10

حضرت ولی عصر علیہ السلام کے تسمیہ اور نام شریف کو ذکر کرنے کا حکم (تیسری قسط)

  • News cod : 18465
  • 09 ژوئن 2021 - 16:23
حضرت ولی عصر علیہ السلام کے تسمیہ اور نام شریف کو ذکر کرنے کا حکم (تیسری قسط)
جہاں بھی حضرت ولی عصر علیہ السلام کا نام صراحت سے ذکر ہوا ،یا تو راویوں کی طرف سے بتایا گیا ہے یا ان فقہاء کی طرف سے ہےکہ جو اسے جائز سمجھتے تھے اور اس نام کو نقل کیا ؛ جیسے شیخ بہائی۔ وہ جواز کے قائل تھے اور کتاب مفتاح الفلاح میں حضرت کے نام شریف کو صراحت سے بیان کرتے ہیں۔ لیکن دعاؤوں اور دیگر احادیث میں یا تو حضرت کو لقب سے تعبیر کیا گیا ہے مثلا: " المھدی " یا حروف مقطعہ (م ، ح، م، د ) کے ساتھ ان کے مقدس وجود کو یاد کیا گیا ہے۔

تیسری قسط

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

پھر علامہ مجلسی ایسی چند روایات کا ذکر کرتے ہیں کہ جو کافی میں موجود نہیں ہے اور حرمت کی عمومیت کو بیان کرتی ہیں:
۱) ” مَا رواہ الصدوقُ باسنادِہ عَن عبدالعَظیم الحَسنی(رضی اللہ عنہ) ، عَن اَبی الحَسن الثَّالث عَلیہ السلام، أنّہ قال : فِی القائم علیہ السلام لَا یحلّ ذکرہ باسمِہ حتّی یخرُج فیملأ الارضَ قسطاً و عدلاً۔۔۔ ” ( کمال الدین، ص ۲۱۶)
شیخ صدوق کی روایت اپنی اسناد کے ساتھ حضرت عبدالعظیم حسنی اور وہ امام نقی علیہ السلام سے حضرت قائم عج کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
جب تک ان کا ظہور نہ ہو اور زمین کو عدل و انصاف سے پر نہ کر دیں ،ان کا نام شریف لینا صحیح نہیں ہو گا۔
۲)” ومَا رواہ سند حَسن عَن الکَاظم علیہ السلام ، أنّہ قالَ عندَ ذکرِ القائم : لَا تحلّ لکم تَسمیتہ حتّی یُظھرہ اللہُ عزّوجلّ : فیملأ الارضَ قسطاً و عدلاً ” ( مرآۃ العقول، ج ۲، ص ۱۶)
ایک روایت کو حسن سند کے ساتھ امام کاظم ؑ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرتؑ نے قائم ؑ کے ذکر کے وقت فرمایا :
تم لوگ حق نہیں رکھتے کہ انہیں نام کے ساتھ یاد کرو ،یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں ظاہر کرے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کر دے ۔
۳)” وباسنادِہ عَن جابر عَن أبی جعفر ؑ قَالَ : فَسألَ عمر ، امیرالمُومنین عَن المَھدی عج ؟فَقالَ : یابنَ ابی طَالب، أخبرنِی عَن المھدی مَا اسمُہ؟ قال : أمّا اسمہ فَلا، أنّ حبیبِی و خَلیلی ، عھد إلی أن لا احدّث باسمِہ حتّی یبعثَہ اللہُ عزّ و جلّ ۔۔۔” ( غیبت شیخ طوسی، ص ۴۷۰، ح ۴۸۷)
جابر جعفی ،امام باقر ؑ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
عمر بن خطاب نے امیرالمومنین ؑ سے حضرت مہدی ؑ کے بارے میں پوچھا اور کہا :اے فرزند ابو طالب مجھے مہدی کا نام بتائیں ؟حضرت نے فرمایا :مجھے ان کا نام لینے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ میرے حبیب اور دوست (پیغمبر اکرم ﷺ)نے مجھ سے عہد و پیمان لیا ہے کہ جب تک اللہ تعالی انہیں مبعوث نہ کرے (زمانہ ظہور تک ) ان کا نام بیان نہ کروں۔
علامہ مجلسی کی توجیہات
علامہ مجلسی کی نگاہ میں ،یہ روایات جا ئز نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں؛ لیکن احادیث و روایات کا ایک سلسلہ کہ جن میں دعائیں بھی ہیں، حضرت کے نام کی صراحت کرتی ہیں:
:پہلی توجیہ: جہاں بھی حضرت ولی عصر علیہ السلام کا نام صراحت سے ذکر ہوا ،یا تو راویوں کی طرف سے بتایا گیا ہے یا ان فقہاء کی طرف سے ہےکہ جو اسے جائز سمجھتے تھے اور اس نام کو نقل کیا ؛ جیسے شیخ بہائی۔ وہ جواز کے قائل تھے اور کتاب مفتاح الفلاح میں حضرت کے نام شریف کو صراحت سے بیان کرتے ہیں۔ لیکن دعاؤوں اور دیگر احادیث میں یا تو حضرت کو لقب سے تعبیر کیا گیا ہے مثلا: ” المھدی ” یا حروف مقطعہ (م ، ح، م، د ) کے ساتھ ان کے مقدس وجود کو یاد کیا گیا ہے۔
لہٰذا ان روایات اور دعاؤوں میں کہ جہاں ان کا نام ذکر ہوا ہے، یا راویوں کی طرف سے تھا یا علماء کی طرف سے تھا۔ ان کے مدمقابل ایسی روایات اور دعائیں بھی موجود ہیں کہ جہاں حضرت کا نام نہیں بیان ہوا ہے ۔
:دوسری توجیہ :وہ بعض روایات کہ جن میں امام زمانہ (عج) کا نام شریف ذکر ہوا ہے،ان سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت ؑ کے نام کا ذکر، صرف آئمہ علیہم السلام کے لئے جائز ہے اور صرف انہی کے ساتھ خاص ہے۔
جاری ہے۔۔۔

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=18465