اس وقت سعودی عرب کی آرامکو تیل تنصیبات میزائل حملوں کا نشانہ بن چکی تھی اور اس کا الزام ایران پر عائد کیا جا رہا تھا۔ اگرچہ ایران نے اس واقعہ میں ملوث ہونے کا انکار کیا تھا۔
حجۃ الاسلام غلام علی صفائی بوشہری نے کہا: اسلام کو دشمنوں کی تمام سازشوں کے خلاف ہمیشہ کے لیے محفوظ بنا دیا۔ لہذا دنیا کا مستقبل امام حسین علیہ السلام اور اربعین حسینی کے نام ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کے حوالہ سے شاید دنیا کو بہت سے حقائق کا علم نہیں۔ وہ کوئی افسانوی کردار نہیں، البتہ انہیں کسی ناول کے ایمان دار، بے خوف اور بہادر ہیرو کی حقیقی شکل ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ مردِ مجاہد کہ جس کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ٹیلی فونک گفتگو کے دوران عراق کے صدر جلال طالبانی کے ساتھ شہید حاج قاسم کی موجودگی کا سن کر امریکی صدر پر سکتہ طاری ہوگیا۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان لاہور ڈویژن کے زیراہتمام منعقد ہونیوالی کانفرنس سے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ حجۃ الاسلام علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور حجۃ الاسلام مولانا سید حسن ظفر نقوی خطاب کرینگے۔
سوشیانا قوامی سنندج کی رہنے والی ١۲ سالہ لڑکی وزیر تعلیم کے صوبے کردستان کے دورے کے موقع پر صدر مملکت آیت اللہ رٕئیسی کو ایک خط لکھتی ہے جس میں صدر مملکت سے ملاقات کا تقاضا کرتی ہے۔
کانفرنس کے مہمان خصوصی، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ امین شہیدی نے پاکستان اور عالمی صورت حال پر مفصل گفتگو کی اور پاکستان میں یکساں قومی نصاب پر تبصرہ کرتے ہوے کہاکہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کس کانام اور کردار ٹیکسٹ بکس میں آیا ہے اور کس کا نہیں آیاہے بلکہ اصل مسئلہ اس کے پیچھے چھپی ہوئی استعماری اور استکباری سوچ کا ہے۔جس کی طرف کوئی بھی متوجہ نہیں ہے
سفارت اسلامی جمہوریہ ایران اسلام آباد کیجانب سے کتاب "صورتِ سلیمانی" کی تقریب رونمائی سے خطاب میں امت واحدہ پاکستان کے سربراہ کا کہنا تھا کہ شہید قاسم سلیمانی کو محض ایک فوجی جنرل کی نظر سے دیکھنا انکی غیر معمولی شخصیت کیساتھ زیادتی ہے۔
حوزہ علمیہ کاشان کے سربراہ نے سردار شہید قاسم سلیمانی کی دوسری برسی کی مناسبت سے ایک مضمون”سلام قاسم سلیمانی“کے عنوان سے لکھ کر مقاومتی شہداء کے سپہ سالار کی تجلیل کی ہے۔
عراق میں شہید قاسم سلیمانی کا خون ابھی خشک نہیں ہوا۔ عراق ابھی سوگوار ہے، لوگ اداس ہیں اور خطے سے امریکی و استعماری افواج کے انخلا کا مطالبہ زوروں پر ہے۔ چنانچہ اس دورے کو بعض نے اپنے مقاصد کے پیشِ نظر صلیبی جنگوں کی نئی روش کہا ہے، کچھ نے اپنے اہداف کی خاطر اسے ایک برائے نام دورے سے تعبیر کیا ہے، بہت ساروں نے اپنی مصلحت کے پیشِ نظر اسے معمول کا ایک سرکاری دورہ کہنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔