7

حضرت ولی عصر علیہ السلام کے تسمیہ اور نام شریف کو ذکر کرنے کا حکم (ساتویں قسط)

  • News cod : 19074
  • 27 ژوئن 2021 - 5:46
حضرت ولی عصر علیہ السلام کے تسمیہ اور نام شریف کو ذکر کرنے کا حکم (ساتویں قسط)
بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں کہ حضرت مہدی  ؑ رسول خدا ﷺ کے ہم نام ہیں ۔۔۔ اسی طرح احادیث  لوح میں کہ جن کا مضمون مکمل طور پر گوناگوں ہے اور  ان روایات میں حضرت کا نام آیا ہے ۔ البتہ بعض احادیث لوح میں لفظ  " قائم " آیا ہے اور ان چار  یا پانچ احادیث میں  سے ایک سند اور متن کے اعتبار سے بہت مستحکم ہے ۔

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

ساتویں قسط

۶)محدث نوری کی نگاہ میں پہلی روایت ،تقیہ پر حمل نہیں کی جا سکتی ،کیوں کہ  یہ روایت نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں صادر ہوئی  او ر وہ زمانہ تقیہ کا زمانہ نہ تھا۔

تقیہ آئمہ معصومین علیہم السلام کے دور میں اور بالخصوص امام باقر علیہ السلام کے بعد شروع ہوا۔ ( مستدرک الوسائل ، ج ۱۲، ص ۲۸۸)

محدث نوری روایات کے علاوہ تین دلیلوں کے ساتھ بحث  کرتے ہیں اور اس بحث میں علامہ حر عاملی کے نظریہ کو واضح طور پر رد کرتے ہیں اور آخر میں صراحت سے حر عاملی کا نام لیتے  ہیں اور لکھتے ہیں :

صاحب وسائل  کا اصرار ہے  کہ حضرت مہدی ؑ کا  نام لینا جائز ہے اور اس حوالے سے ایک مفصل کتاب  تحریر کرتے ہیں  اس میں بہت سی روایات  کے ساتھ ثابت  کرتے ہیں ۔۔۔ میں اس عالم پر بہت زیادہ تعجب کرتا ہوں کہ کس طرح انہوں نے ان روایات سے تمسک کیا ؟ کس طرح اتنی زحمتوں سے اپنے آپ کو خطرناک جگہوں پر لے گئے۔ وہ بعض روایتوں سے اس طرح دلیل لاتے  ہیں کہ جس سے  ” تدلیس ” کی بو آتی ہے ۔ مثلا باب نکاح میں ان کا موقف  یہ ہے کہ نومولود کا سات دن تک نام رکھنا مستحب ہے کہ جس  کا ہماری بحث سے کوئی ربط نہیں ہے .  یہ بذات خود ایک قسم کی تدلیس ہے ۔( وسائل الشیعہ، ج ۲۰، ص 123)

یا روایت  ” من مات ولم یعرف امام زمانہ ” سےثابت  کرتے ہیں کہ یہ بھی کمزور دلیل ہے  یا روایت ” تلقین میت ” کو بنیا د بناتے ہیں اور کہتے ہیں :

یہاں مستحب ہے کہ آئمہ علیہم السلام کا نام لیا جائے لہٰذا ان  کا نام لینے میں کوئی حرج  نہیں ہے ۔( سابقہ ماخذ، ج ۲، ص ۴۵۸، ج ۳، ص ۱۷۴، ۱۷۶، ۱۷۹، ۱۸۰، ج ۱۴، ص ۵۴۹، ج ۱۶، ص ۲۴۷)

بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں کہ حضرت مہدی  ؑ رسول خدا ﷺ کے ہم نام ہیں ۔۔۔ اسی طرح احادیث  لوح میں کہ جن کا مضمون مکمل طور پر گوناگوں ہے اور  ان روایات میں حضرت کا نام آیا ہے ۔ البتہ بعض احادیث لوح میں لفظ  ” قائم ” آیا ہے اور ان چار  یا پانچ احادیث میں  سے ایک سند اور متن کے اعتبار سے بہت مستحکم ہے ۔

محدث نوری  مزید کہتےہیں : جی ہاں ہم قبول کرتے ہیں کہ بعض روایات میں حضرت کا نام آیا ہے ۔ لیکن ان میں سے بعض موارد خود راوی سے متعلق  ہیں اور بعض آئمہ معصومین علیہم السلام  سے خاص جگہوں پر ہیں۔ یہ سب واقعات ذاتی و فرد ی ہیں اور انہیں ،ان روایات  کے معارض قرار نہیں دیا جا سکتا  کہ جن میں ممانعت کی صراحت ہوئی ہے ۔ ایسی روایت کہ جس کا مضمون جواز پر صراحت رکھتا ہے ،ہمارے پاس نہیں ہے  ۔ پس امام شریف کا نام لینا جائز نہیں ہے ۔

محدث  نوری کہتے ہیں :میں یہ نظریہ رکھنے میں تنہا نہیں ہوں ؛ بلکہ حرمت تسمیہ کے قائلین کی تعداد زیادہ ہے مثلا محقق داماد نے کتاب ” شرعیہ التسمیہ ” میں حضرت کے نام کی حرمت  پر دعوی اجماع کیا ہے ۔

محدث جزائری  نے بھی کتاب ” شرح العیون ” میں حرمت کو بہت سے فقہاء کی طرف اور جواز کو اپنے بعض ہم عصر کی طرف نسبت دی ہے  ۔ پھر لکھتے ہیں : جزائری کے دور  سے پہلے سوائے خواجہ نصیر الدین طوسی اور محقق اربلی ” صاحب کتاب  کشف الغمۃ ”  کے کوئی ایسا نہیں  تھا کہ جو جواز کا قائل ہو ۔ (کشف الغمۃ، ج ۴، ص ۲۷۲)

یہ مطلب محقق داما د کے دور میں نظریہ کی شکل اختیار کر گیا  اور ان کے بعد اس موضوع میں کتابیں تحریر کی گئیں ۔ ( مستدرک الوسائل، ج ۱۲، ص ۲۸۹)

جب صاحب وسائل کا زمانہ آیا  تو انہوں نے جواز تسمیہ پر ایک مفصل کتاب تحریر کی اور جواز پر اصرار کیا حالانکہ یہ مسئلہ اجماعی تھا یا اکثر  بزرگان حرمت تسمیہ کے قائل تھے۔

جاری ہے.

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=19074