6

امریکی مداخلت اور وطن عزیز میں تبدیلی کی ہوائیں

  • News cod : 32591
  • 09 آوریل 2022 - 3:29
امریکی مداخلت اور وطن عزیز میں تبدیلی کی ہوائیں
آزاد ریاستوں کی آزادی پسند قیادتوں کو راستے سے ہٹانا پرانی امریکہ عادت ہے۔ شمالی امریکہ سے لیکر انقلاب اسلامی سے پہلے ایران تک امریکیوں کی ایک بدنما تاریخ ہے۔ امریکی سینیٹ کی کارروائی میں جنوبی ایشیاء کے امریکی ذمہ دار سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان، سری لنکا اور انڈیا ووٹنگ سے غائب رہے؟ اس پر وہ اپنے رابطے بڑھانے اور حمایت کے حصول لیے اقدامات کرنے کی وضاحت دیتا ہے۔

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

افغانستان سے امریکی افواج کا یوں بے آبرو ہو کر نکلنا اور اسے بین الااقوامی میڈیا کا لائیو دکھانا معمولی واقعہ نہیں تھا۔ امریکی عوام سی این این اور دیگر ذرائع ابلاغ پر فقط ایک طرح کا موقف دیکھتی ہے، ان کے لیے یہ کسی صدمہ سے کم نہیں تھا۔ اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ طالبان نے ترکی اور قطر کو کابل ائیرپورٹ کا انتظام دینے سے انکار کر دیا اور امریکی افواج کو دی گئی ڈیڈ لائن کو مزید آگے بڑھانے سے صاف انکاری ہوگئے۔ اس سے کابل ائیرپورٹ پر ہونے والی بھگدڑ نے سپر پاور کے رہے سے اعتماد کو بھی ہوا میں اڑا دیا۔ اس ساری جگ ہنسائی کا ذمہ دار یقیناً امریکی اسٹیبلشمنٹ خود کو تو قرار نہیں دے سکتی تھی، انہوں نے اس کے لیے وطن عزیز کو قربانی کا بکرا بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت پاک امریکہ تعلقات تاریخ کی بدترین سطح تک پہنچ چکے ہیں۔

اب آتے ہیں نئی صورتحال کی طرف، روس نے یوکرین پر حملے کا فیصلہ کیا اور عین اسی وقت ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب کا دورہ روس تھا۔ سفارتی طور پر ہم اس قدر پھنس چکے تھے کہ اگر وہ دورہ نہ کرتے تو بڑے مسائل پیدا ہوسکتے تھے، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ دورہ ہوگا۔ دنیا کی خود ساختہ پولیسنگ کے ذمہ دار امریکہ کو یہ انتہائی برا لگا۔ بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھی، عمران خان صاحب کو اس پر داد نہ دینا زیادتی ہوگی کہ انہوں نے پوری شدت کے ساتھ امریکی کیمپ میں جانے سے انکار کر دیا اور زبردست پالیسی دی کہ ہم جنگ میں کسی کے ساتھ نہیں ہیں، ہم امن میں سب کے ساتھ ہیں۔ یہ ایک مناسب بات تھی اور ہر آزاد ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس کے ساتھ چاہے اتحاد کرے۔ ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ روس اور یوکرین کا یہی معاملہ ہے کہ یوکرین کہتا تھا کہ میں آزاد ملک ہوں، نیٹو میں جاوں یا نہ جاوں، یہ میرا فیصلہ ہے اور نیٹو کا امریکہ قیادت میں یہی موقف تھا کہ نیٹو جس کو چاہے شامل کرے، ہم آزاد ہیں، ہمیں ڈکٹیٹ نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہی حق پاکستان نے امریکہ روس تنازع میں استعمال کیا تو گویا بڑی گستاخی ہوگئی۔

ہمارے کچھ دوست عمران خان کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ یہ روایتی سیاستدان نہیں ہے، جی ایسے ہی یہ بات تو کنفرم ہے کہ خان روایتی سیاستدان نہیں ہے۔ جب امریکی صحافی نے پوچھا کہ اگر آپ سے امریکہ فوجی اڈے مانگتا ہے تو کیا آپ دیں گے؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ ہرگز نہیں، اس ہرگز نہیں کی بازگشت دور تک سنی گئی۔ اس کے بعد پالیسی شفٹ کی باتیں سامنے آنے لگیں اور عمران خان کے خلاف جاری تحریک میں بھی شدت آنے لگی۔ وزارت خارجہ اور اسٹبلشمنٹ کے کچھ حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا کہ یہاں سفارتی زبان کو استعمال میں لاتے ہوئے بات کو گول کر دینا چاہیئے تھا کہ ہم معاملے کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں گے یا جب امریکی یہ پوچھیں گے تو ہم سوچیں گے، ابھی تک ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مگر عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ جو بات جیسے سوچ چکا ہے، وہ ویسے ہی کر دیتا ہے۔

اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے پہلے فضا ایسے بن چکی تھی کہ کچھ لوگوں نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ اسمبلی توڑ دیں اور انتخابات کی طرف چلے جائیں، اس سے آپ فریش مینڈیٹ کے ساتھ پانچ سال کے لیے آجائیں گے۔ مگر عمران خان نے دوسرا راستہ اختیار کیا، جو صاف ظاہر ہے کہ کافی مشکل تھا اور عمران خان کے طرز حکومت سے نالاں اتحادی اور کچھ دوسری چمک دمک کے ذریعے اپوزیشن کے ساتھ جا ملے۔ اندرونی حلقوں کے اشاروں پر چلنے والے بھی جیسے آئے تھے، ویسے ہی واپس چلے گئے۔ انہوں نے ساڑے تین سال اپنے علاقوں کے لیے خوب فنڈز بھی لے لیے اور ہم ترین وزارتوں سے بھی لطف اندوز ہوگئے اور عین میدان میں عمران خان کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔ خورشید شاہ نے اسمبلی کے فلور پر پی ٹی آئی کے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا، مسٹر سپیکر یہ لوگ کل تک ہمارے ساتھ تھے اور ہمارے ترجمان تھے، آج آپ کے ساتھ بیٹھ گئے ہیں، ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہاں جب کل یہ آپ کو چھوڑ کر جائیں گے تو ہم آپ سے پوچھیں گے کہ اس کی کیا تکلیف ہوتی ہے؟ یقیناً آج عمران خان اس بزرگ سیاستدان کے الفاظ کو یاد کر رہا ہوگا۔

عمران خان اسمبلی توڑ کر الیکشن میں چلا جاتا تو جیتنے کے چانسز کافی زیادہ تھے، مگر عمران خان نے ہر وہ پتہ کھیلنے کا فیصلہ کیا، جس کے ذریعے وہ اقتدار میں رہ سکتا تھا، ہم یہ سمجھتے تھے کہ عمران خان بلیک میل نہیں ہوتا، مگر صرف چند سیٹوں والوں نے اتنا بلیک میل کر لیا کہ پنجاب کے اس وزیراعلیٰ سے استعفیٰ لے لیا، جس سے پوری پارٹی یہاں تک علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے لوگوں کے الگ ہونے کو قبول کر لیا، ان کا استعفیٰ نہیں لیا تھا۔ اپنی خود داری کو بھی داغدار کیا اور حکومت آخر میں خود توڑ دی۔ جن مشیروں نے یہ مشورہ دیا، وہ انتہائی بے کار اور خواب دکھانے والے تھے، اگر پہلے اسمبلیاں توڑ دیتے تو بھی ٹھیک تھا، تحریک آگئی تو استعفیٰ دے کر اپوزیشن میں آکر ایسی کی تیسی کر دیتے، وہ بھی ٹھیک، مگر یہاں بھی غیر آئینی کام کرکے اپنی پوری ٹیم کو ذلیل کروایا گیا اور اب اسی صورتحال کو دیکھ رہے ہیں، جو اس سب سے پہلے تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب واضح ہے کہ عمران خان صاحب کل عدم اعتماد سے جائیں گے یا کیا پتہ آج شام کو استعفیٰ دے جائیں اور نیا وزیراعظم شہباز شریف کی شکل میں آجائے گا اور جیسے ہی یہاں تبدیلی آئے گی، پنجاب پکے ہوئے پھل کی طرح نون لیگ کی گود میں آ گرے گا۔

آزاد ریاستوں کی آزادی پسند قیادتوں کو راستے سے ہٹانا پرانی امریکہ عادت ہے۔ شمالی امریکہ سے لے کر انقلاب اسلامی سے پہلے ایران تک امریکیوں کی ایک بدنما تاریخ ہے۔ امریکی سینیٹ کی کارروائی میں جنوبی ایشیاء کے امریکی ذمہ دار سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان، سری لنکا اور انڈیا ووٹنگ سے غائب رہے؟ اس پر وہ اپنے رابطے بڑھانے اور حمایت کے حصول لیے اقدامات کرنے کی وضاحت دیتا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان سے سوال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی حکومت الزام لگا رہی ہے کہ آپ ان کی حکومت گرا رہے ہیں، اس پر وہ بڑے معنی خیز لہجے میں “ہرگز نہیں” کے بالکل وہی الفاظ کہتی ہے، جو عمران خان نے اپنے انٹرویو میں دہرائے تھے۔ بہرحال کھیل ختم نہیں ہوا، ابھی جاری ہے، پاکستانی پارلیمنٹ سے بلند ہونے والی امریکہ مردہ باد کی آوازیں کافی کچھ بتا رہی ہیں۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=32591