19

غیبت امام زمان(عج) قسط نمبر 2

  • News cod : 19279
  • 03 جولای 2021 - 13:41
غیبت امام زمان(عج) قسط نمبر 2
کیوں شیخ صدوق نے اپنی دونوں کتابوں میں روایت کو دو افراد یعنی جعفر بن مسعود اور جعفر بن محمد سے نقل کیا ہے؟ اس لیے تا کہ مطلب کو متعدد طریق سے لایا جائے اور اس پر تاکید کی جائے ،لہٰذا اگر ان میں سے ایک راوی توثیق کے اعتبار سے مشکل پیدا کرے اور دوسرا یہ مشکل پید نہ کرے ،اس طرح سند کی توثیق میں خلل نہیں پڑ سکے گا۔

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

قسط نمبر 2
پہلی قسم:
حضرت مہدی (عج) کے بارے میں انبیاء کی سنت جاری ہونا :
۱) ۔” حَدَّثَنا المُظفَّرِ بنُ جعفر بن المُظفر العَلَوی، قَال حدَّثنَا جعفر بنُ مسعُود وَ حَیدرُ بنُ محمّد السَّمَر قَندِی، جمیعًا، قالا: حدَّثَنا محَمّد بن مَسعُود، قَال: حدَّثنَا جبرئیلُ بنُ احمَدَ، عن موسَی بنِ جعفرَ البَغدادی، قَال: حدَّثنی الحَسنُ بنُ محمد الصَّیرفیُّ، عَن حَنان بنِ سَدیر، عَن أبیہِ، عَن أبی عَبداللہ ؑ قَال: إنَّ للقَائم منّا غیبۃً یطُولُ أَمدُھَا، فقلتُ لَہ: وَلِمَ ذَاکَ، یابنَ رسُولِ اللہِ؟ قَال إنَّ اللہَ عزَّوجَلَّ أبی إلا اَن یجرِی فیہ سُنَنَ الأَنبیاء فِی غَیبَاتِھِم، وأنَّہ لَا بدَّ لَہ -یا سَدیر- مِن إستِیفاءِ مُدَدِ غَیبَاتِھم۔ قالَ اللہُ عزَّوجَل (لَتَرکَبُنَّ طبقا عَن طَبَق) اَی سُنَنَا عَلی مَن کَانَ قَبلکُم ”
( علل الشرایع، ج۱، ص ۲۴۵، ح۷، کمال الدین ، ص ۴۸۱، بحارالانوارنے دونوں سے نقل کیا ہے بحار، ج۵۲، ص ۹۰،)
ترجمہ:حنان بن سدیر اپنے والد سے اور وہ امام صادق ع سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؑ نے فرمایا :
ہمارے قائم کے لئے بہت طولانی غیبت ہے ۔
میں نے عرض کیا:اے فرزند رسول کیوں اتنی طولانی؟
فرمایا:اللہ تعالی چاہتاہے کہ ان کے بارے میں انبیاء کی غیبت کے حوالے سے سنت جاری کرے۔
اے سدیر:بہر صورت ان کی غیبت کا دور آئیگا ۔
اللہ تعالی فرماتاہے (کہ تم سب ایک حال سے دوسرے حال میں ہمیشہ منتقل ہوتے رہو گے: سورہ انشقاق آیت ۱۹ ) یعنی گزشتہ لوگوں کی سنن ،ان کے بارے میں جاری ہونگی۔
اسی مضمون کی حامل دیگر روایات بھی موجود ہیں ۔ہم نے یہاں ایک روایت بطور نمونہ نقل کی ہے۔
روایت کا سند اور دلالت کے اعتبار سے تجزیہ
اس روایت کو سب سے پہلے”کمال الدین اور علل الشرایع ” نے بیان کیا ہے۔ جس نے بھی اس روایت کو نقل کیا ،یا علل سے یا کمال الدین سے روایت کیا یا یہ کہ ان کے نقل کا طریق بالآخر انہی کتابوں پر ختم ہوا ۔
ان دونوں کتابوں سے نقل ہونے والی سند حدیث میں معمولی سا فرق یہ ہے کہ :
کمال الدین کی سند میں “العلوی “کے بعد “السمر قندی” کا اضافہ ہو ا اور جعفر بن محمد بن مسعود کو “جعفر بن مسعود” کی جگہ لایا گیا۔
یہ کہ کیوں شیخ صدوق نے اپنی دونوں کتابوں میں روایت کو دو افراد یعنی جعفر بن مسعود اور جعفر بن محمد سے نقل کیا ہے؟ اس لیے تا کہ مطلب کو متعدد طریق سے لایا جائے اور اس پر تاکید کی جائے ،لہٰذا اگر ان میں سے ایک راوی توثیق کے اعتبار سے مشکل پیدا کرے اور دوسرا یہ مشکل پید نہ کرے ،اس طرح سند کی توثیق میں خلل نہیں پڑ سکے گا۔
سند کا تجزیہ
۱)مظفر بن جعفر علوی
جناب مظفر، شیخ صدوق ؒ کے اساتذہ میں سے تھے ۔جناب مامقانی فرماتے ہیں بلاشبہ وہ شیعہ اور شیخ صدوق کے “استاد اجازہ ” ہیں (وہ استاد جن سے حدیث بیان کرنے کی اجازت لی جاتی ہے۔) ۔
بنا بر این ان کی توثیق کی احتیاج نہیں ہے وہ ثقہ کےحکم میں ہیں ۔( تنقیح المقال ، ج ۳، ص ۲۲۰:)
۲)جعفر بن مسعود
کتاب علل الشرایع کی سند میں یہ نام بیان ہو اہے؛ لیکن رجالی کتابوں ایسا نام بیان نہیں ہوا ،لیکن کمال الدین میں “جعفر بن محمد “کا ذکر ہوا ہے ۔ اور شیخ طوسی فرماتے ہیں
یہ شخص (جعفر بن محمد بن مسعود ) فاضل ہے اور “وجیزہ و بلغہ “میں کہا گیا ہے :یہ ممدوح ہے ۔( “رجال المجلسی ” ،صفحہ ۱۷۷ میں ۳۷۵ نمبر ۔)
جناب مامقانی مندرجہ بالا تین مطالب کے پیش نظر یہ کہتے ہیں : یہ شخص “حسان “میں سے شمار ہوتا ہے اور ان کی روایت حسن ہے ۔ ( تنقیح المقال، ج ۱۶، ص ۵۹)
نوٹ:یہاں تک تقریباً ،بعض رجالی آراء کی بنا پر سندی مشکل نہیں ہے ؛لیکن اگر ہم جعفر بن محمد بن مسعود کی وثاقت اور عدالت کو ثابت نہ کر سکے ،تو حدیث کے طریق میں ایک اور شخص “حیدر بن محمد السمر قندی” بھی موجود ہے کہ جو جعفر کے عرض میں قرار پاتا ہے اور یہ روایت ان دو افراد سے نقل ہوئی ہے بالفاظ دیگردو طریق کی حامل ہے ۔
جاری ہے.

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=19279