آیت اللہ اعرافی کی آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی سے ملاقات
علامہ ساجد نقوی نے یوم آزادی صحافت کے مناسبت سے بذریعہ ٹیلی فونک میڈیا ارکان سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر یوم آزادیِ صحافت کا دن منانے کامقصدبھی دراصل اہل صحافت کا اس بات کی تجدید کر نا ہے کہ کسی بھی دباو ، لالچ ،انتہا پسند عناصر یا ریاستی منفی دباو کے بغیر آزاد ، صحیح اور ذمہ دارانہ اطلاعات عوام تک پہنچانے کے بنیادی حق کےلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
نواسہ رسول حضرت امام حسن ؑ کی سیرت و کردار سے الہام لیتے ہوئے ہم نے بھی وطن عزیز میں اتحاد و وحدت کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جس سے نہ صرف ارض پاک انتشار و افتراق سے محفوظ رہا بلکہ پاکستانی عوام بھی اخوت کی لڑی میں پرﺅے جا چکے ہیں
انہوں ںے کہا کہ اس وقت بھی نصاب اور دیگر مسائل پر بے چینی پائی جاتی ہے، میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی اس بابصیرت اور بیدار قیادت کی موجودگی میں ہم ہر مشکل سے کامیابی کیساتھ نکلیں گے،
ملاقات میں قومی و ملی امور کے ساتھ ساتھ کوئٹہ اور سندھ کے دورہ جات کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی۔ قائدِ ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے مرکزی وفد کی تنظیمی اور ملی کاوشوں کو سراہا اور ان کوششوں کو مذید بڑھانے کے لیے ہدایات دیں۔
ہم ایسے وقت میں ان کی یاد منارہے ہیں جب ایسی بے پناہ صلاحیتوں کی مالک شخصیات کی موجودگی عہد حاضر کی ضرورت ہے تاہم ان کی شخصیت کے ان مختلف پہلوﺅں کو مشعل راہ بناکر قومی آواز بننے کی سعی و کوشش ضرور کی جاسکتی ہے
بھارت ہٹ دھرمی چھوڑکر مظلوم کشمیریوں کواستصواب رائے کا حق دے، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں کشمیر و فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کےلئے اپنا مثبت کر دار ادا کریں،کشمیری بھائیوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھی جائے، یوم سیاہ کے موقع پر پیغام
علامہ ساجد نقوی نے یہ بات زور دے کر کہی کہ خاتم المرسلینؐ اور حضرت امام جعفر صادق ؑکے میلا د کا جشن منانے کا سب سے بہتر اور موزوں طریقہ یہ ہے کہ امت مسلمہ بالخصوص اور عالم انسانیت بالعموم حضور اکرم ؐاور خانوادہ رسالت ؐ کی سیرت اور فرامین پر عمل کرے اور اپنی انفرادی‘ اجتماعی‘ روحانی‘ دینی و دنیاوی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے حضور اکرم ؐ کے اسوہ حسنہ کو نمونہ عمل قرار دے۔
قائد ملت جعفریہ کا کہنا تھا کہ ہماری دعا ہے کہ خداوند کریم مرحوم کو جنت الفردوس میں جوار معصومینؑ میں جگہ عنایت کرے آپ اور تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے
تمام جلوسوں کو روایتی بنانے پھر ایک ایک کرکے انہیں ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی چنانچہ پہلے مرحلے میں لائسنس ہولڈرز کی وفات پر وارثوں کے نام لائسنس منتقل کرنا بند کیا جانا د وسرے مرحلے میں بعض روایتی جلوسوں کو سازش کے تحت شرپسندوں کے ذریعے رکوایا جاتا ہے اور انتظامیہ وعدہ کرتی ہے کہ یہ جلوس آئندہ سال نکلوا دیا جائے گا لیکن اگلے سال جلوس نکالنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔