6

غیبت امام مہدی ع قسط (45)

  • News cod : 32743
  • 14 آوریل 2022 - 8:43
غیبت امام مہدی ع قسط (45)
اگر ہم بھي حکومت مہدوي کے تحقق اور استوار کے خواہش مند ہيں تاکہ اس کے سائے ميں مراتب کمال کو طے کرسکيں، تو ہميں چاہئے کہ آنحضرت (عج) کو دو سروں پر ترجيح ديتے ہوئے ان کي حکومت اور سلطنت کے تحقق کيلئے دن رات ايک کرديں۔

سلسلہ بحث مہدویت

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

4عام لوگوں کي آمادگي:
کسي بھي انقلاب يا قيام کے تحقق اور کاميابي کي شرائط ميں سے اہم ترين شرط يہ ہے کہ عام لوگوں ميں اس انقلاب کو تسليم کا جذبہ پايا جائے,يعني لوگ اس انقلاب کے خواہاں اوراسے قبول کرنے کيلئے آمادہ اور تيار ہوں۔
اگر ايسا نہ ہوتو کوئي بھي الہي نمائندہ اچھے سے اچھے پروگرام کو جانثار ٬ فرمانبردار٬صالح اور شجاع ساتھيوں کے باوجود بھي معاشرہ ميں رائج نہيں کرسکتا, جب تک لوگوں ميں اس پروگرام کو تسليم کرنے کا جذبہ نہ پايا جائے۔
واقعہ کربلا اس امر کي واضح دليل ہے کہ جہاں قيام کے رہبر جوانان جنت کے سردار حضرت امام حسين عليہ السلام تھے، يہ قيام قرآن اورسنت نبوي کےعين مطابق تھا اور جن کے ہمراہ عباس علمدار اور حبيب ابن مظاہر جيسے اہل بيت اور اصحاب تھے۔
اس شرط کي وجہ يہ ہے کہ اللہ تعالي نے انسانوں کو آزاد خلق فرمايا ہے اور انہيں حق انتخاب ديتے ہوئے اپني تقدير پر حاکم قرار دياہے تاکہ وہ اپني مرضي سے اپني تقدير کا انتخاب کريں اور اپني زندگي کي داد کو خود معين کريں۔
جيسا کہ ارشاد الہي ہے : (ان اللہ لايغير ما يقوم حتي يغيروا ما بانفسھم) سورہ رعد/ آيت ۱۱.
خدا اس وقت تک کسي قوم کي حالت نہيں بدلتا جب تک وہ اپني حالت آپ نہيں بدلتے۔
ممکن ہے يہ تغير اور تبديلي ہلاکت اور تباہي کي صورت ميں سامنے آئے, جيسے جب قوم ثمود کے بعض افراد نے حضرت صالح عليہ السلام کي اونٹني کو نحر کرنے کي ٹھان لي اور پھر اسے نحر کرڈالا، پوري قوم نے ان کے اس عمل کي تائيد کرتے ہوئے اپني زندگي کے راہ اور اپني سرتقدير کا تعين کيا کہ ہمارے معاشرے کو صالح جيسے نبي اور ان کي تبليغ و ہدايت کي ضرورت نہيں ہے۔
اس طرح وہ اپنے اس اجتماعي فيصلے کے ذريعے بدبختي اور ہلاکت کے گڑھے ميں جاگرے اور عذاب الہي کو اپنا مقدر بناليا۔
اور يہ بھي ممکن ہے کہ يہ تغير اور تبديلي سعادت اور نيک بختي کي صورت ميں سامنے آئے اور اس کا نتيجہ ايک عاقبت ميں حضرت يونس عليہ السلام کي قو م نے ابتداء ميں آنحضرت کي مخالفت کي اور آپ کي تعليمات اور نبوت کاانکار کرتے ہوئے اپنے آپ کو عذاب الہي کا مستحق ٹھہرايا۔
ليکن جب عذاب الہي ميں گھر گئے تو توبہ پر آمادہ ہوگئے اور توبہ نصوح کا صحيح اور درست راستہ اختيار کرتے ہوئے اپنے آپ کو عذاب الہي ميں بچا ليا اور رحمت پرروردگارکے مستحق ٹھہرئے.
اگر پيغمبراکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے مدينہ ميں حکومت اسلامي کي بنياد رکھي تو اس کي وجہ يہ تھي کہ اہل مدينہ اس کے خواہش مند تھے اور ايک عرصہ سے آنحضرت(ص) کي آمد کے منتظر تھے، يہاں تک کہ پيغمبر رحمت (ص)نے اپنے نوراني وجود کے ذريعے شہر مدينہ کو منورکيا اورحکومت الہي کا اعلان فرمايا۔
اگر اسلامي معاشرہ ميں امير المؤمنين علي عليہ السلام کي حکومت اور عدالت کے آثار اوربرکات نے لوگوں کو اپنا گرويدہ کر ليا تو اس کي وجہ يہ تھي کہ لوگوں نے آنحضرت(ع) کو دوسروں پر ترجيح ديتے ہوئے آپ کي ولايت اورحکومت کو تسليم کيا اور عثمان کے قتل کے بعد آپ کے گھر پر جمع ہو کر آپ سے حکومت اور رہبري کي درخواست کي۔
اگر ہم بھي حکومت مہدوي کے تحقق اور استوار کے خواہش مند ہيں تاکہ اس کے سائے ميں مراتب کمال کو طے کرسکيں، تو ہميں چاہئے کہ آنحضرت (عج) کو دو سروں پر ترجيح ديتے ہوئے ان کي حکومت اور سلطنت کے تحقق کيلئے دن رات ايک کرديں۔
اس سلسلے ميں امام عصر (عج) کہ جو پردہ غيبت ميں لوگوں کي مشکلات اور مصائب سے غمگين اور ہر لحظہ ان کي دعوت کے منتظر ہيں اپنے ماننے والوں سے شکوہ کرتے ہوئے فرماتے ہيں:
(ولو ان اشياعنا وقفھم اللہ بطاعتہ علي اجتماع القلوب في الوفاء بالعھد عليھم لما تأخر عنھم اليمن بلقائنا) احتجاج/ج۲/ص۶۰۰.
اگر ہمارے شيعہ کہ اللہ انہيں اپني اطاعت کي توفيق دے اس عہد ايمان کو پورا کرتے کہ جوان پر ہےتو ہماري ملاقات کي سعادت ميں تاخير نہيں ہوگي يعني ہماري ملاقات کي خوشياں انہيں جلدي نصيب ہوں گي۔
ہاں٬ سنت الہي يہ ہے کہ جب تک لوگ نہ چاہئيں،خود حر کت نہ کريں اور ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے اور دولت حق کو قبول کرنے کيلئے آمادہ نہ ہوں ،تو اس وقت تک خدا بھي يہ نعمت عطا نہيں کرتاہے۔
اللہ تعالي سورہ مائدہ ميں بني اسرائيل کے حا لات کو بيان کرتے ہوئے اس مطلب کي طرف اشارہ کرتاہے ۔(حضرت موسي عليہ السلام نے اپني قوم سے کہا کہ اس ارض مقدس ميں داخل ہوجائيں تو انہو ں نے جواب ديا: (قالوا يا موسي انا لن ندخلھا…) ہم اس زمين داخل نہيں ہوں گے يعني ہم حرکت نہيں کريں گے، آپ اپنے خدا کے ہمراہ جائيں اورجنگ کريں ہم تو اس مقام پر کھڑے ہوکر نظارہ کريں گے۔
حضرت موسي عليہ السلام نے بارگاہ خدا ميں اپني قوم کي شکايت کي تو اللہ کي طرف سے جواب آيا : (قال فانھا مُحَرَمَۃٌ عليھم اربعين سنۃ يتھون في الارض )
يقيناً يہ ارض مقدس چايس سال تک ان پر ممنوع قرار دے دي گئي ہے اور وہ ہميشہ روئے
زمين پر مارے مارے پھرتے رہيں گے۔
يہي وجہ ہے کہ جب بشيرنے حضرت امام محمد باقر عليہ السلام کي خدمت ميں عرض کي :(انھم يقولون ان المھدي لو قام لاستقامت لہ الامور عفوا ولا يھريق محجمۃ (دمٍ)
يعني لوگ کہتے ہيں کہ جب حضرت مہدي (عج)قيام کريں گے تو ان کے امور خود بخود انجام پذير ہوتے چلے جائيں اور ذرہ برابر بھي خون نہيں بہايا جائے گا ۔تو امام عليہ السلام نے فرمايا:
(کلا والذي نفسي بيدہ لو استقامت لاحد عفواً لاستقامت لرسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم)
نہيں ہر گز ايسا نہيں ہے مجھے قسم ہے اس خدا کي کہ جس کے قبضہ قدرت ميں ميري جان ہے اگر کسي ذات کے امور خود بخود٬ انجام پذير ہوتے تو رسول خدا کے لئے يہ کام ضرور ہوتا۔ غيبت نعماني/ ب۱۵/ج۲.
پس تمام شيعہ اور محبت کا دم بھرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ سعي و کوشش کے ذريعے اس منجي بشريت کے ظہور کےلئے اسباب مہيا کريں۔
مذکورہ بالا چار شرطوں ميں سے دو شرطيں يعني امام عليہ السلام کاوجود ذي جود اور ان کا لائحہ عمل اور پر وگرام پائي جاتي ہيں اور دوسري شرطيں يعني اعوان و انصار اور عام لوگوں کي آمادگي کا تحقق ضروري ہے .
البتہ يہ د و شرطيں امام کے شيعوں اور محبين کي سعي و کوشش پر موقوف ہيں۔
(اللھم انا نرغب اليک في دولۃ کريمۃ تُعزيبھا الاسلام و أَھلہ و تذل بھا النفاق و أھلہ) مفاتيح الجنان / دعائے افتتاح.
(جاری ہے…. )

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=32743