9

امام کاظم علیہ السلام کی سیرت سنی کتابوں کے نقطہ نظر سے

  • News cod : 13061
  • 10 مارس 2021 - 15:04
امام کاظم علیہ السلام کی سیرت سنی کتابوں کے نقطہ نظر سے
امام موسی کاظم ؑ نے اپنے چاہنے والوں کو یہ سکھایا کہ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ کس طرح کا برتاو رکهے

تحریر: شیخ محمد کاظم شریفی

مقدمه
امام کاظم علیہ السلام اعلیٰ شخصیت کے مالک تھے ۔ آپ نے اپنی زندگی کے بهترین لمحات قید خانے میں گزاری۔ لیکن ان سخت لمحات میں بھی آپ ع نے مذھب حقہ و دین اسلام کی ترویج میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا۔آپ کو باب الحوائج کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا یے۔ احادیث میں آپکی زیارت کی بہت تاکید اور فضیلت بیان یوئی ہے
امام رضا (ع)، امام کاظم(ع) کی زیارت کے ثواب کے بارے میں فرماتے ہیں:
«من زار قبر أبی ببغداد کان کن زار قبر رسول الله و قبر امیرالمؤمنین صلوات الله علیه، إلا أنّ الرسول و لأمیرالمؤمنین صلوات الله علیهما فضلهما»(1)
جو شخص بغداد میں میرے والد امام کاظم(ع) کی روضه پر زیارت کے لئے جائے وہ اس شخص کی طرح ہے جو رسول خدا (ص) اور امیرالمؤمنین (ع) کی زیارت کے لئے جاتا ہے، لیکن رسول خدا (ص) اور امیرالمؤمنین (ع) کی زیارت کی فصیلت اپنی جگہ پر محفوظ ہیں.
آپ کی والدہ ماجده، حمیدہ، اندلس (موجودہ اسپین) سے ہیں، بی بی حمیدہ(س) متقی خاتون، عالمه اور اہل بیت کی تعلیمات سے واقف تھیں، امام صادق (ع) آپ کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “حمیدہ خالص سونے کی طرح ہے، جو هر قسم کی گندگی سے پاک ہے۔”
امام کاظم(ع) ایک ہیرا کی مانند تاریک جیل میں تھے، جیل میں امام کاظم علیہ السلام کی بہادرانہ زندگی نے حقیقت توحید اور خدا تعالٰی کے ساتھ خالص رشتے کی سچائی کو ظاہر کیا، اور آپ نے صبر و استقامت کے ساتھ تاریخ کے ستمگروں کو درس دیا که ظلم و جبر کی زنجیروں سے آزادی اور فضیلت کے چراغ کو بند نہیں کیا جاسکتا، آپ نے علی علیہ السلام کی تلوار تھام رکھی تھی اور حلق میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کی فریاد، اور حسین (ع) کا خون آپ کی رگوں میں دوڑ رہا تھا، آپ قرآن کا عینی وجود تھے اور آپ کے فیصلے ظالموں اور منافقین کے خلاف، ایک تیز تلوار کی مانند تھے جس نے ان کا وقت تاریک کردیا تھا.
جب کسی نے وصف امام کاظم(ع) پہاڑ سے پوچھا، تو اس نے کہا: آپ مجھ سے زیادہ مضبوط ہیں اور جب کسی نے سمندر کی اونچی لہروں سے پوچھا، تو اس نے کہا: آپ مجھ سے زیادہ بلند ہیں اور جب کسی نے سورج سے پوچھا، اس نے کہا: آپ مجھ سے زیاده روشن ہیں اور جب کسی نے چاند سے پوچھا، اس نے کہا: آپ مجھ سے زیاده چمکتے ہیں اور جب کسی نے خداوند متعال سے پوچھا، آپ نے فرمایا: وہ ہمارا نیک بندہ ہے اور ہمیشہ لمبی سجدوں میں ہمارے ساتھ راز و نیاز کرتے رہتے ہیں اور جب کسی نے قرآن سے پوچھا ، انہوں نے کہا: میری هر آیت آپ کی تعریف کرتی ہے، جب کسی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا: “جبریل یہ پیغام خدا میری طرف لیکر آیا ہے که خدا نے فرمایا:
«موسي عبدي و حبيبي و خيرتي»(2)
حضرت موسی ابن جعفر علیہ السلام میرا پاک بنده اور حبیب ہے، اور انسانوں میں میرا منتخب شده بنده ہے.
“کاظم” ایک لفظ نہیں تھا، بلکہ یہ ظلم کرنے والوں کے خلاف ایک علامت تھی،هم نے اس مختصر مضمون میں، مفید اور مختصر مطالب کے اظہار کی کوشش کی هے، پہلے حصے میں ، ہم امام کاظم (ع) کے بارے میں سنی علماء کے خیالات اور ان کے اعترافات بیان کریں گے.
امام کاظم (ع) سنی علماء کے نقطہ نظر سے
اهل تشیع کے در میاں امام کاظم (ع) باب الحوائج کے نام سے مشهور ہیں، لیکن انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ اهل سنت میں بهی اور یہاں تک کہ بڑے سنی علمائے کرام کے درمیان بھی، امام کاظم(ع) اس لقب کے ساتھ مشہور ہیں، اور یہاں ایک اور اہم نکتہ بیان کرنا چاہئے، اور وہ یہ ہے کہ بزرگ سنی علماء نہ صرف اعتقاد رکهتے تھے ، بلکہ عملی طور پر اس عظیم امام کے مزار اور روضه پر جاکر ان سے اپنی حوائج کو طلب کرتے تھے، لیکن صد افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج انهیں سنی علماء کے شاگرد هم سے پوچھتے ہیں کہ شیعہ خدا کے سوا کسی اور کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں؟
ان کے جواب میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے ماضی کے علمائے کرام کی سابقه حیات کو دیکھیں تا که یہ جان لیں کہ آپ کے بڑے بڑے علماء اسے اعتقاد کے باره میں کیا سوچتے تھے .اس حصے میں، ہم سنی کتابوں کی کچھ حوالہ دیتے ہیں.
تاریخ میں مشہور ہے کہ امام شافعی جو شافعی مذہب کے امام هیں، امام کاظم(ع) کے مزار پر جاکر آپ سے متوسل ہوکر اپنی حاجات طلب کرتے تھے، اس سلسلے میں الدمیری ایک سنی عالم لکھتے ہیں:
«كان الشافعي يقول قبر موسى الكاظم الترياق المجرب»(3)
شافعی ہمیشہ کہتے تھے: موسی کاظم(ع) کی روضه ایک تجربہ کار دوائی جیسا ہے.
دوسرا سنی عالم، جس نے موسی ابن جعفر علیہ السلام کی مرقد او روضه کا متوسل هوا ہے، ابو علی الخلال ہیں، اسی مطلب کو خطیب البغدادی اور ابن جوزی صحیح سند کے ساتھ لکھتے ہیں:

«اخبرنا احمد بن جعفر بن حمدان القطيعي قال :سمعت الحسن بن ابراهيم الخلاّل يقول : ما اهمّني امر، فقصدت قبر موسي بن جعفر (عليه السلام) . فتوسلت به إلا سهل الله لي ما احب»(4)
احمد بن جعفر ابن حمدان القطی نے بیان کیا کہ میں نے حسن بن ابراہیم خلال کو کہتے سنا ہے: میرے لئے جو بھی مسئلہ پیدا ہوتا تها، میں موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام سے متوسل هوتا تها اور خدا نے مجھے وہ چیز عطا فرماتا جو میں چاهتا تها.
تیسرا شخص در حقیقت دوسرے خلیفہ کی اولاد میں سے ہے جس کا نام عبدالباقی العمری الفاروقی ہے، اس نے کتاب «الترياق الفاروقي في منشأت الفاروقي» میں لکھا ہیں:
«لذو استجر متوسلا ان ضاق امرک او تعسر بأبي الرضا جدالجواد محمد موسي بن جعفر»(5)
اگر آپ کو کوئی مشکل درپیش ہو تو امام رضا کے والد اور محمد جواد کے دادا موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام کی طرف رجوع کریں.
احمد ابن یوسف قرمانی بھی ایک سنی علماء میں سے ہیں جو امام کاظم (ع) سے توسل کے بارے میں لکھتے ہیں:
«هوالمعروف عند أهل العراق بباب الحوائج، لأنه ما خاب المتوسل به في قضاء حاجة قط»(6)
آپ عراقی عوام میں باب الحوائج کے نام سے مشهور تھے کیونکہ جو بھی کوئی ان کی پاس حاجات لاتے تھے تو ان کی حاجت پوری هوجاتی تهی.
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ امام کاظم (ع) نے جیل میں کافی وقت گزارا، لہذا کوئی بھی آپ کو نہیں جانتا، لیکن آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ امام کاظم (ع)، وہابی علمائے میں بھی ایک مشہور، معروف اور قابل احترام شخصیت تھے۔
خطیب بغدادی، مشہور سنی علمائے میں سے ہیں جو اپنی کتاب تاریخ بغداد میں امام کاظم (ع) کے بارے میں لکھتے ہیں:
«وكان سخيا كريما وكان يبلغه عن الرجل أنه يؤذيه فيبعث إليه بصرة فيها ألف دينار وكان يصر الصرر ثلاثمائة دينار وأربعمائة دينار ومائتي دينار ثم يقسمها بالمدينة وكان مثل صرر موسى بن جعفر إذا جاءت الإنسان الصرة فقد استغنى»(7)
آپ سخی اور نیک آدمی تھے اور جو شخص آپ کو تکلیف پہنچاتا تها آپ اسے ایک ہزار دینار دیتے تهے اور آپ نے 300 دینار، 400 دینار اور 200 دینار کی تھیلیاں تیار رکهی تھی تا کے مدینہ کے غریبوں میں بانٹ سکے ، آپ کے پیسوں کی تھیلی لوگوں میں محاورہ کے طور پر استعمال هوتا تها، اور اگر موسی بن جعفر (ع) کے تھیلے کسی تک پہنچ جائے وه مال دار اور بے نیاز هوجاتا تها.
ہاں پیارے قارئین مولا کے چاہنے والوں پر لازم ھے که امام (ع) کی سیرت پر عمل کرے،آئیے اپنی اپنی زندگی اور اپنے بچوں کی پرورش پر ایک نظر ڈالیں ، که ہم امام کاظم علیہ السلام کی سیرت پر کتنا چلتے ہیں؟
ایک اور سنی عالم دین جس کا نام عبد الرحمٰن ابن علی ابن محمد ابو الفراج ابن الجوزی الحنبلی ہے جو لکھتے ہیں:
«موسى بن جعفر بن محمد بن علي إبن الحسين بن علي أبو الحسن الهاشمي عليهم السلام. كان يدعى العبد الصالح لأجل عبادته واجتهاده وقيامه بالليل وكان كريما حليما إذا بلغه عن رجل أنه يؤذيه بعث إليه بمال»(8)
موسیٰ ابن جعفر ابن محمد ابن علی ابن الحسن ابن علی ابو الحسن الہاشمی علیہ السلام عبادت، جد و جهد اور شب زنده داری کی وجہ سے عبد صالح نام دیا گیا، آپ ایک شریف اور نرم مزاج شخصیت کے مالک تھے اور جب بهی آپ کو معلوم ہوتا تها کہ کسی نے آپ کے حوالے سے نا زیبا الفاظ استعمال کیا ہے تو آپ اسے مال بھیج دیا کرتے تهے.
ابن تیمیہ، جس نے وہابی نظریہ اور فرقہ کی بنیاد رکهی تهی جو ائمه معصوم (ع) سے دشمنی رکهتا تها، وہ امام کاظم علیہ السلام کے بارے میں لکھتا ہے:
«وموسى بن جعفر مشهور بالعبادة والنسك»(9)
موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام اپنی عبادت اور تقویٰ کے لیئے مشہور تھے۔
اس مظلوم اور عظیم الشان امام کے کردار کی تعریف میں سنی علمائے کی کتابوں سے بے شمار اقوال نقل کیے جاسکتے ہیں، لیکن همارے لیئے ان الفاظ کو جاننا ضروری نہیں ہے صرف ایک بات اهم ہے کہ ہم امام کاظم(ع) کی اس سیرت کے مطابق کیسے زندگی گزار سکتے ہیں؟ اگر ہم ائمہ معصومین علیهم السلام کی طرح عبادت نہیں کرسکتے ہیں تو کم سے کم هم اپنے فرائض بروقت انجام تو دے سکتے ہیں.

امام کاظم (ع) کے کردار مخالفین کے ساتھ
امام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو یہ سکھایا کہ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ کس طرح کا برتاو رکهے، یعنی اگر کوئی میرے نظریہ اور نظریات سے متفق نہیں ہے تو میں ان کے ساتھ کیسا سلوک رکهوں؟ اس سوال کے جواب میں ، میں سنی کتابوں سے ایک روایت نقل کرکے اپنے مضمون کو ختم کردوں گا.
مزی کتاب تهزیب الکمال میں اور خطیب البغدادی اپنی کتاب تاریخ بغدادی میں امام کے حسن سلوک کے بارے ایک روایت بیان کرتے ہیں جس میں کوئی شخص امام کاظم(ع) کی توہین کرتا ہے:
حسن بن محمد (اپنے سند میں) روایت کرتے ہے کہ مدینہ میں ایک شخص جو عمر بن خطاب کے اولاد میں سے تها، اور جب بھی یہ شخص نے امام کاظم(ع) سے ملاقات کرتا تو آپ اور علی بن ابیطالب (ع) کی توہین کرتا تها، کچھ صحابہ نے امام سے درخواست کی که آپ اجازت دیں تاکہ اس شخص کو قتل کرسکے، لیکن امام کاظم(ع) نے اس کی سخت مخالفت کی اور انہیں ایسا کرنے سے منع کیا، پهر امام نے اس شخص کی بارے میں پوچھا صحابه نے امام کو جواب دیا: یه شخص مدینہ کے ارد گرد ایک جگہ زراعت میں مصروف ہے،امام مرکب کے ساتھ اس شخص کے زمین میں داخل ہوئے۔ وہ شخص امام کو دیکھ کر چلا نےلگا: میری کھیت کو خراب نہ کریں! حضرت اس شخص کے پاس پہنچے ۔آپ مرکب سے اترے اور اس شخص کے ساتھ بیٹھ گئے اور خوشی سے اس کے ساتھ مذاق اور ہنسنے لگے اور اس سے کہا: آپ نے اس کاشت پر کتنا خرچ کیا تها؟ اس شخص نے کہا: ایک سو دینار آپ نے فرمایا: تم اس سے کتنا حاصل کرنے اور کمانے کی امید رکهتے ہو؟ اس نے کہا: مجھے غیب کا کوئی علم نہیں (میں کتنا کماتا)! حضرت نے فرمایا: میرا مطلب یه هے آپ کو کتنا کمانے کی امید ہے تو اس نے کہا: مجھے امید ہے کہ اس زمین سے دو سو دینار کما لوں گا امام نے کئی تھیلیاں جس میں هر تیلی میں تین سو دینار تهے اس شخص کو دیا اور فرمایا: یہ لے لو ، تمہاری کاشت بھی تمہارے لئے اور خدا تمہیں اس کا بدلہ دے جس کی تم امید کرتے ہو راوی کہتے ہیں: اس شخص نے اٹھ کر امام کے سر کو بوسہ دیا اور امام کاظم(ع) سے کہا کہ میری بدتمیزی اور بری زبان کو معاف کردے موسیٰ ابن جعفر(علیہ السلام) مسکراتے کہوں گا اور اس نے امام موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام کو دعا دینا شروع کردی۔اس شخص کے ساتھیوں نے ا سے وجہ پوچھی لیکن اس نے اسی طرح جواب دیا.
جیسے ہی امام کاظم(ع) اپنے گھرواپس تشریف لایے، آپ نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ دو راستوں میں سے کون سا بہتر تھا؟ وه راستے جو آپ چاہتے تھے اور وه راستے جو میں نے انتخاب کیا؟(10)

نتیجہ
امام کی شخصیت اتنی خوبصورت ،درخشان تھی کہ اہل سنت علماء بھی آپکی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
امام کاظم(ع) باب الحوائج کے نام سے مشهور هے، آپ اپنی زندگی کے دوران خدا کی راہ میں اپنی عبادت اور جہاد کی وجہ سے “زین المجتہدین” (مجاہدین کی زینت) کے نام سے مشہور تھے.

اقتباسات
1)کلینی، اصول کافی، ج ۴، ص ۵٨٣، ح ١.
2)محدث كليني، اصول كافي، ج1، ص528، حديث لوح.
3)الدميري، كمال الدين محمد بن موسى بن عيسى، الوفاة: 808 هـ ، حياة الحيوان الكبرى ج1، ص 189، ناشر : دار الكتب العلمية – بيروت / لبنان – 1424 هـ – 2003م ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : أحمد حسن بسج.
4) البغدادي، ابوبكر أحمد بن علي بن ثابت الخطيب (متوفاى463هـ)، تاريخ بغداد، ج 1 ص 120 ، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
5) الترياق الفاروقي في منشأت الفاروقي، ص 98-99
6)قرماني، أحمد بن يوسف، أخبار الدول و آثار الأول في التاريخ، ج 1 ص 337 ، (المتوفى: 1019هـ)، المحقق، الدکتور فهمي سعد، الدکتور أحمد حطيط، عالم الکتاب.
7) الغدادي، ابوبكر أحمد بن علي بن ثابت الخطيب (متوفاى463هـ)، تاريخ بغداد، ج 13 ص 28 ، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.
8)ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاى 597 هـ)، صفة الصفوة، ج 2 ص 184 ، تحقيق: محمود فاخوري – د.محمد رواس قلعه جي، ناشر: دار المعرفة – بيروت، الطبعة: الثانية، 1399هـ – 1979م.
9) ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 4 ص 57 ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ..
10) المزي، ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 29 ص 46-45 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=13061