہے جیسا کہ شہید صدر فرماتے ہیں: حضرت مہدی(عج) کا عقیدہ اس عنوان سے کہ آپ ایک امام منتظر ہیں اور دنیا کو نیک و صالح جہان میں تبدیل کریں گے یہ عقیدہ پیغمبر اکرم (ص)کی احادیث اور اھل بیت کی روایات میں واضح طور پر نقل ہوا اور بہت سی احادیث اور روایات اس موضوع پر تاکید کرتی ہیں کہ انسان کے لئے کوئی شک باقی نہیں رہتا فقط اھل سنت کے حدیثی ذرائع سے حضرت مہدی(عج) (عج)کے بارے پیغمبر اکرم (ص)سے چار سو کے قریب احادیث نقل ہوئی ہیں اور آیت کے بارے میں تمام روایات کی تعداد چھ ہزار ہے یہ بہت بڑی تعداد ہے عام طور پر کسی بھی اسلامی موضوع میں احادیث کی اتنی تعداد موجود نہیں ہے (بحوث حول المہدی ص ۶۲، ۶۳)

علماء اھل سنت میں سے مثلا

۱۔ حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں :

تواترت الاخبار بان المهدی من هذہ الامة (فتح باری جلد۵ ص ۳۶۲)

تواتر کی حد تک روایات دلالت کرتی ہیں کہ امام مہدی (عج)اسی امت سے ہیں

۲، قاضی شوکانی کہتے ہیں:وهی متواترة بلاشک ولا شبهه (ابراز الوھم المکنون ص۴)امام مہدی (عج)کے متعلق روایات بغیر کسی شک و شبہ کے متواتر ہیں

۳۔ابن حجر ھیثمی کہتے ہیں:والاحادیث التی جاء فیها ذکر ظهور ا لمهدی علیه السلام کثیرۃ متواترۃ (صواعق المحرقہ جلد ۲ص۲۱۱)وہ احادیث کہ جن میں امام مہدی (عج)کے ظہور کے بارے میں اشارہ ہوا ہے وہ بہت زیادہ اور تواتر کی حد تک ہیں

۳۔قرمانی دمشقی لکھتے ہیں کہ: اتفق العلماء علی ان المهدی هو القائم فی آخر الزمان و قد تعاضدت الاخبار علی ظهوره (اخبار الدول و آثار الاول جلد۱ ص ۴۶۳)

علما کا اس امر پر اتفاق ہے کہ مہدی(عج) وہی ہیں کہ جنہوں نے آخری زمانہ میں قیام کرنا ہے اور روایات و احادیث ان کے ظہور پر ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔

۴۔مبارکغوری لکھتے ہیں:آپ جانئے کہ تمام زمانوں میں سب مسلمانوں میں یہ مشہور رہا ہے کہ حتمی طور پر آخری زمانہ میں اھل بیت سے ایک شخص ظہور کریں گے کہ جن کا نام مہدی(عج) ہوگا(تحفۃ الاحوزی شرح حدیث ۲۳۳۱

(۲)امام مہدی پر عقیدہ کا واجب ہونا:

امام مہدی(عج) کا ظہور غیبی امور میں سے ہے کہ جن کی وحی کے ذریعہ خبر دی گئی ہے قرآن نے اس نکتہ پر تاکید کی ہے کہ پرہیزگاروں کی ایک علامت غیب پر ایمان ہے :

ذلک الکتاب لاریب فیه هدی المتقین الذین یومنون بالغیب۔۔۔۔۔(بقرہ (۲))آیت ۲،۳

شیخ صدوق ان دو آیات سے تمسک کرتے ہوئے فرماتے ہیں کسی مومن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک ان چیزوں کا علم پیدا نہ کرے کہ جن پر ایمان لانا ضروری ہے اس طرح وہ جس نے امام مہدی(عج) پر ایمان رکھا ہو اسے فائدہ نہ ہوگا جب تک وہ زمانہ غیبت میں آپ کی شان و شخصیت کو نہ جان لے (کمال الدین جلد۱ ص ۹۰)

اسی لئے شیعہ و سنی روایات میں امام مہدی(عج) کے ظہور و خروج کے منکر کو کافر شمار کیا گیا ہے جابر بن عبداللہ پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کرتے ہیں:

من انکر خروج المهدی فقد کفر بما انزل علی محمد (الحاوی للفتاوی جلد۲ ص ۸۳)جس نے بھی امام مہدی(عج) کے خروج کا انکار کیا اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہونے والی ہر چیز سے کفر کیا

امام صادق علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : پرہیزگار لوگ امام علی علیہ السلام کے شیعہ ہیں اور غیب (کی ایک چیز) وہی حجت غائب ہے یعنی مہدی منتظر(عج)(کمال الدین جلد ۲ ص ۳۴)

عالم اھل سنت احمد بن محمد بن صدیق کہتے ہیں : امام مہدی(عج) کے قیام پر ایمان واجب ہے اور ان کے ظہور پر عقیدہ پیغمبر اکرم(ص) کی حدیث کی بنا پر حتمی و ضروری ہے (ابراز الوھم المکنون ص ۴۳۳ حدیث ۴۳۶)

سفارینی حنبلی کہتے ہیں : امام مہدی (عج)کے قیام پر ایمان واجب ہے جب کہ اھل علم کے ہاں یہ بات ثابت ہے اور اھل سنت و جماعت کے عقائد میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے (الاذاعۃ ص ۱۴۶)

شیخ ناصر الدین البانی وھابی کہتے ہیں کہ : بلاشبہ امام مہدی (عج)کے قیام پر عقیدہ پیغمبر اکرم(ص) سے متواتر احادیث کے ساتھ ثابت ہے کہ اس پر ایمان لانا واجب ہے کیونکہ یہ عقیدہ ان امور میں سے ہے کہ جن پر ایمان قرآن میں پرھیزگاروں کی صفات میں شمار کیا گیا ہے (مجلہ التمدن الاسلامی ۲۲ ص ۶۴۳)

 

 

۳۔امام مہدی(عج) کی عالمی دعوت اور حکومت:

یہ کہ امام مھدی(عج) کی دعوت اور حکومت عالمی ہے اس پر فریقین کا اتفاق ہے، کیونکہ بہت سی آیات و روایات اس مسئلہ کو بیان کررہی ہیں ۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:ولقد کتبا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثها عبادی الصالحون (انبیاء آیت ۱۰۵)

اسی طرح ایک اور آیت میں فرمایا: وعدالله الذین آمنوامنکم و عملوا الصالحات لیستخلفنهم فی الارض (نور آیت ۵۵)ان آیات کے علاوہ فریقین کی روایات بھی اس موضوع کو بیان کررہی ہیں :

سنی عالم حاکم نیشاپوری ابوسعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: زمین ظلم و ستم سے بھر جائے گی اس زمانہ میں میری اولاد سے ایک شخص قیام کرے گا اور سات یا نوسال مکمل زمین کا مالک رہے گا کہ اس کے دور میں زمین عدل و انصاف سے پرہوجائے گی (مستدرک الوسائل جلد ۴ ص ۵۵۸)

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :امام مہدی(عج) ۳۰۹ سال زمین پر حکومت کریں گے جتنی مدت تک اصحاب کہف غار میں ٹھہرے رہے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے اللہ تعالی ان کے لئے دنیا کا شرق و غرب فتح کرے گا یہاں تک کہ فقط دین محمد زمین پر باقی رہے گا (بحار الانوار جلد۵۲ ص ۳۹۰)

 

 

۴۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا اور امام زمانہ (عج)کی اقتداء کرنا:

اسلامی روایات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام مہدی(عج) کے قیام کے وقت حضرت عیسی ٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور نماز میں ان کی اقتدا کریں گے ابوھریرہ رسول اکرم سے نقل کرتے ہیں : اس زمانہ میں تم کیسے ہو گے کہ جب مریم کا فرزند نازل ہوگا اور امام تم لوگوں میں سے ہوگا(صحیح بخاری جلد ۳ ص ۱۲۷۲)

ابوبصیر امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اور امام مہدی(عج) کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے (کمال الدین جلد۲ ص ۳۴۵)

 

 

۵۔خسف بیداء:

امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی علامات احادیث و روایات میں بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک علامت خسف بیداء ہے کہ عایشہ پیغمبر اکرم سے نقل کرتی ہیں : ایک لشکر کعبہ کا رخ کرے گا پس جب وہ بیداء کی سرزمین پر پہنچے گا تو زمین انہیں نگل لے گی (صحیح بخاری جلد ۲ ص ۷۴۶)

جناب جابر امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

جب لشکر کا کمانڈر سفیانی اپنے لشکر کے ساتھ سرزمین بیداء پر پہنچے گا تو آسمان سے ندا آئے گی اے سرزمین بیدا اس قوم کو نابود کر تو وہ انہیں نگل لے گی۔(غیبت نعمانی ص ۲۷۹)

 

 

۶۔لقب مہدی(عج) پر اتفاق:

امام مہدی(عج) کے بارے میں ایک چیز کہ جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے وہ ان کا لقب شریف مہدی(عج) ہے

کعب کہتے ہیں بلا شبہ انہیں مہدی(عج) کا نام دیا گیا ہے کیونکہ وہ مخفی امر کی طرف ھدایت کریں گے(مصنف صنعانی ص ۳۲۷)

یہاں مخفی امر سے مراد اصلی تورات و انجیل ہے کہ جو مخفی ہیں اور کوئی ان کی جگہ کے بارے میں نہیں جانتا(فتن نعیم بن حماد جلد ۱ ص ۳۵۷)

ابو سعید خدری سے نقل ہوا ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں سوا ل کیا کہ آیا مہدی(عج) اور قائم ایک شخص ہیں؟ فرمایا: ہاں تو میں نے پوچھا کیوں انہیں مہدی(عج) کا نام دیا گیا ہے ؟ فرمایا کیونکہ انہیں ہر مخفی امر کی طرف راہنمائی ہوگی (غیبت طوسی ص ۴۷۱)

 

 

۷۔الھی امداد:

امام مہدی(عج) کے بارے میں فریقین کے ہاں مشترک مسائل میں سے ایک اللہ تعالی کی خاص امداد ہے، احادیث میں اس الھی امداد کی مختلف انداز سے تصویر کشی ہوئی ہے ابوھریرہ پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کرتا ہے:قیامت برپا نہیں ہوگی یہاں تک کہ یہودیوں سے جنگ ہوگی اگر کسی پتھر کے پیچھے کوئی یہودی پنہان ہوگا تو وہ بولے گا کہ اے مسلمان میرے پیچھے ایک یہودی ہے اسے قتل کرو (صحیح بخاری جلد۳ ص ۱۰۷۰)

ابوبصیر امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں :

جب قائم قیام کریں گے تو نہ اللہ تعالی کا منکر کافر باقی رہے گا نہ امام کا منکر مشرک سب کے سب (یہ کافر و مشرک) امام کے قیام کو ناپسند کریں گے کیونکہ ان کے قیام کے زمانہ میں اگر کوئی کافر یا مشرک خود کو کسی پتھر کے اندر چھپا لے گا تو وہ چٹان یا پتھر بولے گا کہ اے مومن میرے اندر کافر ہے مجھے توڑو اور اسے قتل کرو (کمال الدین جلد۲ ص ۶۷۰)

 

 

۸۔مغرب سے سورج کا طلوع:

ایک واقعہ کہ جس کے بارے میں شیعہ و سنی اتفاق رکھتے ہیں کہ وہ امام زمانہ کے دور میں ظاھر ہوگا وہ مغرب سے سورج کا طلوع ہے ابوھریرہ پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کرتے ہیں:قیامت برپا نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوگا پس جب وہ طلوع کرے گا اور لوگ اسے دیکھیں گے تو سب ایمان لائیں گے اس زمانہ میں کسی کا ظاھری ایمان اس کے لئے مفید نہ ہوگا (صحیح بخاری جلد ۵ ص ۲۳۸۶)

 

 

۹۔امام مہدی (عج)حضرت فاطمہ علیھاالسلام کی اولاد سے ہیں:

شیعہ اور سنی حضرات میں ایک اور مشترک مسئلہ یہ ہے کہ حضرت مہدی (عج)پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھل بیت میں سے اور حضرت فاطمہ زھرا سلام للہ علیھا کی اولاد میں سے ہیں ۔

ام سلمہ پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:المھدی من عترتی من ولد فاطمہ، مہدی(عج) میری عترت میں سے اور فاطمہ کی اولاد میں سے ہے(سنن ابی داوود جلد ۴ ص ۱۰۷ غیبت طوسی ص ۱۸۵)

 

 

۱۰۔امام زمانہ کے ظاھری اوصاف:

 

 

یہ کہ امام مہدی(عج) ایک طولانی غیبت کے بعد ظہور کریں گے لوگ آپ کو پہلے سے نہیں پہچانتے ہوں گے لھذا روایات میں آپ کے ظاھری اوصاف کی طرف اشارہ ہوا ہے اور فریقین نے اس قسم کی روایات کو اپنی کتب حدیث میں ذکر کیا ہے ۔ ابوسعید خدری پیغمبر اسلام(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ المهدی منی اجلی الجبهة اقنی الانف یملأ الارض قسطا و عدلا کما ملئت جورا و ظلما (سنن ابن داوود جلد۴ ص ۱۰۷)

مھدی مجھ سے ہے ان کی پیشانی وجیہ و نورانی، ناک اٹھی ہوئی اور دراز ہے وہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے کہ جس طرح کہ ظلم و جور سے پر ہوئی ہے، ابی وائل کہتے ہیں امام علی علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کی طرف نظر فرمائی اور فرمایا: وسیخرج الله من صلبه رجلا باسم بینکم ۔۔۔وهو رجل اجلی الجیبن و اقنی الانف۔۔۔و یملأ الارض عدلا کما ملئت ظلما و جورا(غیبت نعمانی ص ۲۱۴)

بہت جلد اللہ تعالی اس (امام حسین علیہ السلام ) کی صلب سے ایسے شخص کو ظاھر کرے گا کہ جو تمہارے پیغمبر کا ہم نام ہوگا ۔۔۔۔۔اور وہ وجیہ پیشانی اور دراز ناک والے ہوں گے ۔۔۔و زمین کو عدل سے پر کریں گے جس طرح کہ ظلم و ستم سے پر ہوئی ہے۔

 

 

 

۱۱۔امام مہدی کے زمانہ میں نعمات کی فراوانی:

سنی و شیعہ میں ایک مشترک موضوع ان کے زمانہ ظہور میں فراوان خیر و برکت اور بے پناہ نعمات الھی کا ہونا ہے کہ تمام لوگ ان نعمات اور خیر و برکت سے بہت زیادہ بہرہ مند ہوں گے۔

ابوسعید خدری پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کرتے ہیں:

میری امت میں مہدی(عج) اگر (ان کی مدت کم ہو) سات سال وگرنہ نوسال حکومت کریں گے اس زمانہ میں میری امت ایسی نعمات سے بہرہ مند ہوگی کہ ان نعمتوں کی نظیر و مثل پہلے انہیں حاصل نہ ہوگی۔۔۔ ان کے پاس مال متاع جمع ہوگا پس ایک شخص کھڑا ہوگا اور کہے گا اے مھدی (عج) مجھے عطا کریں وہ کہیں گے لے لو (سنن ابی ماجہ جلد ۲ ص ۱۳۶۶)

عبد خیر روایت کرتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے سنا کہ وہ فرما رہے تھے پیغمبر اکرم (ص)نے مجھے فرمایا تھا : اے علی تمہارے فرزندوں سے گیارہ ھدایت شدہ امام ہیں اور تم ان میں سب سے پہلے ہو اور ان میں سے آخری میرا ہمنام ہے وہ قیام کرے گا زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا کہ جس طرح وہ ظلم و ستم سے پر ہوئی ہے کوئی شخص اس کے پاس آئے گا مال ومتاع اس (امام) کے پاس جمع ہوگا وہ کہے گا اے مہدی(عج) مجھے عطا کیجئے وہ کہیں گے لے لو(غیبت نعمانی ص ۹۲)

 

 

۱۲۔رکن ومقام کے درمیان بیعت:

امام زمانہ (عج)کی ایک خصوصیت کہ جو فریقین کی کتب میں ذکر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی بیعت کعبہ کے قریب ہوگی اور احمد حنبل پیغمبر اسلام (ص)سے حدیث نقل کرتے ہیں :

یبایع لرجل مابین الرکن والمقام (مسند احمد ج۲ ص ۲۹۱)

ایک شخص سے رکن و مقام کے درمیان بیعت کریں گے ۔

جابر جعفی امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:

یبایع القائم بین الرکن والمقام ثلاثماءة و نیف عدة اهل بدر (غیبت طوسی ص ۴۷۶)

اور بدر کی تعداد کے مطابق تین سو اور کچھ نفر قائم کے ساتھ رکن و مقام کے درمیان بیعت کریں گے

 

 

۱۳۔وسعت کے ساتھ عدالت:

امام مہدی(عج) کی حکومت کی اھم ترین خصوصیت ان کی طرف سے وسیع پیمانے پر عدالت کا نفاذ ہے احادیث میں اس موضوع پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ابوسعید خدری پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:

المھدی منی ۔۔یملأ الارض قسطا و عدلا کما ملئت الارض جورا و ظلما (سنن ابی داوود ج۴ ص ۱۰۷)

مہدی(عج) مجھ سے ہے زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جیسا کہ ظلم و جور سے پر ہوئی تھی

صقرین ابی رالف امام ھادی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:ان الامام بعدی الحسن ابنی و بعد الحسن ابنه القائم الذی یملأ الارض قسطا و عدلا کما ملئت جورا و ظلما (کمال الدین جلد ۲ ص ۲۸۳)

میرے بعد میرے فرزند حسن امام ہیں اور حسن کے بعد ان کے فرزند قائم امام ہیں اور وہ وہی ہیں کہ جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جیسا کہ وہ ظلم و ستم سے پر ہوئی تھی ۔

 

 

۱۴۔پیغمبراکرم کے ھم نام:

ایک موضوع کہ جس پر شیعہ و سنی دونوں فریقین کا اتفاق ہے وہ حضرت کا نام مبارک ہے عبداللہ پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کرتے ہیں : لاتذھب اولا تنقضی الدنیا حتی یملک العرب رجل من اھل بیتی یواطئی اسمہ اسمی (سنن ابی داوود ج۴ ص۱۰۶)

دنیا آخر تک نہیں پہنچے گی یا ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری اھل بیت سے ایک شخص جو کہ میرا ھم نام ہوگا عرب پر حکمرانی کرے گا

ھشام بن سالم امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں نے اپنے آباو اجداد کے پاکیزہ سلسلہ سے سنا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: القائم من ولدی اسمہ اسمی و کنیتہ کنیتی و شمائلہ شمائلی و سنتہ سنتی (کمال الدین جد۲ ص ۴۱۱)

قائم میرے فرزندان میں سے ہےان کا نام میرے نام جیسا ان کی کنیت میری کنیت کی مانند ان کے شمائل میرے شمائل جیسے اور ان کی سنت و روش میری سنت و روش جیسی ہے۔

 

 

(۱)امام مہدی(عج) کی ولادت مبارک :

ویسے تو کسی شخص کی ولادت پر اس کے والدین اور دایہ کی گواہی ہی کافی ہوتی ہے اگرچہ کسی اور نے ان کا مشاہدہ نہ بھی کیا ہو لیکن امام زمانہ (عج)کے بارے میں ان دو گواہیوں کے علاوہ سینکڑوں لوگوں کی گواہیاں موجود ہیں کہ جنہوں نے انہیں دیکھا ان سے ملاقات کی ان سے سوال کئے ان کی کرامات دیکھیں اور ان سے احادیث نقل کیں اس کے علاوہ امام زمانہ (عج)کے طویل عرصہ تک معین شدہ وکلا اور سفیر حضرات اور ہر دور میں ان کے لاکھوں کروڑوں پیروکار کہ جن میں بعض ان سے ملاقات بھی کرتے ہیں یہ سب ان کی ولادت پر قرائن و شواھد ہیں ۔

ان سب سے بڑھ کر اہم ثبوت وہ بہت سی احادیث و روایات ہیں کہ جو آپ کی ولادت مبارک کو بیان کررہیں ہیں کہ ہر دور میں ایک امام کا وجود ضروری ہے لیکن احادیث کی ایک کثیر مقدار ایسی ہے کہ جس میں معصومین علیھم السلام نے امام مہدی(عج) (عج ) کی ولادت کی بشارت دی ایسی احادیث کے چند نمونے ذیل میں ہیں:

 

 

۱۔احمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام فرما رہے تھے :الحمد للہ الذی لم یخرجنی من الدنیا حتی ارانی الخلف من بعدی (منتخب الاثر جلد ۲ ص ۷۹۱)

شکر ہے اللہ تعالی کا کہ اس نے مجھے اس جھان سے نہیں نکالا یہاں تک کہ مجھے میرا جانشین دکھلا دیا ۔

 

 

۲۔ابی غانم جو کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے خادم تھے کہتے ہیں :

ولد لابی محمد علیه السلام ولد فسماه محمدا فعرضه علی اصحابه یوم الثالث وقال هذا صاحبکم من بعدی و خلیفتی علیکم وهوالقائم الذی تمتد الیه الاعناق بالانتظار (کمال الدین جلد ۲ باب ۴۲ ح۸)

ابومحمد (امام حسن عسکری علیہ السلام )کے ہاں ایک فرزند پیدا ہوا کہ اس کا نام محمد رکھا گیا تیسرے دن امام حسن عسکری علیہ السلام نے اسے اپنے اصحاب کو دکھلایا اور فرمایا میرے بعد یہ تمہارا صاحب و امام اور تم پر میرا جانشین ہے یہ وہی قائم ہے کہ جس کا لوگ انتظار کررہے ہیں ۔

 

 

۳۔امام ھادی علیہ السلام نے فرمایا :ان الامام بعدی الحسن ابنی و بعد الحسن ابنه قائم الذی یملأ الارض قسطا و عدلا کما ملئت جورا و ظلما (گذشتہ ماخذ باب ۳۷ ج۱۰)

میرے بعد میرا فرزند حسن امام ہے اور ان کے بعد ان کے بیٹے قائم امام ہیں وہ وہی ہیں کہ جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے کہ جیسا کہ وہ ظلم و ستم سے پر ہوئی تھی

نوٹ:ایسی دیگر بہت سی روایات کو دیکھتے ہوئے امام زمانہ کی ولادت پر تواتر معنوی قائم ہوتا ہے ۔

 

 

 

(۲)امام مہدی(عج) کا نسب مبارک:

اہل سنت کے ایک گروہ کا یہ عقیدہ ہے کہ امام مہدی (عج)امام حسن علیہ السلام کی نسل سے ہیں نہ کہ امام حسین علیہ السلام کی نسل سے۔

اھل سنت کی معتبر کتابوں کے مطالعے اور تحقیق سے یہ نتیجہ نکلا کہ اس عقیدہ کے اثبات پر صرف ایک روایت ہے کہ جو سنن ابی داود میں وارد ہوئی ہے اس روایت کے متن میں آیا ہے کہ حضرت علی(ع) اس حال میں کہ اپنے فرزند حسن کی طرف دیکھ رہے تھے فرمایا: یقینا یہ میرا فرزند سید و سردار ہے جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں نام دیا ان کی صلب سے ایک شخص پیدا ہوگا کہ جو تمہارے پیغمبر کے ہم نام ہوگا اور خلقت میں ان کے مشابہ ہوگا ۔(سنن ابو داوود جلد۴ ح۴۲۹۰)

 

 

پہلا جواب

اگر ہم اس روایت کی سند و متن کا تجزیہ کریں اور اس کے مدمقابل وہ احادیث کہ جو امام مھدی (عج) کو امام حسین علیہ السلام کی نسل مبارک سے بتاتی ہیں ان سے مقایسہ کریں تو مندرجہ ذیل دلائل کی بنا پر اس روایت کے جعلی ہونے پر یقین حاصل ہوتا ہے :

 

 

(۱)ابوداوود سے حدیث کے نقل کرنے میں اختلاف:

محدث اھل سنت جزری شافعی (متوفی ۸۳۳ھجری) اس حدیث کو ابوداوود سے نقل کرتے ہیں لیکن لفظ حسن کی جگہ حسین ذکر کرتے ہیں (المناقب فی التھذیب السنی المطالب ص ۱۶۵أ۱۶۸)

 

 

(۲)حدیث کا مقطوع ہونا:

اس حدیث کی سند مقطوع یعنی حضرت علی علیہ السلام سے متصل اور پیوستہ نہیں ہے درمیان میں کچھ راوی موجود نہیں ہیں چونکہ وہ راوی جو حضرت علی علیہ السلام سے نقل کررہا ہے وہ ابواسحاق سبعی ہے کہ جس کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ اس نے ایک بھی حدیث حضرت علی علیہ السلام سے سنی ہو کیونکہ سنی محدث منذری اس حوالے سے صراحت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے وقت سات سال کا تھا (مختصر سنن ابی داوود ج۶ ص ۱۶۲)

سنی عالم ابن حجر کے مطابق وہ عثمان کے قتل کے دو سال قبل پیدا ہوا (تھذیب التھذیب ج۲ ص ۵۶)

 

 

(۳)حدیث کی سند کا مجہول ہونا:

اس حدیث کی سند میں ابوداوود کہتے ہیں کہ یہ حدیث ھارون بن مغیرہ نے میرے لئے بیان کی اس شخص کو علماء حدیث نہیں جانتے لھذا یہ ان کے نزدیک مجہول ہے تو خود اھل سنت کے محدثین کے قاعدہ کے تحت جس حدیث کی سند میں کوئی راوی مجہول ہو وہ حدیث قابل اطمینان نہیں ہے

 

 

(۴)اھل سنت کی بہت سی روایات کا اسے رد کرنا :

یہ حدیث ان تمام بہت سی احادیث کے خلاف ہے کہ جو خود اھل سنت نے نقل کئیں اور ان میں یہ وضاحت ہوئی ہے کہ امام مہدی (عج)امام حسین علیہ السلام کی نسل مبارک میں سے ہیں بعنوان مثال حذیفہ بن یمانی صحابی پیغمبر (ص) کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خطبہ فرمایا اور اس میں آنے والے دور کی خبروں سے ہمیں آگاہ کیا پھر فرمایا:

اگر دنیا کی عمر سے فقط ایک دن باقی رہ چکا ہو اللہ تعالی اس دن کو اتنا طولانی کرے گا کہ میری اولاد میں سے ایک شخص کو اٹھائے گا کہ جو میرا ہم نام ہوگا تو صحابی رسول سلیمان کھڑے ہوئے اور پوچھا اے اللہ کے رسول وہ آپ کے کون سے بیٹے کی نسل سے ہوگا تو آپ نے فرمایا: اس بیٹے سے اور اپنا ہاتھ امام حسین کو لگایا (المنار المنیف ابن قیم ص ۱۴۸ القول المختصر ابن حجر ج۴ ص ۳۷)

 

 

(۵)تبدیل ہونے کا احتمال :

بعید نہیں ہے کہ اس وقت کتاب کی نسخہ برداری کے وقت یہ لفظ حسین سے حسن میں تبدیل کردیا گیا ہو ورنہ اس قدر احادیث کے مدمقابل اس تنہا روایت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

 

 

دوسرا جواب:

اگر فرض کریں کہ یہ حدیث درست ہو تو پھر بھی یہ حدیث ان تمام احادیث کے ساتھ سازگار ہوسکتی ہے کہ جو بالصراحت کہہ رہیں ہیں کہ آپ امام حسین کی اولاد سے ہیں اس طرح کہ امام سجاد علیہ السلام کی زوجہ اور امام باقر علیہ السلام کی والدہ گرامی جناب فاطمہ امام حسن مجتبی کی بیٹی تھیں لھذا امام باقر علیہ السلام والد کی طرف سے حسینی اور والدہ کی طرف سے حسنی ہیں اسی طرح بعد والے ائمہ بھی حسینی اور حسنی ہیں چونکہ سب امام باقر علیہ السلام کی ذریت سے ہیں ۔

ذیل میں ہم چند بزرگ علماء اھل سنت کا نام ذکر کرتے ہیں کہ جنہوں نے امام مہدی (عج)کے امام حسین(ع) کی اولاد میں سے ہونے والی احادیث کو ذکر کیا اور ان کے حسینی ہونے کا اعتراف کیا :

(۱)علامہ ابن قتیبہ دینوری (متوفی ۲۷۶ھجری)

(۲)حافظ ابو الحسن علی بن عمر دارقطنی شافعی (متوفی ۳۸۵ ھجری)

(۳)حافظ ابو نعیم اصفہانی (متوفی ۴۳۰)

(۴)موفق بن احمد ملکی خوارزمی خطیب (متوفی ۵۸۶ ھجری )

(۵)شیخ الاسلام ابوالعلاء حسن بن احمد حسن عطار ھمدانی (متوفی ۵۶۹ ھجری)

(۶)ابن ابی الحدید (متوفی ۶۵۶)

 

بنی امیہ اور بنی عباس کی نظریاتی اولاد اور درباری ملاؤں نے دیگر ائمہ اھل بیت کی مانند امام مہدی(ع) کی عظیم ذات انکی امامت اور ان کے فضائل پر مشتمل مجموعہ احادیث کو ا پنے مقاصد کے لئے ایک بڑی رکاوٹ سمجتھے ہوئے فضول اور نامعقول اعتراضات کا نشانہ بنایا، ہم یہاں ذیل میں ان کے چند بڑے اعتراضات میں سے کہ جو در حقیقت انتہائی ضعیف توھمات کو بیان کرتے ہیں ایک اعتراض کو بیان کرتے ہوئے دلائل سے اسے رد کرتے ہیں :

 

 

اعتراض یا شبھہ:

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں امام مہدی(عج) کا تذکرہ کیوں نہیں ہوا شاید یہ ان کے نزدیک مسلم موضوع نہ تھا اور انہیں اس موضوع پر کوئی صحیح حدیث نہ ملی اسی لئے انہوں نے اپنی کتاب میں امام مہدی(عج) کے متعلق روایات کو ذکر نہیں کیا ۔

 

 

قابل غور نکات:

اس سے پہلے کہ ہم اس اعتراض کا تجزیہ کریں چند اہم نکات کی طرف توجہ دلاتے ہیں :

 

 

(۱)بخاری اپنی کتاب کے بارے میں ایک معروف و مشہور جملہ کہتے ہیں کہ : میں نے یہ کتاب ایک لاکھ صحیح حدیث (بعض کے مطابق دو لاکھ صحیح حدیث ) کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھی اور صحیح احادیث جنہیں میں نے چھوڑ دیا وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں ۔پس جناب بخاری کی اپنی تصریح کے مطابق وہ بہت سی احادیث جو انہوں نے چھوڑ دی ہیں وہ ضعیف نہیں بلکہ وہ صحیح تھیں مگر انہوں نے اپنی کتاب میں انہیں ذکر نہیں کیا

 

 

(۲)علماء اھل سنت کا ہرگز یہ نظریہ نہیں کہ وہ تمام روایات جو صحیح مسلم یا صحیح بخاری میں نقل نہیں ہوئیں وہ ضعیف ہیں بلکہ بات اس کے برعکس ہے کہ بہت سی احادیث صحیح ہیں لیکن صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ذکر نہیں ہوئیں لھذا انہوں نے انہیں استدراک کیا یعنی صحاح ستہ کی دیگر کتب میں ذکر کیا تاکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے خلا اور نقص کا جبران ہوسکے ۔

(۳)کسی بھی سنی محدث اور محقق نے کسی حدیث کے صحیح ہونے کا یہ معیار قرار نہیں دیا کہ وہ صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں موجود ہونی چاہئے بلکہ بعض ایسی احادیث کو جو اھل سنت کے نزدیک قطعی طور پر صحیح ہیں وہ صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں موجود نہیں ہیں مثلا حدیث العشرہ المبشرہ بالجنۃ کہ اسے نہ تو بخاری نے نقل کیا اور نہ مسلم نے ،جبکہ اھل سنت کے نزدیک یہ حدیث متواترہ ہے۔

جواب شبھہ:

یہ واضح سی بات ہے کہ امام مہدی(عج) کے متعلق احادیث مختلف جہات سے وارد ہوئیں مثلا بعض آپ کے نام شریف کے بارے میں، بعض آپ کے اوصاف کے بارے میں اور بعض آپ کے ظہور کی علامات کو بیان کرتے ہیں اور بعض آپ کی طرز حکومت کے حوالے۔۔۔لھذا ان تمام احادیث میں ضروری نہیں ہے کہ بہرصورت کلمہ مہدی موجود ہو کیونکہ ان احادیث کا معنی و مراد روشن و آشکار ہے مثلا کسی کتاب میں کوئی صحیح حدیث ذکر ہو اور اس میں امام مہدی(عج) کے نام سے ان کی کسی صفت کا تذکرہ ہو اور یہی حدیث اسی لب و لہجہ اور مضمون کے ساتھ صحیح بخاری میں نقل ہو لیکن وہاں امام مہدی(عج) کے نام مبارک کی بجائے کلمہ رجل یعنی ایک شخص کا ذکر ہو اب یہاں یہ شک و تردید رکھنا کہ شاید یہ حدیث امام مہدی(عج) سے مربوط نہیں ہے یہ دانشمندی نہیں ہے ۔

کیونکہ بہت سی روایات مجمل ہوتی ہیں اور ان کا اجمال دیگر بہت سی مفصل روایات سے برطرف کیا جاتا ہے ،علماء حدیث کے نزدیک یہ ایک عام اور مسلم سی بات کہ جب کسی حدیث کے بارے میں وہ اجمال یا ابھام کا شکار ہوتے ہیں تو وہ حدیث کسی دوسری کتاب میں مفصل حالت میں موجود ہوتی ہے وہ اسے ڈھونڈ کر دونوں کا مقایسہ کرتے ہوئے حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں اور یہ اجمال والی وضعیت ختم ہوجاتی ہے اسے لئے جب ہم صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان دونوں نے حضرت مہدی(عج) کے متعلق دسیوں احادیث مجمل ذکر کیں اور بعد والے علماء اھل سنت یا ان کی کتب کے شارحین نے ان احادیث کو بالصراحت امام مہدی(عج) کے ساتھ نسبت دی چونکہ اسی طرح کی دیگر کتب سے صحیح احادیث نے وضاحت کرتے ہوئے یہ اجمال دور کردیا تھا ۔

سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اھل سنت کے چہار موثق بزرگ علماء نے اپنی کتاب میں صحیح مسلم سے یہ حدیث نقل کی: المھدی حق وھو من ولد فاطمہ مہدی حق ہیں اور فاطمہ کی اولاد سے ہیں

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ صحیح مسلم کے عصر حاضر کے نسخہ جات میں یہ حدیث موجود نہیں ہے

وہ چار علماء مندرجہ ذیل ہیں :

(۱)ابن حجر میثمی (متوفی ۹۷۴ ھجری) اپنی کتاب الصواعق المحرقہ کے گیارہویں باب اور ص نمبر ۱۶۲ پر نقل کرتے ہیں

(۲)متقی ھندی حنفی (متوفی ۹۷۵ ھجری) اپنی کتاب کنز العمال کے چودھویں جلد اور صفحہ نمبر ۲۶۴ پر نقل کرتے ہیں۔

(۳)شیخ محمد علی صبان (متوفی ۱۲۰۶ ھجری)اپنی کتاب اسعاف الراغبین کے صفحہ نمبر ۱۴۵ پر نقل کرتے ہیں

(۴)شیخ حسن عدوی حمزاوی مالکی (متوفی ۱۳۰۳ھجری) اپنی کتاب مشارق الانوار کے صفحہ نمبر ۱۱۲ پر نقل کرتے ہیں

بہرحال صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بعض ایسی احادیث ہیں کہ جو فقط امام مہدی(عج) کے متعلق ہیں ان کے علاوہ کسی اور موضوع سے ھرگز مربوط نہیں ہیں یہ نکتہ نظر ہمارا نہیں ہے بلکہ یہ صحیح بخاری کے پانچ شارحین کہ جو اھل سنت کے بزرگ علماء سے تھے یہ ان کا نقطہ نظر ہے اور انہوں نے بالصراحت ان احادیث کی تشریح اور تفسیر میں انہیں امام مہدی(عج) کے موضوع کے ساتھ بیان کیا ہے ۔

(۱)صحیحین میں دجال کے خروج کے بارے میں احادیث:

بخاری نے اپنی صحیح میں دجال کے خروج اور اس کے فتنہ کے بارے میں ایک روایت ذکر کی ہے جبکہ صحیح مسم میں بہت سی احادیث دجال کے خروج ،اس کے طرز عمل، اس کے اوصاف، اس کے فتنہ و فساد، اس کی لشکر کشی اور اس کے عبرتناک انجام پر نقل ہوئی ہیں دجال کے متعلق یہ سب روایات امام مہدی(عج) کے ظہور کی علامات میں شمار ہوتی ہیں ۔

(2)صحیحین میں حضرت عیسیٰ کے نزول کے بارے میں احادیث :

بخاری اور مسلم دونوں نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوھریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا کہ جب مریم کا فرزند تم پر نازل ہوگا جبکہ تمہارا امام تم میں سے ہوگا (صحیح بخاری ج۴، ص۲۰۵، کتاب الانبیاء و صحیح مسلم ج۱، ح۲۴۴، ص۱۳۶)

مسلم نے اپی اسناد کے ساتھ جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے :

میں نے پیغمبر اکرم(ص) سنا کہ وہ فرما رہے تھے میری امت میں سے ایک گروہ قیامت تک واضح طور پر حق کی خاطر مقابلہ کرے گا پس عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اس گروہ کے ا میر کہیں گے آئیں ہمارے لئے نماز جماعت اقامہ کریں تو وہ کہیں گے کہ نہیں یقینا آپ میں سے بعض اس امت کی افضلیت کی بنا پر دوسروں پر امیر ہیں (صحیح مسلم ج۱ ،ح۲۴۷، ص ۱۳۷)اوراگر ہم دیگر معتبر احادیث کی کتب کی طرف رجوع کریں اور ان روایات کو وہاں مشاہدہ کریں تو وہ واضح طور پر بیان کرتی ہیں کہ اس گروہ کے ا میر سوائے حضرت مہدی(عج) کے اور کوئی نہیں ہیں مثلا ابن شبیہ ابن سیرین سے نقل کرتے ہیں:

مہدی اسی امت سے ہیں اور وہ وہی ہیں کہ جو عیسی بن مریم کے لئے امامت کریں گے (المصنف ج۱۵ ح ۱۹۴۹۸)

ابو نعیم ابن عمردانی سے اور وہ حذیفہ سے نقل کرتے ہیں :

رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا مہدی نظر اٹھائیں گے اس حال میں کہ عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے گویا کہ ان کے بالوں سے پانی کے قطرے گررہے ہوں گے پھر حضرت مہدی کہیں گے آگے آئیں اور لوگوں کے ساتھ نماز جماعت قائم کریں تو عیسیٰ کہیں گے نماز صرف آپ کے لئے برپا ہوئی ہے پس وہ (عیسیٰ) میری نسل سے ایک شخص کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے (الحاوی للفتاوی ج۲ ص۸۱)

کتاب فتح باری شرح صحیح بخاری میں احادیث مہدویت کے تواتر پر تصریح کی گئی ہے اسی طرح گذشتہ حدیث کی تشریح میں شارح یہ کہتے ہیں :

حضرت عیسیٰ کا اس امت کے ایک شخص کے پیچھے نماز قائم کرنا چونکہ یہ آخرالزمان اور قیامت کے نزدیک کا زمانہ ہے ۔۔۔۔۔ یہ بذات خود اس کلام کے صحیح اور درست ہونے کی علامت ہے کہ جس میں فرمایا گیا بلاشبہ زمین اللہ تعالی کی طرف سے قائم یا حجت سے خالی نہیں ہوسکتی (فتح باری ج۶ ص ۳۸۳۔۳۸۵)

صحیح بخاری کے دوسرے مفسر و شارح قسطلانی اس حدیث کی تشریح میں کہتے ہیں کہ: حضرت عیسیٰ نماز میں امام مہدی کی اقتدا کریں گے (ارشاد الساری فی شرح صحیح البخاری ج۵ ص ۴۱۹)

اسی طرح صحیح بخاری کی دیگر شروحات مثلا عمدۃ القاری فی شرح صحیح بخاری اور فیض الباری فی شرح الصحیح بخاری میں بھی یہی تصریح کی گئی ہے بلکہ فیض الباری میں ابن ماجہ سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے اور پھر وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں الامام سے مراد وہ امام مہدی ہیں (فیض الباری ج۴ ص ۴۴۔۴۷)

(۳)صحیح مسلم کی احادیث اس شخص کے بارے میں کہ جو مال و متاع عنایت کرے گا:

مسلم اپنی اسناد کے ساتھ جابر ابن عبد اللہ سے نقل کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میری ا مت کے آخری دور میں ایک خلیفہ آئیں گے جو فراوان مال عنایت کرے گا اور اسے شمار نہیں کرے گا (صحیح مسلم ج۱۸ ص ۳۸)

انہوں نے اس حدیث کو جابر اور ابوسعید خدری کی دیگر اسناد کے ذریعہ بھی رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے اہل سنت کی دیگر معتبر احادیث کی کتب کے مطابق یہ فراوان مال عطا کرنے والا خلیفہ سوائے امام مہدی(عج) کے اور کوئی نہیں ہیں ۔

ترمذی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابو سعید خدری سے اور انہوں نے رسول اکرم(ص) سے نقل کیا آپ نے فرمایا: مہدی میری امت میں ہے (یہاں تک کہ آپ نے فرمایا )ایک شخص اس کے پاس آئے گا اور کہے گا اے مہدی مجھے مال عطا کر تو وہ اس کے مال اٹھانے کی طاقت کے مطابق اس کی گود میں مال و دولت ڈال دیں گے (سنن ترمذی، ج۴ ،ح ۲۲۳۴)

(۴)صحیح مسلم میں خسف بیداء کے متعلق احادیث:

مسلم نے اپنی صحیح میں اپنی اسناد کے ساتھ عبید اللہ ابن قطبہ سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ حارث ابن ابی ربعیہ بن صفوان میرے ساتھ تھے ہم ام المومنین ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے اس لشکر کے بارے پوچھا کہ جو زمین میں دھنس جائے گا ام سلمہ نے فرمایا پناہ لینے والا اللہ کے گھر میں پناہ لے گا اس وقت ایک گروہ ان کے تعاقب میں بھیجا جائے گا جب وہ بیدا کے مقام پر پہنچیں گے تو وہاں وہ زمین میں دھنس جائیں گے (صحیح مسلم ج۱۸ ص ۴۔۷)

اھل سنت کی دیگر کتب اور روایات سے واضح ہوتا ہے کہ خانہ خدا میں امام مہدی(عج) ہوں گے اور سفیانی ان کو قتل کرنے کے لئے لشکر بھیجے گا جو حکم خدا سے بیداء میں دھنس جائے گا۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=11438