8

عالمی یوم قدس اور فلسطین کی آزادی

  • News cod : 33333
  • 28 آوریل 2022 - 11:36
عالمی یوم قدس اور فلسطین کی آزادی
صیہونیت، بطور ایک تحریک، ۱۸۰۰ کی دہائی کے آخر میں یہودیوں کو متحد کرنے کے لئیے تیار کی گئی اور نتیجتاً فلسطین کی جگہ زبردستی اسرائیل جیسی ایک غیر قانونی اور ناجائز ریاست تخلیق میں آئی؛

7 اگست ۱۹۷۹ کو مرحوم آیت اللہ خمینی (رح) نے فرمایا: ” میں تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس اسرائیلی غاصبغاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن کو “یوم القدس” کے عنوان سے منسوب اور (فلسطینی) مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت میں مسلمانوں کی عالمی یکجہتی کا اعلان کریں.” یہ دن فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ دیگر مظلوموں کی عالمی حمایت کی نمائندگی کرتا ہے۔
اقوام، انسانی حقوق کے کارکنوں، اور سول تنظیموں کی جانب سے جلوسوں، کانفرنسوں اور ریلیوں کے ذریعے مشاہدہ کیا گیا ہے کہ امام (رح) کی بصیرت انگیز منشور نے سرحدی حدود سے بےپرواہ، تائید حاصل کی.
صیہونیت، بطور ایک تحریک، ۱۸۰۰ کی دہائی کے آخر میں یہودیوں کو متحد کرنے کے لئیے تیار کی گئی اور نتیجتاً فلسطین کی جگہ زبردستی اسرائیل جیسی ایک غیر قانونی اور ناجائز ریاست تخلیق میں آئی؛ جس پر پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد صرف ۵% یہودیوں نے قبضہ کر لیا، جسے ۱۹۴۸ میں مغربی طاقتوں نےترویج دی اور تسلیم کیا۔
نو صدیاں قبل، جب عیسائی صلیبی یروشلم کے یہودیوں کو ان کی عبادت خانوں میں زندہ جلا رہے تھے، یہ مسلم صلاح الدین ہی تھا جو خیرخواہی کے سے یہودیوں کو یروشلم واپس لایا اور انہیں خطے کی مسلم اکثریت کے ساتھ آباد کیا.اور ۸۰۰ سال کے بعد، نیویارک کے فلشنگ میڈو میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے اندر، مسلمانوں کو یہودیوں کے ساتھ ان کے ماضی کے احسان کا بدلہ اسی طرح دیا گیا.
اسرائیل کے فلسطینیوں پر تسلط یا جسے دوسرے لوگ لاپرواہی سے مشرق وسطیٰ کے مسلسل تنازعات سے تعبیر کرتے ہیں، کے حوالے سے تمام لائحہ عمل کا مرکزی ثالث اوربنیادی منصوبہ ساز امریکہ تھا. اب جو سب سے اہم سوالات پیدا ہورہے ہیں وہ ہیں: کیا سات دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری امن مذاکرات سے کوئی ٹھوس کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں؟ کیا فلسطینیوں کے مستقبل کے حوالے سےکوئی امید ہے؟
سوال یہ ہے کہ عرب لیگ اور پی ایل او، جو عربیت یا قوم پرستی کی بنیاد پر قائم ہوئیں، فلسطین کی آزادی کا باعث کیسے بن سکتی ہیں؟ جبکہ اسی قوم پرستی کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے قیام کے لیے استعمال کیا گیا. اس طرح اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی یوم قدس ہی واحد اقدام ہے جو قدس کی آزادی کو یقینی بنا سکتا ہے؛ مسلمانوں کی تیسری مقدس ترین مسجد اور پہلا قبلہ۔
مسلم اقوام کا اتحاد درحقیقت آیت اللہ خمینی ا(رح) کے پیغام کا اصل مقصد اور فلسطین اور دنیا کے دیگر مظلوموں کی آزادی کی آخری امید ہے. جارج کرزن، برطانوی وزیر خارجہ برائے امور خارجہ (۱۹۱۱ ۱۹۲۱) نے کہا کہ “ہمیں ہر اس چیز کو ختم کرنا چاہیے جس سے مسلمانوں کے بیٹوں کے درمیان اسلامی اتحاد پیدا ہو. جیسا کہ ہم پہلے ہی خلافت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، اس لیے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مسلمانوں کے لیے دوبارہ کبھی اتحاد پیدا نہ ہو، چاہے وہ اتحاد، فکری ہو یا ثقافتی.”
یہی وجہ ہے کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران، آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا موقف ہے کہ داعش خطے میں اختلافات اور تفرقہ کے بیج بوکر مشرق وسطیٰ میں واضح طور پر امریکی مفادات کو پورا کرتی ہے. یہ قرآن کریم کی اس آیت سے بلکل مطابقت رکھتا ہے کہ: “اور تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو “(سورہ العمرآن، آیت ۱۰۳)
بغیر سرحدی کی حدودوکی ، عالمی یوم قدس فلسطینیوں اور دیگر مظلوموں کے ساتھ ہمدردی اور حمایت کا دن ہے، تمام تنازعات سے قطع نظر ظلم اور نا انصافی کی مذمت کرنے کا دن ہے. مرحوم امام (رح) نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کی سختی سے تردید کی اور اس کے خلاف جنگ میں نیلسن منڈیلا کی مد د کی۔ دوسری جانب، منڈیلا نے کہا: “جنوبی افریقہ کی آزادی فلسطین کی آزادی کے بغیر نامکمل تھی.” اور اپنی طویل قید سے رہائی کے بعد تہران کے پہلے دورے پرانہوں نے امام (رح) کے حوصلہ افزا کردار اور ایران کی تاریخی حمایت کو سراہا. مرحوم ہوگو شاویز نے اس دن کو منایا جہاں وہ اپنے ملک کے دیگر مظاہرین کے درمیان ہونے والے واقعات میں سب سے آگے دیکھا گیا.
پوری دنیا میں امن اور انصاف کی حکمرانی کے خواہاں لوگوں کی کوششوں کا اعتراف اور ان کو سراہنا ضروری ہے. جیسا کہ امام (رح) نے زور دیا ہے کہ: “یوم قدس ایک عالمی دن ہے. یہ بذات خود قدس کے لئیے خصوصی دن نہیں ہے، یہ مظلوموں کے اٹھ کھڑے ہونے اور غاصبوں کے خلاف کھڑے ہونے کا دن ہے.”
دنیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اسرائیل کی مسلسل فوجی اور مالی مد د سے بخوبی واقف ہے. اور خطے میں ان کی مسلسل مداخلت، اس خطے کے لوگوں کی سلامتی اور فلاح و بہبود میں خلل کا باعث بن رہی ہے. یہ ان تمام نام نہاد ترقی یافتہ اقوام کے جھوٹ کا پردہ فاش کرتا ہے جو کہ پوری دنیا میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ میں اہم عہدوں کا دعویٰ کرتی ہیں. کیا دوہرا معیار ہے!!!
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل دہشت گردی کی پیداوار ہے اور اپنی بقا کے لیے مسلسل دہشت گردی اور جبر کا سہارا لے رہا ہے.
آج کے دن عالمی یوم قدس کے موقع پر، فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے، تمام انصاف کے متلاشی اور متعلقہ افراد اور تنظیمیں، فلسطینی اور یمنی عوام کے خلاف نہ ختم ہونے والے ظلم اور بربریت کی مذمت کرتی ہیں.
جعفر روناس
ثقافتی اتاشی
قونصلیٹ جنرل اسلامی جمہوریہ ایران لاہور
اور
ڈائریکٹر جنرل
خانہ فرہنگ ایران لاہور

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=33333