29

واقعہ معراج کی حقیقت ،پیغام اور تقاضے

  • News cod : 13098
  • 10 مارس 2021 - 17:06
واقعہ معراج کی حقیقت ،پیغام اور تقاضے
واقعہ معراج اس دوران پیش آیا جب آنحضرت (ص) کی تبلیغی کاوشیں رنگ لا چکی تھیں اور آپ کی تبلیغی آواز عرب کے تمام باشندوں تک پہنچ چکی تھی۔آپ کی دعوتِ توحید سے اکثریت متاثر ہو چکی تھی اس سلسلے میں آپ (ص)کو ایسے افراد بھی میسر آ چکے تھے جو دعوت حق کی راہ میں جان دینے پر بھی تیار تھے۔مکے کے علاوہ مدینے میں طاقتور قبیلوں کے افراد آپ (ص)کے حامیوں میں شمار ہوتے تھے.

تحریر : یاور عباس،شعبہ علوم، اسلامی ، جامعہ کراچی
واقعہ معراج اس دوران پیش آیا جب آنحضرت ﷺ کی تبلیغی کاوشیں رنگ لا چکی تھیں اور آپ کی تبلیغی آواز عرب کے تمام باشندوں تک پہنچ چکی تھی۔آپ کی دعوتِ توحید سے اکثریت متاثر ہو چکی تھی اس سلسلے میں آپ ﷺ کو ایسے افراد بھی میسر آ چکے تھے جو دعوت حق کی راہ میں جان دینے پر بھی تیار تھے۔مکے کے علاوہ مدینے میں طاقتور قبیلوں کے افراد آپ ﷺ کے حامیوں میں شمار ہوتے تھےلہذا وہ وقت قریب تھا کہ آپ ﷺ مدینے کی طرف ہجرت کر کے وہاں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالنے کے لئے جد و جہد کرے۔ان حالات میں واقعہ معراج پیش آیا اور سفر معراج سے واپسی پر آپ ﷺ نے لوگوں کو پیغامِ معراج سنایا۔
واقعہ معراج کا ذکرقرآنِ مجید کے دو سورتوں میں کیا گیا ہے۔ایک سورہ اسراء اور دوسری سورہ نجم میں۔اس اعتبار سے دونوں سورتوں کو یکجا کرنے سے واقعہ معراج کے بارے میں معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔سورہ اسراء کو سورہ بنی اسرائیل بھی کہا گیا ہے اور اس کے دیگر اسماء میں بعض مفسرین کی طرف سے ‘‘ سبحان’’ کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے یوں اس کے اسماء میں سے ایک نام سورہ سبحان ہو گا، البتہ سب سے زیادہ مشہور نا م سورہ بنی اسرائیل ہے۔
واقعہ معراج کا تذکرہ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں کیا گیا ہے جہاں پر سفرِ معراج کی ابتدائی صورتِ حال اور مقصدِ معراج کو بیا ن کیا گیاہے۔اس سلسلے میں قرآن مجید کے سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت یوں شروع ہوتی ہے:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1)
‘‘ پاک ہے وہ جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے اس مسجد تک لے گیا جس کے گرد و پیش میں ہم نے برکتیں رکھیں تاکہ ہم انہیں کچھ نشانیاں دکھائیں ، یقینا وہ خوب سننے والا ، دیکھنے والا ہے ’’
اس آیت میں سفرِ معراج کا مقصد واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کو اپنی کچھ خاص نشانیاں دکھانا چاہتا ہے تاکہ آنحضرت ﷺ ایمان بالغیب کے ساتھ ایمان بالشہود کے مقام پر فائز ہوں۔آیت کی روشنی میں سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کو مسجد الحرام سے مسجد اقصی(بیت المقدس) تک لے جایا گیا اس کے بعد وہاں سے آپ کا سفرِ معراج شروع ہوا۔اس سلسلے میں ارشاد نبوی ہے:
لَمَّا فَرَغْتُ مِمَّا كَانَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ، أُتِيَ بِالْمِعْرَاجِ ((2
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جب میں سفر بیت المقدس سے فارغ ہو تو مجھے معراج پر لے جایا گیا
لہذ ایہ ابتدائی سفر ،سفرِ معراج کا مقدمہ بنا۔اس سفر کےابتدا کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ کہاں سے شروع ہوا؟ خانہ کعبہ کے قریب سے یا آنحضرت ﷺ کے کسی رشتہ دار کے گھر سے،البتہ اس اختلاف کی وجہ سے اصل واقعہ معراج پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔(3)
واقعہ معراج کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے قرآن مجید اور حدیث نبوی سب سے اہم ذرائع شمار ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں بعض اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اسراء اور معراج کے واقعات کا زمانہ الگ ہے اس لئے ان اقوال کے مطابق آپ کے دو سفر ثابت ہوتے ہیں ایک وقت میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک جبکہ دوسرے سفر میں آپ ﷺ کو مسجد اقصی سے سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا،لیکن علماء کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ آپ کے یہ دونوں سفر ایک ہی وقت میں متحقق ہوئے ہیں یعنی ایک ہی وقت میں آپ ﷺ کو مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک لے جایا گیا پھر مسجد اقصی سے معراج کا سفر شروع ہوا۔((4
سورہ بنی اسرائیل کے علاوہ سورہ نجم میں بھی اس سفر کے بارے میں تذکرہ آیا ہے۔اس سفر کےجزئیات اور پیغامات اسی سورے میں بیان ہوئے ہیں۔
معراج کی حقیقت:
واقعہ معراج انسانی تاریخ میں سب سے بڑا اور موثر واقعہ ہے۔اللہ تعالی کی طرف سےانسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کرام بھیجے گئے اور انہیں انسان کی ہدایت کا دستور دیا گیا۔ ہر نبی نے اپنی ذمے داری احسن طریقے سے انجام دیا۔اللہ تعالی نے انسانی ہدایت کے لئے ایک نظام رکھا ہے جس کے تحت تمام امور سر انجام دئے جاتے ہیں اور اس نظام سے ہٹ کر کوئی کام انجام نہیں دیا جاتا ہے۔اس مطلب کو اس مثال کے ذریعے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی حکومتیں اپنی ریاستوں کو منظم طریقے سے چلانے کے لئے ایک نظام مرتب کرتی ہے،دوسرے ممالک سے تعلقات کے سلسلے میں سفراء بھیجتی ہے اور اندرون ملک نظامِ حکومت کے لئے گورنروں اور وزراء کا انتخاب کرتی ہے،البتہ اس طرح کی حکومتوں اور حکومتِ الہی میں بڑا فرق یہ بھی ہے کہ دنیوی حکومتوں کے گورنر اور وزراء محض ریاست کی انتظام و انصرام کے لئے کام کام کرتے ہیں جبکہ الہی نمائندے انسان کو علم و عمل ،پاکیزہ زندگی،صحیح تہذیب اور ایسےاصولوں کی طرف دعوت دیتے ہیں جو انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں۔دنیا کی حکومتیں گورنری اور وزارت کی ذمے داری صرف انہی لوگوں کو دیتی ہیں جو اس منصب کے لئے اہل ہونے کے ساتھ ان کے لئے قابلِ اعتماد ہوں۔نظام حکومت کے سلسلے میں ان گورنروں اور وزراء سے مشاورت کی جاتی ہے اور ان کی نظریات کو اہمیت بھی دی جاتی ہے۔ضرورت پڑنے پر حکومتیں اپنے وزراء کے سامنے ایسے راز بھی افشاں کرتی ہیں جو عام لوگوں پر ظاہر نہیں کیے جاتے ہیں اور اس مقصد کے لئے انہیں خاص مقام پر بلایا جاتا ہے۔الہی نظام میں بھی یہی طریقہ اپنایا گیا ہے۔اللہ تعالی کی طرف سے صرف الہی منصب کے لئے ایسی ہستیاں مقرر ہوئیں جو سب سے زیادہ قابل اعتماد تھیں۔جب ان ہستیوں کو اس منصب کے لئے مقرر کیا گیا تو انہیں نظام الہی کا مشاہدہ کرایا گیا اور ان کے سامنے ایسے اسرار ظاہر کئے گئے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کئے جاتے۔حضرت ابراہیم ؑ کو ملکوت کا مشاہدہ کرایا گیا۔اس سلسلے میں ارشاد باری تعالی ہے:
وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ (5)
‘‘ اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا(نظام) حکومے دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں’’
حضرت موسیؑ کو کوہِ طور پر جلوہ الہی کا مشاہدہ کرایا گیا:
فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (6)
‘‘پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے،پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کرنے لگے:پاک ہے تیری ذات میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں’’
واقعہ معراج ان سب میں بالکل منفر حیثیت رکھتا ہے۔آنحضرت ﷺ کو براہ راست الہی سلطنت میں بلا کر خاص کام پر معمور کیا گیا، گویا کہ اسلامی حکومت کی بنیاد کے لئے آپ کو خاص ہدایات دی گئیں۔اس قدر عظیم واقعے کو عجیب و غریب حیثیت دی گئی ہے۔کوئی محض خواب قرار دیتا ہے تو کوئی کہتا ہے یہ تو صرف ایک روحانی سفر تھا۔کوئی کہتا ہے کہ معراج میں آپ نے اللہ تعالی کو دیکھا تو کوئی اسے ناممکن قرار دیتا ہے!بہر حال تاویلات اور اعتراضات تو ہوتے رہیں گےلیکن قابل غور بات یہ ہے کہ موجودہ دور کی ترقی کی وجہ سے اس واقعے کی حقیقت سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
معراج روحانی ،جسمانی اورخواب
معراج کے سلسلے میں جو شبہات ظاہر کئے جاتے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ معراج روحانی تھی یعنی آپﷺ کو روحانی طور پراسرارِ الہیہ کا مشاہدہ کرایا گیا جبکہ آپ ایک جگہ تشریف فرما تھے۔مزید یہ شبہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپﷺ نے محض خواب دیکھا تھا۔ان شبہات کا جواب خودقرآن مجیدمیں بیا ن کیا گیا ہے کہ یہ معراج جسمانی تھی اورآپﷺ کو حالت بیداری میں اسرار الہیہ کا مشاہدہ کرایا گیا۔ دلیل یہ ہے کہ اس واقعے کے بارے میں سورہ بنی اسرائیل کی آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى (7)
اب گر کسی کو خواب میں یا روحانی طور پر کچھ نشانیاں دکھائی جائے تو اسے بیان کرنے کے لئے اس قدر اہتمام کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اسے ‘‘ سبحان الذی’’ کے ساتھ بیان کی جائے۔لہذا اس طرح ابتدا کرنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کا نمونہ ہے۔اس واقعے کی غیر معمولی پہلو کو دیکھتے ہوئے اس کی ابتدابھی اہمیت کے ساتھ کی گئی ہے کہ ‘‘ پاک ہے وہ جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے اس مسجد تک لے گیا ’’(8)
اس کے علاوہ ‘‘بعبدہ’’ کی تعبیر اس بات پر دلیل ہے کہ اس سفر میں جسم ر روح دونوں شریک تھےچوں کہ محض روحانی سفر کے لئے لفظ‘‘اسری’’معقول نہیں ہے۔(9)
شیخ طوسی اور علامہ طبرسی کی طرف سے اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ تمام شیعہ اور اکثر علمائے اہل سنت کے نزدیک معراج حالت بیداری میں جسم کے ساتھ انجام پزیر ہوئی۔اہل سنت عالم محمد خضری اپنی کتاب‘‘نور الیقین’’ میں بیان کرتے ہیں کہ معراج سے مراد آپﷺ کا عالم بالا کی طرف سفر ہےاور جمہور علمائے اہل سنت نے کہا ہے کہ:آپ ﷺ کو جسم اطہر کے ساتھ سفر پر لے جایا گیا تھا۔
وأما المعراج فهو صعوده إلى العالم العلوي، وقد قال جمهور أهل السنة: أن ذلك كان بجسمه الشريف(10)
اس مقام پر دعائے ندبہ کا ایک جملہ قابلِ غور ہے۔دعائے ندبہ میں جہاں پر آپﷺ کی فضیلت بیان کی گئی ہے وہاں فضائل کے شمار میں چند جملے موجود ہیں جو آپ ﷺ کے فضائل کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں:
وَ أَوْطَأْتَهُ مَشَارِقَكَ وَ مَغَارِبَكَ وَ سَخَّرْتَ لَهُ الْبُرَاقَ وَ عَرَجْتَ بِرُوحِهِ [بِهِ‏] إِلَى سَمَائِكَ
‘‘اور ان کے لئے تمام مشرق و مغرب کو ہموار کر دیا اور براق کو مسخر کر دیا اور انہیں اپنے آسمان کی بلندیوں تک لے گیا’’
مذکورہ جملوں میں تین اہم مطالب بیان کئے گئے ہیں:
 راتوں رات آپﷺ کا سفر(أَوْطَأْتَهُ )
 براق کا وسیلہ سفر ہونا(سَخَّرْتَ لَهُ الْبُرَاقَ)
 آسمانوں کا سفر(عَرَجْتَ بِرُوحِهِ [بِهِ‏])
راتوں رات سفر اور آسمانوں کی سیر کا تذکرہ کلامِ مجید میں کیا گیاہے جبکہ براق کے حوالے سے احادیث و روایات میں ذکر کیا گیا ہے۔
پاکستان میں چھپنے والی دعاؤں کی کتابوں میں ‘‘ بروحہ’’ لکھا گیا ہے۔یعنی ‘‘عَرَجْتَ بِرُوحِهِ إِلَى سَمَائِكَ’’ اس بنا پر اس کا ترجمہ یوں ہوگا:‘‘اور ان کی روح کو آسمان کی طرف لے گیا’’ جبکہ جس قدیم ترین کتاب میں دعائے ندبہ کا متن آیا ہے وہ ‘‘المزارالکبیر’’ہے۔اس کتاب میں ‘‘بروحہ’’ کے بجائے ‘‘بہ’’ ذکر کیا گیا ہے۔(11)
دعائے ندبہ میں مذکور لفظ سے اگرچہ معراج روحانی لازم نہیں آتی جس کے بارے میں محققین کی طرف سے تحقیق بھی کی گئی ہےاور معتبر احادیث و روایات معراج جسمانی پر دلالت کتی ہیں، البتہ بعض حضرات کی طرف سے شبہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ‘‘عرجت بروحہ’’ معراج روحانی پر دلیل ہے۔بہر حال‘‘بروحہ’’ والے نسخے کے بارے میں وضاحت ضروری ہے تاکہ مذکورہ شبہ زائل ہو جائے۔
دعائے ندبہ کے لئے جو کتابیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے ایک شیخ ابو عبد للہ محمد ابن جعفر کی کتاب ‘‘المزار الکبیر’’ہے۔انہوں نے اپنی کتاب میں دعائے ندبہ کا متن تحر یرکیا ہے جس میں ‘‘عرجت بہ’’ لکھا ہے جو معراج جسمانی پر واضح دلیل ہے۔اس کے علاوہ آخری صدی کے علماء نے اپنی کتابوں میں ‘‘عرجت بہ’’ ذکر کیا ہے۔ان علماء میں محدث نوری،مرزا محمد تقی احمد آبادی اور صاحب اعیان الشیعہ وغیرہ شامل ہیں۔( 12) اس کے علاوہ جملہ‘‘و سخرت لہ البراق’’ اس بات پر شاہد ہے کہ آپ کا سفر جسمانی تھا چوں کہ روحانی سفر کے لئے سواری کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی!۔لہذا متن کے لحاظ سے ‘‘عرجت بہ’’ والا نسخہ معتبر ہے۔
پیغامِ معراج
آپﷺ کے سفر معراج میں انسان کی ہدایت اور نجات کے لئے بہت سے پیغامات موجود ہیں۔یہ پیغامات کلام مجید اور حدیث معراج میں بیان ہوئے ہیں۔
حدیث معراج حضرت علی ؑ کے واسطے آنحضرت ﷺ سے نقل کی گئی ہے:
إِنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ سَأَلَ رَبَّهُ سُبْحانَهُ لَیْلَةَ المِعْراجِ، فَقالَ: یا رَبِّ! أَىُّ الأَعمالِ أَفْضَلُ؟ فَقالَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ: لَیْسَ شَىْءٌ أَفْضَلَ عِنْدی مِنَ التَّوَکُّلِ عَلَىَّ، وَالرِّضـا بِما قَسَمْتُ((13
حضرت امیر علیہ‌السلام روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے شب معراج کو خداوند متعال سے سوال کیا: اے پروردگا کونسا عمل سب سے زیادہ فضیلت کا حامل ہے؟ خداوند متعال نے جواب دیا: میرے نزدیک میرے اوپر توکل کرنا اور میری تقسیم پر راضی ہونے سے زیادہ کوئی چیز با فضیلت نہیں ہے۔
حدیث معراج ایک طویل حدیث ہے اس لئے اس حدیث میں ذکر کئے گئے موضوعات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے :
رضا و توکل ،محبت الہی اور اس تک پہنچنے کا راستہ،اولیائے الہی کی خصوصیات ،بہشتیوں کی خصوصیات اور بھوک اور خاموشی کی میراث،نماز کو اہمیت دینا اور خدا کو حاضر و ناظر سمجھنا،بے نواوں سے محبت کرنے کی ضرورت،خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کرنا،دنیا اور دنیا طلبی کی مذمت،اہل دنیا کی خصلتیں،اہل آخرت کی خصوصیات،زاہدوں کا مقام اور ان کی معرفت،روزہ اور خاموشی کی قدر و قیمت،یقین کی منزل تک رسائی حاصل کرنے والے مؤمنین اور خدا کے رضا کا حصول،خدا کے امتحانات میں کامیابی اور خدا کی خاص عنایت کا حصول،عابدوں اور انبیاء الہی کا مقام،محبت خدا کی حقیقت۔

حوالہ جات
1۔سورہ بنی اسرائیل: ۱
2۔ ابن ھشام،عبد الملك بن هشام بن ايوب الحمیری ، السیرۃ البنویۃ لابن ھشام، شریکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البانی الحلبی و اولادہ بمصر،طبع ثانیہ ۱۹۹۵ ج،۱،ص ۴۰۳
3۔ شیرازی،ناصر مکارم،تفسیر نمونہ،مترجم سید صفدر حسین نجفی،مصباح القرآن ٹرسٹ، لاہور،اشاعت دوم ۲۰۱۲،ج،۵،س۲۹۔
4۔مودودی،سید ابوالاعلیٰ،سیرت سرور عالم،ادرارہ ترجمان القرآن، لاہور،اشاعت دوم ۱۹۷۹،ج،دوم۔ص۶۴۳
5۔سورہ انعام: ۷۵
6۔سورہ اعراف: ۱۴۳
7۔سورہ بنی اسرائیل: ۱
8۔ مودودی،سید ابوالاعلیٰ،سیرت سرور عالم،ص۶۴۶
9۔شیرازی،ناصر مکارم،تفسیر نمونہ،مترجم سید صفدر حسین نجفی،مصباح القرآن ٹرسٹ، لاہور،اشاعت دوم ۲۰۱۲،ج ،۵،ص،۳۰ ۔
10۔ الخضري، محمد بن عفيفي الباجوري، نور الیقین،دار الفيحاء ، دمشق، طبع دوم ، ۱۴۲۵ ص،۶۳
11۔المشہدی،محمد بن جعفر،المزار الکبیر،مکتبہ یعسوب الدین،ص۵۷۵۔
12۔مہدی پور،علی اکبر،صبح جمعہ دعائے ندبہ کے ہمراہ،مترجم،فیروز حیدر فیضی،مؤسسئہ آل یٰسین،پاکستان،طبع اول ۲۰۰۸،ص۹۵،۹۴
13۔الدیلمی،حسن بن محمد،ارشاد القلوب،ج،۱ ص،۳۸۳

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=13098