6

غیبت امام مہدی عج(قسط28)

  • News cod : 28022
  • 17 ژانویه 2022 - 14:50
غیبت امام مہدی عج(قسط28)
حاجی علی بغدادی کہتے ہیں: میں نے اس سے پہلے آیت اللہ آل یاسین سے درخواست کی تھی کہ میرے لئے ایک نوشتہ لکھ دیں جس میں اس بات کی گواہی ہو کہ میں اہل بیت علیہم السلام کے شیعوں اورمحبان میں سے ہوں تاکہ اس نوشتہ کو اپنے کفن میں رکھوں۔ میں نے سید سے سوال کیا: آپ مجھے کیسے پہچانتے ہیں اور کس طرح گواہی دیتے ہیں؟ فرمایا: انسان کس طرح اس شخص کو نہ پہچانے جو اس کا کامل حق ادا کرتا ہو؟

سلسلہ بحث مہدویت

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

گذشتہ سے پیوستہ:
حاجی علی بغدادی کہتے ہیں: میں نے اس سے پہلے آیت اللہ آل یاسین سے درخواست کی تھی کہ میرے لئے ایک نوشتہ لکھ دیں جس میں اس بات کی گواہی ہو کہ میں اہل بیت علیہم السلام کے شیعوں اورمحبان میں سے ہوں تاکہ اس نوشتہ کو اپنے کفن میں رکھوں۔
میں نے سید سے سوال کیا: آپ مجھے کیسے پہچانتے ہیں اور کس طرح گواہی دیتے ہیں؟
فرمایا: انسان کس طرح اس شخص کو نہ پہچانے جو اس کا کامل حق ادا کرتا ہو؟
میں نے عرض کی: کونسا حق؟!
فرمایا: وہی حق جو تم نے میرے وکیل کو دیا ہے۔
میں نے عرض کیا: آپ کا وکیل کون ہے؟
فرمایا: شیخ محمد حسن!
میں نے عرض کی: کیا وہ آپ کے وکیل ہیں؟
فرمایا: ہاں۔
مجھے ان کی باتوں پر تعجب ہوا۔
مجھے ایسے لگا کہ میرے اور ان کے درمیان بہت پرانی دوستی ہے جس کو میں بھول چکا ہوں، کیونکہ انہوں نے ملاقات کے شروع میں ہی مجھے نام سے پکارا ہے! اور میں نے یہ سوچا کہ موصوف چونکہ سید ہیں لہٰذا خمس کی جورقم میرے ذمہ ہے اس میں سے کچھ ملنے کی توقع رکھتے ہیں.
لہٰذا میں نے کہا: کچھ حق (سہم سادات) میرے ذمہ ہے اور میں نے اس کو خرچ کرنے کی اجازت بھی لے رکھی ہے.
انہوں نے تبسم کیا اور
کہا: جی ہاں! آپ نے ہمارے حق کا کچھ حصہ( نجف میں) ہمارے وکیلوں کو ادا کردیا ہے۔
میں نے پوچھا: ”کیا یہ کام اللہ تعالی کی بارگاہ میں قابل قبول ہے”؟
انہوں نے فرمایا: ہاں!
میں نے سوچا کہ یہ سید بزرگوارکیسے عصرِ حاضر کے بڑے اور جیّد علماء کو اپنا وکیل قرار دے رہے ہیں؟
لیکن ایک بار پھر میں غفلت سے دوچار ہوا اور اس موضوع کو بھول گیا!
میں نے کہا: اے بزرگوار! کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ جو شخص شب جمعہ حضرت امام حسین عليہ السلام کی زیارت کرے (وہ عذاب خدا سے) امان میں ہے۔
فرمایا: ہاں صحیح ہے! اور میں نے دیکھا کہ فوراً ہی ان کی آنکھیں آنسووں سے بھر گئیں اور رونے لگے۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ہم نے خود کو کاظمین کے حرم میں پایا، بغیر اس کے کہ کسی سڑک اور حرم کے راستہ سے گزرے ہوں۔
داخلی دروازے پر کھڑے ہوگئے ۔انہوں نے کہا: زیارت پڑھیں، میں نے کہا: بزرگوار میں اچھی طرح نہیں پڑھ سکوں گا۔
فرمایا: کیا میں پڑھوں تاکہ تم بھی میرے ساتھ پڑھتے رہو؟
میں نے کہا: ٹھیک ہے!
چنانچہ ان بزرگوار نے پیغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور ایک ایک امام پر سلام بھیجا اور امام حسن عسکری عليہ السلام کے نام کے بعد میری طرف رخ کرکے فرمایا:
کیا تم اپنے امام زمانہ کو پہچانتے ہو؟
میں نے عرض کی: کیوں نہیں پہچانوں گا؟!
فرمایا: تو پھر اس پر سلام کرو میں نے کہا: اَلسَّلامُ عَلَیکَ یَا حُجَّةَ اللّہِ یَا صَاحِبَ الزَّمَانِ یَابْنَ الحَسَن!
وہ بزرگوار مسکرائے اور فرمایا: عَلَیکَ السَّلامُ وَ رَحْمَةُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہْ۔
اس کے بعد حرم میں وارد ہوئے اور ضریح کا بوسہ لیااور فرمایا: زیارت پڑھیں.
میں نے عرض کی اے بزرگوار میں اچھی طرح نہیں پڑھ سکتا۔

فرمایا: کیا میں آپ کے لئے پڑھوں؟
میں نے عرض کیا: جی ہاں!
انہوں نے مشہور زیارت ”امین اللہ” پڑھی اور فرمایا: کیا میرے جد امام حسین عليہ السلام کی زیارت کرنا چاہتے ہو؟
میں نے عرض کی: جی ہاں آج شب جمعہ اور امام حسین عليہ السلام کی زیارت کی شب ہے۔
انھوں نے امام حسین عليہ السلام کی مشہور زیارت پڑھی۔
اس کے بعد نماز مغرب کا وقت ہوگیا انہوں نے مجھ سے فرمایا:
نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھیں۔
اور نماز کے بعد وہ بزرگوار اچانک میری نظروں سے غائب ہوگئے۔
میں نے بہت تلاش کیا لیکن وہ نہ مل سکے!!
تو پھر مجھے خیال آیا کہ سید نے مجھے نام لے کر پکارا تھا اور مجھ سے کہا کہ کاظمین واپس لوٹ جاؤں جبکہ میں نہیں جانا چاہتا تھا۔
انہوں نے عظیم الشان فقہاء کو اپنا وکیل اور آخر کار میری نظروں سے اچانک غائب ہوگئے۔
ان تمام باتوں پر غور و فکر کرنے کے بعد مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام تھے، لیکن افسوس کہ بہت دیر بعد میں نے انہیں پہچانا۔(بحار الانوار, جلد52، صفحہ 315)
(جاری ہے…… )

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=28022