8

غیبت امام زمان(عج) ( دسویں قسط )

  • News cod : 21018
  • 12 آگوست 2021 - 14:38
غیبت امام زمان(عج) ( دسویں قسط )
نائب خاص کے ذریعے فیض: لوگوں کو غیبت کے زمانہ میں داخل ہونے کے لئے تیار اور آمادہ کرنے کے لئے یہ آخری راستہ تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام ٢٦٠ھ قمری میں شھید ہوئے اور امام مہدی علیہ السلام کی امامت کا آغاز ہوا اور ساتھ بھی ان کی غیبت کا زمانہ شروع ہوا تو بزرگان شیعہ سے چارافراد کا ترتیب کے ساتھ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف کے خاص نائب کے عنوان سے تعارف کروايا گيا اور یہ لوگ تقریبا ٧٠ سال تک لوگوں اور امام کے درمیان رابطہ کاذریعہ رہے۔

سلسلہ بحث مہدویت
تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

شیخ طوسی (رح)لکھتے ہیں: عثمان بن سعید عمری نے حضرت عسکری علیہ السلام کے حکم کی بناء پريمن کے شیعوں کے ایک گروہ کا لایا ہوا مال وصول کیا تو وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اس کام سے جناب عثمان بن سعید کی اہمیت اور احترام بڑھا ہے تو امام نے فرمایا: جی ہاں گواہ رہیں کہ عثمان بن سعید عمری میرے وکیل ہیں اور ان کا بیٹا محمد بھی میرے بیٹے مہدی کے وکیل ہوں گے۔( غیبت طوسی ، ص٣٥٦))
(٤): نائب خاص کے ذریعے فیض: لوگوں کو غیبت کے زمانہ میں داخل ہونے کے لئے تیار اور آمادہ کرنے کے لئے یہ آخری راستہ تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام ٢٦٠ھ قمری میں شھید ہوئے اور امام مہدی علیہ السلام کی امامت کا آغاز ہوا اور ساتھ بھی ان کی غیبت کا زمانہ شروع ہوا تو بزرگان شیعہ سے چارافراد کا ترتیب کے ساتھ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف کے خاص نائب کے عنوان سے تعارف کروايا گيا اور یہ لوگ تقریبا ٧٠ سال تک لوگوں اور امام کے درمیان رابطہ کاذریعہ رہے۔
یہ راستہ جو کہ انجمن وکالت کے دائمی طورپر برقرار رہنے سے امام کے مورد توجہ قرار پایا اس سے یہ فرصت ملی کہ شیعہ لوگ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف کے نائب سے مانوس ہوں اور اسے اپنے مسائل اور تعلیمات کے امور میں براہ راست تنہا مرجع سمجھیں اور اس پر اعتماد کریں اور امام کے ظاہری طورپر حضور نہ رکھنے کے اس دور کو گزار لیں۔ اس دور کی اہم خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ لوگ اپنے امام کی طرف خط لکھتے تھے اور امام سے جواب حاصل کرتے تھے کہ جو توقيعات کے عنوان سے مشہور ہیں اور یہ خط و کتابت انہیں نائبین خاص کے ذریعے انجام پاتی تھی۔
لہذا امام زمان علیہ السلام کی غیبت دو مرحلوں پر قرار پائي ہے: (١)غیبت صغری کہ اس دور میں شیعہ بزرگان میں چار افرادبالترتیب امام کی طرف سے نائب خاص کے عنوان سے سامنے آئے اور شیعہ قوم کے امور کی سرپرستی کی (٢)غیبت کبریٰ کہ علماء دین نے ان شرائط کے ساتھ کہ جو امام علیہ السلام نے بیان فرمائیں بعنوان نائب عام شیعوں کے امور کی ذمہ داری سنبھالی۔
غيبت کبري ميں امام عصر عج کا لوگوں سے رسمي رابطه نهيں ہے اب کوئی يه نہيں کہہ سکتا که ميں انکا خاص ناﺋب ہوں يا ميرا ان سے رابطه ہے اگر کوئی ايسا دعوي کرے تو خود امام کا فرمان ہے که وه جھوٹا ہے جيسا که آپ نے فرمايا ٫٫الا فمن ادعي المشاهده قبل خروج السفياني و- – – فھو کذاب مفتري٬٬ جو بھي سفياني کے خروج اور ديگر علامات سے قبل ميرے ساتھ رابطه کا دعوي کرتا هے وه جھوٹا اور بهتان باندھنے والا ہے –
البته غير رسمي طور نيک و صالح لوگوں –بزرگ علماء اور متقي پرهيز گار لوگوں کو آپکي زيارت کي توفيق حاصل ہوسکتي هے اگرچه ان تمام ملاقاتوں ميں ملاقات کے دوران وه لوگ امام کو پہچان نہيں پاتے امام کے جانے کے بعد انہيں احساس ہوتا ہے کہ انہيں کيا عظيم توفيق حاصل ہوئی تھي ليکن يه لوگ بھي اگر ملاقات کے بعد انکے ناﺋب ہونے يا انکي طرف سے کسي پيغام کے حامل ہونے کا دعوي کريں تو جھوٹے هيں –
خلاصه يه که اس غيبت کے دور ميں ہم خود آپ سے رابطه نہيں کرسکتے ٬ہاں خود حضرت اگر مصلحت و حکمت ديکھيں تو ہم ميں سے کسي کو توفيق زيارت سے نواز سکتے ہيں-
( جاری ہے……..)

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=21018