8

حضرت نرجس علیہا السلام، قسط 3

  • News cod : 25579
  • 20 نوامبر 2021 - 10:22
حضرت نرجس علیہا السلام، قسط 3
آقای خوئی مزید بیان کرتے ہیں: " لکن فی سند الروایۃ عدۃ مجاھیل " فرض کے طور پر اگر محمد بن بحر اور بشر بن سلیمان کی مشکل حل بھی ہو جائے تو شیخ طوسی کی سند میں ایسے افراد موجود ہیں کہ جن کی حقیقت مجہول ہے۔

سلسلہ بحث محور کائنات

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

اس روایت کی سند کا تجزیہ:

اس روایت کی سند کے تجزیہ میں اس سندکے ان دو افراد کے حالات کا جائزہ لیں گے کہ جن کا نام ذکر کیا گیاہے اور وہ دونوں بنیادی کردار رکھتے ہیں اور سند میں موجود دیگر افراد کے تجزیہ سے پرہیز کریں گے .
کیونکہ باقی افراد میں کوئی خاص اعتراض بیان نہیں ہوا سب سے زیادہ یہی دو افراد مورد اعتراض قرار پائے ہیں:
الف: بشر بن سلیمان نخاس
آیت اللہ خوئی کی نظر:
وہ معجم الرجال میں جب بشر کے نام پر پہنچتے ہیں تو شروع میں شیخ صدوق کی کلام نقل کرتے ہیں کہ ” بشر بن سلیمان ابو ایوب انصاری کی نسل سے ہے۔ پھر واقعہ کو اختصار ذکر کرتے ہیں اور حضرت کے اس جملہ کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں:
” انتم ثقاتنا اھل البیت و انی مزکیک و مشرفک بفضیلۃ تسبق بھا الشیعۃ فی الموالاۃ بھا ”
آقای خوئی مزید بیان کرتے ہیں:
” لکن فی سند الروایۃ عدۃ مجاھیل ” فرض کے طور پر اگر محمد بن بحر اور بشر بن سلیمان کی مشکل حل بھی ہو جائے تو شیخ طوسی کی سند میں ایسے افراد موجود ہیں کہ جن کی حقیقت مجہول ہے۔
پھر وہ راوی کی صلاحیت کو ذکر کرنے کے لئے اس رجالی نظریہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جسے بہت سے علماء رجال قبول کرتے ہیں یعنی : کسی فرد کی وثاقت کو خود اس کے ذریعے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔(معجم رجال الحدیث, الخوئی, ج3،ص316)
امام خمینی ؒ اس سے بھی سخت نظریہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں : راوی کا خود اپنی وثاقت نقل کرنا اس کے بارے میں بدگمانی کا سبب بنتا ہے ۔
آیت اللہ جعفر سبحانی ان کی تعبیر یوں نقل کرتے ہیں :
اذا کان ناقل الوثاقۃ ھو نفس الراوی فان ذلک یثیر سوء الظن حیث قام بنقل مدائحہ و فضائلہ فی الملاء الاسلامی ..
یعنی اگر کسی روایت میں کہ جسے نقل کر رہا ہے اس کی اپنی تعریف ہو یہی چیز نقل کرنے والے کے بارے میں بد گمانی کا سبب ہو گی۔ (کلیات فی علم الرجال, جعفر سبحانی, ص152)
بنابریں آقای خوئی سند پر دو اعتراض وارد کرتے ہیں : پہلا یہ کہ شیخ طوسی کی سند میں چند مجہول الحال افراد موجود ہیں دوسرا یہ کہ بشر کی وثاقت قطعی نہیں ہے کیونکہ انہوں نے خود اپنی وثاقت کو نقل کیاہے کہ جو دور کا موجب ہے۔
آقای مامقانی کی رائے:
وہ تنقیح المقال میں آیت اللہ وحید بھبھانی کی بات نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : “فالرجل من الثقات و العجب من اھمال الجماعۃ ذکرہ مع علیہ من الرتبۃ ” یعنی میں اسے مورد اعتماد راویوں میں سے سمجھتا ہوں اور مجھے حیرت ہے کہ اس کے لئے یہ مقام ثابت ہے تو پھر اس کے نام کو ذکر کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے۔(تنقیح المقال, مامقانی, ج2،ص271)
ب۔ محمد بن بحر شیبانی:
یہ وہی شخص ہے کہ جنہوں نے حضرت حجت علیہ السلام کی والدہ کا ماجرا بشر بن سلیمان سے سنا اور نقل کیا اس پر چند اعتراض وارد ہوئے ہیں اور ان میں سب سے اہم اعتراض یہ ہے کہ اسے ” غلات ” میں سے شمار کیا گیا ہے ۔
البتہ متاخرین نے یہ بات قبول نہیں کی اس سے اس کے مقام کی عظمت ثابت ہوتی ہے۔
البتہ خود غلو کے بارے میں بحث ہونی چاہیے کہ غالی سے کیا مراد لیتے ہوئے اسے غلو کرنا کہا گیا ہے ؟
ماضی میں بعض عقائد رکھنا غلو شمار ہوتا تھا حالانکہ وہ عقائد آج ہمارے مسلمات اصول عقاید میں شمار ہوتے ہیں .یہاں اس کےبارے میں چند آراء کا ذکر کرتےہیں۔
آقای نمازی کی رائے:
وہ جب محمد بن بحر کے بارےمیں بات کرتے ہیں یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ وہ متکلمین میں سے ، احادیث کے عالم اور فقیہ تھے ان سے پانچ سو کتابیں نقل ہوئی ہیں لیکن ان پر غلو کی تہمت لگی ہے۔
پھر نمازی کہتے ہیں: چونکہ ان پر غلو کی تہمت لگی ہے لہٰذا اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے ” رمی بالضعیف ” آخر میں کہتےہیں : بعض انہیں اہل سنت کے علماء میں سے جانتے ہیں لیکن یہ بات مکمل طور پر غلط ہے۔ (مستدرکات علم رجال الحدیث, ج6،ص477)
آقای مامقانی کی رائے:
وہ کہتے ہیں : شیخ طوسی رجال میں کہتے ہیں: ” یرمی بالتفویض ” یعنی محمد بن بحر پر مسلک تفویض کی پیروی کرنے کی تہمت لگائی گئی ہے ۔
اسی طرح شیخ طوسی سے ایک مطلب نقل کرتے ہیں کہ جو ان کی کتاب فہرست میں موجود ہے :
محمد بن بحر اھل سیستان تھے اور متکلم ، احادیث کے عالم اور فقہاء میں سے شمار ہوتے تھے لیکن ان پر غلو کی تہمت ہے.محمد بن بحر کی اکثر کتب خراسان کے شہروں میں موجود ہیں۔
آقای مامقانی ،نجاشی سے یوں نقل کرتے ہیں:
” قال بعض اصحابنا انہ کان فی مذھبہ ارتفاع و حدیثہ قریب من السلامۃ ولا ادری من این قیل ؛
یعنی ہمارے بعض علماء اسے غالی جانتےہیں لیکن جب میں نے ان کی کتابوں میں غو ر کیا تو کوئی مشکل نہیں دیکھی میں نہیں جانتا کہ کس نے محمد بن بحر کی طرف یہ نسبت دی ہے ۔
پھر آقای مامقانی مزید کہتے ہیں :
شیخ طوسی نے صراحت سےاظہار کیا ہے کہ محمد بن بحر کے بارے میں غلو اور تفویض ثابت نہیں ہے بلکہ یہ محض تہمت ہے اور بظاہر اس تہمت کا ماخذ ابن غضائری ہیں.
پھر کہتے ہیں کہ ہم نے کئی بار بیان کیاہے کہ ابن غضائری کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا بالخصوص اس وقت کہ جب وہ کسی غلو کی بناء پر ضعیف قرار دیں ۔
مزید یہ کہ نجاشی نے بھی یہ تہمت نادرست قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ
” حدیثہ قریب من السلامۃ ” اس طرح ان باتوں سے ہم نتیجہ لیں گے کہ محمد بن بحر ثقات کے زمرہ میں ہیں اور ضعیف نہیں ہیں۔
اس کے بعد آقای مامقانی ، آقای حائری کی رائے نقل کرتے ہیں کہ :
جب کوئی شخص متکلم, احادیث کا عالم اور فقیہ ہو اور اس کی احادیث صحت کے نزدیک ، نیز اس کی کتابیں درست اور مفید ہوں تو اس غلوکا معنی کیا ہے کہ جس کی ان پر تہمت لگائی گئی ہے ؟
اب تک محمد بن بحر شیبانی کے بارے میں بزرگان کی کلام سے کچھ فراز بیان ہو چکے ہیں۔علماء کی تمام باتوں کو مد نطر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ وہ ثقہ راویوں میں سے ہیں اور یہ تہمتیں ان کے بارے میں درست نہیں ہیں.
جاری ہے….

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=25579