14

حماس۔۔۔ جنگ جاری رہے گی

  • News cod : 51058
  • 10 اکتبر 2023 - 10:42
حماس۔۔۔ جنگ جاری رہے گی
معترضین اور ناقدین کا کہنا ہے کہ ایران اس وقت اسرائیل سے لڑنے کے بجائے اس کے ساتھ دوستی اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فلسطین میں صہیونیوں سے مل کر اہلِ تشیع کو مضبوط کرے۔

تحریر: نذر حافی

حماس کو صرف اسرائیلی حملوں کا سامنا نہیں۔ ذرائع ابلاغ کی جنگ اپنی جگہ جاری ہے۔ پاکستان میں تین طرح کے لوگ اس وقت زبانی اور قلمی طور پر حماس کے خلاف مورچہ زن ہیں۔ ۱۔ بعض شیعہ ۲۔ بعض اہلسنت ۳۔ بکاو مال (اسرائیل کے ہاتھوں بکے ہوئے لبرلز اور دانشور نیز بعض مذہبی رہنما) یہ بظاہر الگ الگ گروہ ہیں، البتہ حماس کے خلاف اِن تینوں کا ایکا ہے۔ اہل تشیع میں سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ فلسطین ایک سُنی اکثریتی منطقہ ہے، ایران کو وہاں اہلسنت کی جنگ لڑنے کے بجائے اپنی اقتصاد اور اہل تشیع کی فلاح و بہبود پر توجہ دینی چاہیئے۔ ایسے معترضین کا برملا اعتراض یہ ہے کہ اسرائیل کے خاتمے سے اہل سنت مزید مضبوط ہونگے اور اس کے نتیجے میں شیعہ دشمنی اور شیعہ کُشی میں اضافے کے علاوہ ایران کو کچھ نہیں ملے گا۔

معترضین اور ناقدین کا کہنا ہے کہ ایران اس وقت اسرائیل سے لڑنے کے بجائے اس کے ساتھ دوستی اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فلسطین میں صہیونیوں سے مل کر اہلِ تشیع کو مضبوط کرے۔ یہاں پر یہ بتانا بھی انتہائی ضروری ہے کہ ماضی قریب کی بات ہے کہ 2010ء میں حماس کی سکیورٹی سروس کے اداروں نے درجنوں اہل تشیع افراد کو گرفتار اور لاپتہ کیا تھا، جس سے بڑی سطح پر حماس اور فلسطینی اہلِ تشیع کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ اسی طرح غزہ میں ابن بار الخیریہ الاسلامیہ اور “سلفی جہاد” کے نام سے ایسی تنظیمیں موجود ہیں، جو ہمارے ہاں کی سپاہِ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی طرز پر اہل تشیع کے خلاف سرگرم ہیں۔ چنانچہ معترضین موجودہ صورتحال کو ایران کیلئے ایک سنہری موقع قرار دے رہے ہیں، اُن کے مطابق ایران اس وقت صلاح الدین ایوبی سے لے کر آج تک کے سارے حساب برابر کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

اہل تشیع کی صفوں میں سے مذکورہ بالا فکر رکھنے والے حضرات کو اہلِ تشیع کے ہاں برطانوی شیعہ کہا جاتا ہے۔ یہ اسلامی وحدت، بھائی چارے وغیرہ پر کسی قسم کا یقین نہیں رکھتے۔ ایسے شیعہ پاکستان کے علاوہ ساری دنیا میں خصوصاً ایران میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہی اہل تشیع کا وہ طبقہ ہے، جو ایران کی موجودہ اسلامی حکومت سے نالاں ہے۔ اس طبقے کے مطابق ایرانی حکومت کو گرم لوہے پر ضرب لگانی چاہیئے۔ اس وقت جہاں اسرائیل سے اقتصادی فائدہ اٹھا کر ایران کو مستحکم کیا جا سکتا ہے، وہیں فلسطین سے اہلِ سُنّت کا صفایا بھی با آسانی ممکن ہے۔ ایسے لوگ اگر اایران میں موجودہ انقلابی حکومت کا تختہ الٹ کر کبھی برسرِ اقتدار آتے ہیں تو اس کے بعد کا نقشہ آپ خود سوچ لیں۔ ایسے لوگ جہاں بھی ہیں، ان کی برطانیہ، امریکہ، اسرائیل اور ہندوستان سے پشت پناہی ہوتی ہے۔ یہ برطانوی شیعہ بھی انتہائی بااثر لوگ ہیں اور ساری دنیا میں ان کا نیٹ ورک پایا جاتا ہے۔

حماس کے مخالفین کا دوسرا طبقہ بعض اہلِ سُنّت پر مشتمل ہے۔ یہ ایسے اہلِ سُنّت ہیں، جو ماضی کے ڈیڑھ دو سو سالوں میں وجود میں آئے۔ انہیں لوگ اہلحدیث، وہابی، سلفی یا دیوبندی وغیرہ کہتے ہیں اور گذشتہ چودہ سو سال سے یہ ہمارے درمیان نہیں تھے۔ ان کا تعلق حقیقی و قدیمی اہلِ سُنّت جنہیں ہمارے ہاں بریلوی کہتے ہیں، ان سے نہیں۔ یاد رہے کہ ہم سب اہلحدیث، وہابی، سلفی یا دیوبندی کی بات نہیں کرتے بلکہ ان کی بات کر رہے ہیں، جو حماس کے مخالف ہیں۔ یہ حقیقی اہلِ سُنّت یعنی بریلویوں سے اس لئے بھی جدا ہیں، چونکہ ان کے ایمان کا قبلہ سعودی عرب ہے۔ ان کے فرائض و واجبات کا تعیّن سعودی عرب ہی کرتا ہے۔ جہادِ افغانستان اس کی واضح مثال ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کے حُکم پر افغانستان میں امریکی ایجنڈے کی تکمیل کو جہاد کہہ کر لوگوں کو لڑوایا۔ آج افغانستان میں اُنہی طالبان مجاہدین کی خلافتِ اسلامیہ قائم ہوچکی ہے۔ اب یہ خلافتِ اسلامیہ کبھی خواب میں بھی جہادِ کشمیر یا جہادِ فلسطین کا اعلان نہیں کرتی۔ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ حماس کی کامیابی سعودی عرب و دیگر خلیجی ریاستوں کی بادشاہتوں کے خاتمے پر منتہج ہوگی۔

حماس صرف ایک جنگجو گروپ نہیں بلکہ یہ اخوان المسلمین کا ہی دوسرا نام ہے۔ اخوان المسلمین کی بنیاد شیخ حسن البنا نے مصر میں 1929ء میں رکھی تھی۔ 1973ء میں شیخ احمد یاسین نے غزہ میں اخوان المسلمین کا ایک شعبہ جماعت اسلامی کے نام سے کھولا تھا۔ اس زمانے میں یہ تنظیم فقط رفاہِ عامہ نیز افراد، خاندان اور معاشرے کی تعلیم و تربیت تک محدود تھی۔ بعد ازاں فلسطین کے حالات کے پیشِ نظر اس کے دائرہ کار میں سیاسی اور عسکری جدوجہد کو بھی شامل کیا گیا اور 1987ء میں اسی جماعتِ اسلامی کا نام حماس رکھ دیا۔ موجودہ دور میں یہ ایک فلسطینی، سیاسی و عسکری اور اسلامی مزاحمتی تحریک ہے اور اس کا کنٹرول غزہ کی پٹی پر ہے۔ حماس اپنے وژن کے لحاظ سے عرب قوم پرستی کے شدید خلاف ہے اور وحدتِ اسلامی پر ایمان رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے حماس کو ایرانی انقلابی قیادت اور دنیا بھر میں اسلامی انقلاب نواز اہلِ تشیع کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے۔

مصر میں مُرسی کی حکومت کو سعودی عرب نے اسی لئے ختم کرایا تھا۔مُرسی کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا۔ حماس اور اخوان المسمین یعنی بادشاہت و آمریّت کے بجائے حقیقی اسلام کا احیا، عوامی بیداری، جمہوری اقدار اور اسلامی شعور۔ لہذا سعودی عرب کے دسترخوان کی نُچڑی ہوئی ہڈیاں چوس کر اسلام کے نعرے لگانے والوں کی طرف سے حماس اور اخوان المسلمین یا ایران میں اسلامی انقلاب کی مخالفت خلافِ قیاس نہیں۔ سعودی عرب کی بادشاہت کے پیچھے چونکہ وہی امریکہ و برطانیہ ہیں تو ایسے اہلِ سنّت بھی برطانوی اہلِ تشیع کی مانند، برطانوی اہلِ سُنّت ہیں، چونکہ یہ اُنہی کے ایجنڈے پر کام کر کر رہے ہیں۔

پاکستان میں حماس کا مخالف تیسرا طبقہ ہے ہی “بکاو مال۔” اس میں کچھ لبرل اور دانشور کہلانے والا نیز ایک مخصوص مذہبی دھڑہ بھی شامل ہے، جو امریکہ و اسرائیل کے ہاتھوں بکا ہوا ہے۔ توجہ رہے کہ ایسے روشن فکر حضرات جو منصفانہ طور پر سوال اٹھاتے ہیں اور ملت اسلامیہ کی رہنمائی اور بیداری کیلئے مختلف زاویے پیش کرتے ہیں، وہ تو ہماری ملت کیلئے نعمت ہیں۔ یہاں منصفانہ تجزیہ و تحلیل کرنے والوں کی بات نہیں کی جا رہی بلکہ ہم صرف اُن کے بارے میں رقم طراز ہیں، جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے امریکہ و اسرائیل اور سعودی عرب سے اچھی خاصی رقم انیٹھ چکے ہیں۔ ان میں جہاں کچھ لبرل اور سیکولر حضرات ہیں، وہیں کچھ مذہبی رہنماوں کا شامل ہونا بھی محال نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو اس وقت اسرائیلوں و صہیونیوں کو مظلوم بنا کر پیش کر رہے ہیں۔

اسی طرح ہمارا بکاو میڈیا بھی دِن رات مُردہ اسرائیلیوں اور زخمی صہیونیوں کی تصاویر دکھا کر لوگوں کے دِل نرم کرنے میں مصروف ہے۔ ایسے لوگ اسرائیل کے لئے پاکستانیوں کے دل نرم کرنا چاہتے ہیں۔ اِن دنوں یہ سب بکاو لوگ ایک دوسرے کو گلے لگا کر اسرائیلوں کی مظلومیت پر آہ و فغاں اور ماتم کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ویسے ان کی آنکھوں میں نواسہ رسول حضرت امام حسینؑ کی مظلومیت پر بھی کبھی آنسو آتے دکھائی نہیں دیئے۔ اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلے گا! اس کا آخری فیصلہ میدانِ جنگ میں نہیں ہونا۔ یہ فیصلہ ہمت اور حوصلے کے قلم سے درودیوار پر لکھا جائے گا۔ کون فلسطینیوں کا وفادار اور کون غدّار ہے، یہ بھی کوئی مخفی رہنے والی بات نہیں۔ البتہ صاحبانِ بصیرت کیلئے آج ہی اس جنگ نے بڑے بڑوں کے چہروں سے پردہ کھینچ لیا ہے! آپ آج بخوبی پہچان سکتے ہیں کہ کون برطانوی شیعہ ہے۔؟ کون برطانوی سُنّی ہے۔؟ کون امریکہ و اسرائیل سے اذنِ جہاد لیتا ہے؟ اور کون اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے مال بٹور چکا ہے۔؟

یہ نکتہ فلسطینیوں نے بارہا اپنی تاریخ سے سیکھا ہے کہ “دوستوں اور دوستی کا نقاب پہننے والوں میں” فرق ہوتا ہے۔ وہی فرق جو فلسطین کے ساتھ دوستی نبھانے میں ایران اور دوسرے ممالک کا ہے۔ غزہ کی سڑکوں پر بکھرے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کی لاشیں ہم سے کہہ رہی ہیں کہ اسرائیل صرف اپنے فوجیوں کی طاقت سے یہ مظالم نہیں ڈھا رہا بلکہ اُس کے اصلی پُشت پناہ وہ نقاب پوش ہیں، جو ہماری صفوں میں کھڑے ہو کر اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ میں آخر میں آپ سب کی نیابت میں! کاغذ کے دمدمے پر، قلم کی توپ رکھ کر، فلسطینی مورچوں سے، حماس کی توپوں کے گرم دہانے سے، اسرائیل کی فوجی چھاونیوں پر یہ “تباہ کُن جملہ” داغنے جا رہا ہوں کہ “جب تک دنیا میں ایک بھی باشعور مسلمان زندہ ہے، فلسطین کی آزادی کی جنگ جاری رہے گی۔” ان شاء اللہ۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=51058