3

حسین ترین مخلوق

  • News cod : 37514
  • 29 آگوست 2022 - 19:53
حسین ترین مخلوق
قارئین محترم! حکومت کی حالت سے ہم باخبر ہیں یہ تو صرف اقتدار کے بھوکے ہیں لیکن ان ایام میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ ایک انسان ہونے اور انسانیت کے ناطے ہمارا وظیفہ کیا بنتا ہے۔ آیا ہم بھی گھر بیٹھے ٹی وی کو سامنے رکھ کر تماشائی بنے رہے یا جہاں تک رسائی اور ہماری استطاعت کے تحت کچھ مدد بھی کریں۔

حسین ترین مخلوق

تحریر: عارف ارمان

“لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم” کی حقیقت سے ہر صاحب عقل بخوبی آگاہ ہے لیکن خداوند منان کی اس پرحکمت راز کی حقیقت فہمی سے بنی نوع انسان ہنوز نابلد ہے۔ رب ذوالجلال نے بشر کی خلقت کو تمام تخلیقات پر کیوں افضل و احسن قرار دیا ہے؟۔
ایک ادنی سے طالبعلم ہونے کے ناطے راقم الحروف اپنی کم علمی کو مدنظر رکھ کر اس کیوں کے جواب میں کچھ تحقیقی نکات زیر قرطاس اتارا ہے۔

قارئیں محترم! خداوند متعال نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ؛ میں نے انسان کو خلق کیا تاکہ میری معرفت حاصل کرسکے۔اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ _تمام جنّات و انس کو محض اس لئے خلق کیا تاکہ میری عبادت کرسکے۔_ قرآن کریم کی ان دو آیات کو جب سامنے رکھ کر اپنی عقل و فہم کے دریچے پر دستک دیتا ہے تو آسانی سے احسن تقویم کی حقیقت کی راز سمجھ آتی ہے۔

معرفتِ الہی حاصل کرنے اور عبادتِ الہی کی لذت کیلئے خدا کے نزدیک، بہترین مخلوق ہونا ضروری ہے۔ جب تک تخلیقاتِ خداوندی میں بہترین مخلوق ثابت نہ ہو تب تک حصولِ معرفتِ الہی بھی محال ہے۔ اس کی دلیل خود خلقتِ انسان سے دیا جاسکتا ہے۔ خلقتِ بشر احسن تقویم ہونے کے باوجود بنی نوع آدم معرفت و عبودیتِ الہی سے محروم ہیں۔ اس محرومیت کی وجہ یہ ہے کہ انسان نے کمال تک پہچنے کے لئے ان راہوں کا استعمال نہیں کیا جو صراط المستقیم ہیں جو مقام رضوان اللہ و لقاء اللہ اور معرفتُ اللہ کی راہیں ہیں۔

اسی طرح خلقتِ حیوانات و نباتات میں کوئی بھی مخلوق عدم عقل کی وجہ سے محض شعور کی اساس پر خدا کی معرفت حاصل نہیں کرسکتا، لہذا معرفتِ خداوندی کیلئے عقل کے ساتھ شعور کا ہونا بہت ضروری ہے۔ بس خدا رسائی کیلئے *(احسن تقویم)* کا ہونا اور الہی راہوں کا انتخاب لازم و ملزوم ہے۔ اگر الہی راہ کا انتخاب کرے اور احسن تقویم نہ ہو تب بھی خدا کی معرفت حاصل نہیں کرسکتا اور اگر احسن تقویم ہو لیکن الہی راہ کا انتخاب نہ کریں تب بھی خدا تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔

قارئین محترم! آج دنیا میں انہی احسن تقویم کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ تاکہ ہماری آنکھیں کھل جائیں کہ اسی احسن تقویم میں سے کچھ طبقہ ظلم کی چکّی میں پس رہے ہیں۔ انہی بہترین مخلوق میں سے آئے روز ایک گروہ بھوک سے لقمہ اجل بن رہا ہے۔ انہیں حسِین مخلوق میں سے ایک طبقہ آئے دن تختہ دار پر چڑھایا جارہا ہے۔ کچھ سلاخوں کے پیچھے ہیں تو کچھ مسنگ پرسن کے نام پہ برسوں سے لاپتہ ہے۔ کچھ زیر شکنجہ ہیں تو کچھ گولیوں سے چھلنی ہورہے ہیں، کچھ چیخ چیخ کر مر رہے ہیں تو کچھ پکار پکار کے بے ہوش ہورہے ہیں۔ کچھ درندہ صفت کو ملک میں دندناتے پھرنے کی کھلی اجازت دی ہوئی ہے، کچھ بےروزگاری سے تنگ آکر خود کو اڑا رہا ہے۔ کچھ طوفان، آندھی اور بارش کے زد میں ہیں تو انہی میں ایک طبقہ سیلاب کی تباہی سے بےگھر زیر آسمان، بدون ملبوس،بھوک و پیاس سے نڈھال اپنی پیاروں کی لاشوں کو سیلاب میں بہتے ہوئے دیکھ رہے تو کچھ روتے ہوئے کاندوں پہ پیکر اٹھاتا نظر آرہا ہے۔

عزیزان محترم!تاکہ ہم سمجھ سکے کہ “لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم” کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟

آج اقتدار کے بھوکے، مال و زر کے دیوانے، پڑھا لکھا جاہل، بےحس و بے مروت مقتدر حضرات کی سیاہ چہرہ ہم سب کے سامنے عیاں ہیں۔ ان کو اربوں ڈالر حصولِ منصب کی خاطر جلسات و احتجاجات پہ خرچ کرنا آتا ہے لیکن دو درھم ان غریبوں اور بےسہاروں کے جیب میں ڈالنے سے غافل ہیں،ان کو دو سیٹ کے حصول کی خاطر ایک دن میں پانچ پانچ مرتبہ ایک طبقہ سے ملاقات کرنا آتا ہے لیکن پانچ منٹ ان سیلاب زدگان کی داد رسی کیلئے جانا گوارا تک نہیں ہے۔ ان کو قانون کی دھجیاں اڑھانے کیلئے دن رات کورٹ کو کھلا رکھ کر نعرہ تکبیر، نعرہ تکبیر کہتے ہوئے انانیت، منصب پرست اور تکبر کا شعار بلند کرنا آتا ہے لیکن ایک بار جائے انصاف اور کورٹ میں انہی بےسہاروں کیلئے آواز بلند کرنے کی جرأت نہی ہوتی، ملک عزیز پاکستان کے گوشے گوشے سے بیت المال خرچ کرتے ہوئے میلوں دور سیاسی جلسات میں شرکت کرتے وقت تمام تر ذمہ داریوں کو خیرباد کہنا آتا ہے لیکن جب آفت زدہ علاقوں کو دیکھنے کی شرعی نوبت آتی ہے تو مہینے گزر جاتے ہیں اور انہیں ذمہ داری کی طوق سے چھٹکارا نہیں ملتا، بلتستان سے شاہی انداز میں گاڑیوں اور بائیک کی ریلی ایک رات پہ پنجاب تک پہنچا سکتی یے لیکن دو بوری امداد کا آٹا پہنچانے سے بے بس نظر آتے ہیں۔

عزیزان محترم! یہ ہے ان اقتدار پرست حکام کی حقیقت تاکہ ہم سمجھ سکے احسن تقویم پہ کیا گزر رہا ہے؟
قارئین محترم! حکومت کی حالت سے ہم باخبر ہیں یہ تو صرف اقتدار کے بھوکے ہیں لیکن ان ایام میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ ایک انسان ہونے اور انسانیت کے ناطے ہمارا وظیفہ کیا بنتا ہے۔ آیا ہم بھی گھر بیٹھے ٹی وی کو سامنے رکھ کر تماشائی بنے رہے یا جہاں تک رسائی اور ہماری استطاعت کے تحت کچھ مدد بھی کریں۔
آج ہم خدارسائی کی خاطر اپنے ماہانہ درآمد میں سے دس درصد ان بےسہاروں کے لئے دے سکتے ہیں، آج ہم امدادی کیمپ لگاکر ان آسمان تلے خاک نشین غریبوں کیلئے چندہ جمع کرسکتے ہیں، آج ہم اپنے ہاتھ آسمان کی سمت اٹھاکر ان کیلئے دعا مانگ سکتے ہئں، آج ہم فوت ہونے والوں کی مغفرت اور درجات بلندی کیلئے دعائیہ پروگرام رکھ سکتے ہیں، آج ہم اپنے ایک دن کی گوشت، چائے، اضافی روٹی، سیکریٹ، نسوار،بےجاگردش میں صرف پیٹرول کا خرچہ اور بھی ہزاروں قسم کے بےفائدے چیزوں سے کاٹ کر اُن ماوں کے دہلیز تک امدادی خوراک پہنچاسکتے ہیں جن کی کفالت کرنے والا گھر کے واحد بیٹا سیلابی پانی کا نذر ہوا ہے۔ آج ہم اپنی تقریر،تحریر اور ٹی شو میں ایک دفعہ ان کے لئے آواز بلند کرسکتے ہیں۔ حداقل جب کھانے کیلئے سفرہ نشین ہوجائے تو ان بھوکے، پیاسے بےگھروں کے لئے اپنے دلوں میں درد بھراسکتے ہیں لیکن افسوس جتنی اہمیت ایک دن کی سکریٹ اور نسوار کیلئے دی جاتی ہے انتی اہمیت ہم ان بےسہارا اور بےکسا لوگوں کیلئے دیتی ہے آج انسانیت زندہ ہوتی۔ _انسانیت کا پکار یہ ہے کہ انسانیت کو زندہ رکھے۔_

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=37514