7

غیبت امام مہدی ع قسط (52)

  • News cod : 35039
  • 05 ژوئن 2022 - 19:01
غیبت امام مہدی ع قسط (52)
5قتل نفس زکيہ؛ ظہور کی پانچ حتمي علامات ميں سے ايک علامت نفس زکيہ کا قتل ہے اور اس سے مراد بھي بے گناہ مرد کا قتل ہے۔ متعدد روايات ميں وارد ہونے کي بنا پر اس کے علامت ظہور ہونے ميں کوئي شک نہيں، ليکن نفس زکيہ کے بارے ميں دو نکتے بڑي اہميت کے حامل ہيں:

سلسلہ بحث مہدویت

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

5قتل نفس زکيہ؛
ظہور کی پانچ حتمي علامات ميں سے ايک علامت نفس زکيہ کا قتل ہے اور اس سے مراد بھي بے گناہ مرد کا قتل ہے۔
متعدد روايات ميں وارد ہونے کي بنا پر اس کے علامت ظہور ہونے ميں کوئي شک نہيں، ليکن نفس زکيہ کے بارے ميں دو نکتے بڑي اہميت کے حامل ہيں:

(۱): يہ شخص مکہ مکرمہ مسجد الحرام ميں رکن و مقام کے درميان مارا جائے گا۔
امام محمد باقر عليہ السلام زمانہ ظہور کي خصوصيات اور علامات ظہور پر مشتمل ايک حديث ميں ارشاد فرماتے ہيں:
(وَقُتِلَ غلام من آل محمد بين الرکن و المقام)
رکن اور مقام کے درميان آل محمد ميں سے ايک جوان قتل کيا جائے گا۔ کمال الدين ج۱ ب۲۲ ٬ حديث ۱۶ ٬ غيبت طوسي٬ ص۴۴۴ ٬ ش ۴۳۹.

(۲): امام زمانہ عج کے ظہور اور نفس زکيہ (بے گناہ شخص) کے قتل کے درميان کوئي زيادہ فاصلہ نہيں ہے.
اس سلسلے ميں امام جعفر صادق ع کا فرمان ہے:
ليس بين قيام القائم و بين قتل النفس الزکيۃ الا خمس عشرۃ ليلۃ. غيبت شيخ طوسي باب علائم ظہور ٬ ص۴۴۵ ش۴۴۰
قائم( عج) کے قيام اور قتل نفس زکيہ کے درميان پندرہ راتوں سے زيادہ فيصلہ نہيں ہے ۔
اس قسم کي روايات امام محمد باقر عليہ السلام سے بھي نقل ہوئي ہے۔
البتہ يہ شخص کو ن ہے اور کيوں مارا جائے گا؟ روايات ميں اس چيز کي وضاحت نہيں کي گئي ہے، اگرچہ بعض روايات سے استفادہ ہوتاہے کہ يہ شخص امام مہدي عليہ السلام کے اعوان و انصار ميں سے ہوگا، جسے آنحضرت (عج) اپنے ظہور سے پہلے مکہ بھيجيں گے تاکہ لوگوں کو آنحضرت (عج)کے ظہور کي خوشخبري دے۔
ليکن مسجد الحرام ميں موجود لوگ اسے رکن اور مقام کے درميان شہيد کرديں گے۔ بحار٬ ج ۵۱ ٬ ص۳۰۷ حديث ۸۱.
گزشتہ مطالب ميں ہم نے علامات ظہور ميں سے پانچ علامتوں کو ذکر کياہے کہ جو مختلف روايات ميں حتمي ہونے کي قيد کے ساتھ باہم ذکر ہوئي ہيں۔
ان حتمي علامات کے علاوہ روايات ميں ديگر علامات کے بارے ميں بھي اشارہ ہواہے اور ان ميں سے بعض حتمي ہونے کي قيد بھي رکھتي ہيں ليکن ان کے بارے ميں کوئي وضاحت نہيں ملتي، اس لئے ہم ان ميں سے بعض علامات کي طرف صرف اشارہ کرتے ہيں :

1): ماہ مبارک رمضان کے وسط ميں سورج گرہن اور آخر ميں چاند گرہن لگنا۔ غيبت نعماني٬ باب ۱۴ ٬ حديث۴۵ و ۴۶.غيبت طوسي ، ص٤٤٤، ش٤٣٩.

2): مغرب سے سورج کا طلوع ہونا۔ غيبت طوسي باب علائم ظہور٬ ص۴۳۵ حديث۴۲۵.

3): آسمان پر ہتھيلي کا ظاہر ہونا۔ غيبت نعماني ٬ باب ۱۴ ٬ حديث۱۴.
کيا ابھي تک علامات ظہور ميں سے کوئي علامت پوري ہوئي ہے۔
بعض لوگوں کا خيال ہے کہ علامات ظہور ميں سے بعض علامتيں پوري ہوچکي ہيں۔
ان ميں سے بعض علامتوں کے نام بھي ذکر کئے ہيں(جيسا کہ شہيد صدر نے اپني کتاب تاريخ غيبت کبري ميں يہ کام کياہے).
کيا يہ بات يقيني طور پر کہي جاسکتي ہے؟ اس حوالے سے چند نکات قابل غور ہيں:
۱۔ شيعہ کے اصلي اور قديمي منابع ميں عام طور پر محدود اور خا ص قسم کي علامتيں ذکر کي گئي ہيں اور مذکورہ بالا علامات ميں سے بعض علامتيں يا توان منابع ميں ذکر ہي نہيں ہوئيں يا صرف ان کي طرف معمولي سا اشارہ کياگياہے۔
يہ بات اس حقيقت کو بيان کرتي ہے کہ وہ روايات جن ميں اس قسم کي علامات ذکر ہوئي ہيں، گذشتہ علماء کے نزديک معتبر نہيں تھيں۔

2۔ اس حوالے سے بہت ساري احاديث کي سندوں ميں مشکلات پائي جاتي ہے جس کي وجہ سے ان روايتوں کي اہميت کم ہوگئي ہے۔
ممکن ہے کوئي شخص يہ کہے اس صورت ميں يہ روايات کتب احاديث ميں کيوں نقل ہوئي ہيں؟
بہرحال ان روايات کے ذکر کرنے کي دو سبب ہوسکتے ہيں:
الف: روايات باقي رکھي جائيں اور بعد ميں آنے و الے علماء اور محققين ان کے بارے ميں غور وفکر کريں۔
ب: يہ با ت واضح ہوجائے کہ اہل بيت عليھم السلام کے موافق اور مخالف تمام فرقے امام مہدي عليہ السلام کے ظہور پر اتفاق نظر رکھتے ہيں۔
علامہ مجلسي علامات ظہور کے بارے ميں ايک لمبي حديث کے ذيل ميں بيان کرتے ہيں:
انما اوردت ھذالخبر… بحار جلد۵۲ ٬ ص۲۲۷ ٬ ح۹۰.
علامہ کہتے ہيں اس روايت کے متن ميں تحريف اور تبديلي ہوئي ہے اور اس کي سند مخلوق خدا ميں سے بدترين انسان عمر بن سعد لعنۃ اللہ پر ختم ہونے کے باوجود ٬ ميں نے اسے ذکر کياہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ مخالف اور موافق تمام فرقے امام مہدي عليہ السلام کے ظہور پر اتفاق نظر رکھتے ہيں۔

۳۔ وہ موارد جن ميں کسي علامت اور اس کے بعد فرج کا تذکرہ کيا گياہے، تو يہاں فرج سے حضرت امام زمانہ عليہ السلام کا ظہورمراد نہيں ہے۔بلکہ مؤمنين کے لئے آرام سکون اور اطمينان قلب کے حصول کي طرف اشارہ کيا گياہے :
امام محمد باقر عليہ السلام سے منقول ہے:
(توقّعوا الصوت يأتيکم بغتہ من قبل دمشق فيہ لکم فرجٌ عظيم) غيبت نعماني ٬ باب۱۴ ٬ ح۶۶.
دمشق کي جانب سے اچانک سنائي دينے والي آواز کے منتظر رہيں جس ميں تمہارے لئے آرام و سکون پاياجائے گا۔
اس رو ايت ميں لفظ فرج نکرہ ہے اور اس سے مراد کوئي بھي فرج ہوسکتا ہے نہ خاص قسم کا فرج۔

پس واضح نہيں ہے اس فرج کا تعلق آنحضرت( عج) کے قيام مقدس کے ساتھ ہو .
جيسا کہ ايک اور روايت ميں حضرت امام رضا عليہ السلام سے منقول ہے۔
(ان من علامات: الفرج حدثاً يکون بين الحرمين قلت و ايّ شيئ (يکون) الحدث؟ فقال عصيّبۃ تکون بين الحرمين و يقتل فلان من ولد فلان خمس عشر کبشاً) غيبت طوسي علائم ظہور ٬ ص۴۴۸ ٬ ش۴۴۷.
علامات فرج (ظہور) ميں سے حرمين کے درميان رونما ہونے والا واقعہ ہے۔
ميں نے سوال کيا وہ کون سا واقعہ ہے امام نے فرمايا: حرمين کے درميان واقع ہونے والي لڑائي ہے اور فلان ابن فلان پندرہ دنبے ذبح کرے گا۔
اب يہ کہ حرمين کيا ہيں؟ عصيبت سے کيا مراد ہے؟ اور اس کا سبب کياہے۔ فلان سے کون مراد ہے؟ اور پندرہ قوچ يعني دنبوں کا مصداق کياہے؟ يہ باتيں ہميں معلوم نہيں ہيں۔
ممکن ہے امام عليہ السلام سے سوال کرنے والے کے لئے يہ باتيں روشن ہوں۔
اس کے علاوہ اس فرج سے امام عليہ السلام کي مراد کياہے۔ممکن ہے ايک خاص قسم کا فرج(آرام و سکون) امام کا مورد نظر ہو۔

۴۔ بعض رو ايات ميں امام عليہ السلام کي فرمايش دو طرح کي ہے، گويا امام عليہ السلام ايک واقعہ کي پيشين گوئي کررہے ہيں:
راوي کہتے ہيں کہ ميں نے سنا کہ امام رضا عليہ السلام فرما رہے تھے:
قبل ھذا الامر بيوحٌ فلم ادرما البيوخ فحجت فسمعت اعرابياً يقول: ھذا يومٌ گبيوخٌ فقلت لہ: ما البيوحُ فقال الشديد الحر غيبت نعماني ٬ باب۴ ٬ ح۴۴.
اس امر [ظہور] سے پہلے [بيوح] ہوگا۔ ميري سمجھ ميں نہ آيا [بيوح] کياہے ؟ پھر ميں حج پر گيا او ايک عرب سے سنا کہ آج بيوح ہے۔ ميں نے سوال کيا [بيوح ] کياہے ؟تو اس نے جواب ديا :سخت گرمي ۔
اس روايت ميں غيبت کے دوران سخت گرمي کي طرف اشارہ بھي کياہے۔

�۵۔ گذشتہ مطالب ميں بيان کيا گياہے کہ دنيا ميں رونما ہونے والے واقعات کي علامات ظہور کے ساتھ تطبيق اچھا اقدام نہيں ہے۔
بعض موارد ميں کچھ علامات اور عبارات ايسي ہيں کہ جن کا ظاہري معني کے علاوہ دوسرا معني کيا جاسکتاہے۔
مثلاً مغرب سے سورج کا طلوع ہونا اس جملے سے خود آنحضرت کا ظہور مراد ليا جاسکتاہے جيسا کہ مرحوم فيض ايک روايت مغرب سے سورج کا طلوع ہونا حتمي علامات ميں سے ہے) کي وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہيں:
گويا مغرب سے سورج کے طلوع سے مراد خود حضرت کے ظہور سے کنايہ ہے۔
صعصعہ امير المؤمنين عليہ السلام سے منقول روايت کے ذيل ميں کہتے ہيں۔
وہ وجود مقدس جس کے پيچھے حضرت عيسي عليہ السلام نماز پڑھيں گے وہ عترت رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں سے بارہويں اور حسين بن علي عليہ السلام کے نويں فرزند ہيں۔اور وھو الشمس الطالعہ من مغربھا اوريہ وہ خورشيد ہے جو مغرب سے طلوع کرے گا۔
ان مطالب کي روشني ميں ٬ بعض علامات کے پورا ہونے کے بارے ميں اظہار نظر درست نہيں ہے۔

حرف آخر
آئمہ معصومين عليھم السلام کے فرامين ميں حضرت ولي عصر (عج) کے ظہو ر کے حوالے سے جو علامات ذکر کي گئي ہيں ،ان ميں سے پانچ علامتيں يماني اور سفياني کا خروج، ندائے آسماني ٬ خسف بيداء اور قتل نفس زکيہ بڑي اہميت کي حامل ہيں اور علماء نے انہيں حتمي علامات ميں سے شمار کياہے کہ جن کے بعد آنحضرت کا ظہور ہوگا گويا کہ يہ علامتيں لوگوں کو آنحضرت (عج)کے ظہور کي طرف متوجہ کريں گي۔کيونکہ کسي بھي علامت کو اس وقت علامت کہتے ہيں جب وہ مطلوب کي طرف راہنمائي کررہي ہو پس يہ علامتيں زمانہ ظہور کے قريب ترين زمانہ ميں وقوع پذير ہوں گي۔ اگرچہ لوگوں پر ضروري ہے کہ وہ صرف ان علامات کے بارے ميں غور و فکر کرتے رہيں بلکہ ہر حوالے سے اپنے آپ کو آنحضرت(عج) کے ظہور کے لئے آمادہ اور تيار کريں اور ان کے قيام کے منتظر رہيں۔
(جاری ہے…. )

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=35039