مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں، نظریاتی ہے، علامہ امین شہیدی
نکات :عارف کے سیر و سلوک سے مراد ، خواجہ نصیر الدین طوسی کے جملہ میں انقطاع عن نفس سے مراد، اللہ سے وصل ہونے کے بعد سب قدرت ، علم اور فیض اپنے اندر پانا، الہی اخلاق رکھنا،قران مجید میں درس عرفان، تبتل کیا ہے، امام صادق ع کی تفسیر ، کیسے ہماری آنکھ و کان۔۔۔اللہ کے کان و آنکھ ہونگے؟
شہید مطہری مطہری کی شخصیت کی مانند آپ کے افکار بھی انتہائی عمیق اور جامع ہیں، ٓپ نے اسلامی معاشرہکی ضرورت کے پیش نظر اس وقت کے اہم مسائل کو اپنی تقریر وتحریر میں موضوع سخن قرار دیا
آپ کی نظر ظاہری کامیابی پر نہیں، بلکہ اللہ کی رضایت، اطاعتِ رسول اور دین کا تحفظ آپ کا مطمع نظر تھا۔آپ نے ا لہٰی وانسانی اقدار اور اصول کومدنظر رکھتے ہوئے زندگی کیا۔
ذہانت کے اپنے آداب ہوتے ہیں۔ اُن آداب کی کُنجی نظم و ضبط ہے۔ اُمور کو بروقت انجام دینے سے بہتر کوئی ذہانت نہیں ہوسکتی۔ حمایت کرنی ہو یا مخالفت، تنقید کرنی ہو یا تعریف، دوستی نبھانی ہو یا دشمنی، ہمیشہ بروقت اقدام کیجئے۔ وہ کسان ہی نہیں جو فصل کو اُس کے اپنے موسم میں کاشت نہیں کرتا۔ جو بیج وقت پر نہ بویا جائے، وہ شجرِ سایہ دار کیسے بنے گا۔
تاریخی حقائق کے مطابق اس جنگ میں یہ کامیابی مسلمانوں خصوصا حضرت علی اور حضرت حمزہ جیسے جانثاروں کی جرات وبہادری کانتیجہ تھی۔
کسی بھی معاشرہ کااستحکام آپس میں محبت اور الفت کے بغیر ممکن نہیں اور تعمیر معاشرہ،محبت و اخوت کے تصور سے ہی امکان پذیر ہوسکتا ہے۔
سید باقر صدرؒ اور بنت الہدیؒ آزادی اور اسلامی بیداری کی مثال ہیں۔خصوصا بنت الہدیؒ نے تمام اسلامی حدود منجملہ حجاب کی رعایت کے ساتھ اجتماعی اور سیاسی سرگرمیوں کو ترک نہیں کیااور اپنے بھائی کے ساتھ ایک انقلاب برپاکیا۔
حضرت خدیجہ اور رعایت آئین شوہر داری: تربیت اسلامی کاایک پہلو خواتین کو شوہر داری سیکھانا ہے، کیونکہ اگر ہم توجہ کریں تو بہت سے اختلافات شوہر اور بیوی کے درمیان، عورتوں اور جوان لڑکیوں کی بد اخلاقی کی وجہ سے ہیں، کہ جو ازدواجی زندگی سے متعلق آداب معاشرت کی رعایت نہ کرنے، اصول شوہرداری سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے ہےن حضرت خدیجہ ازدواجی زندگی میں ان اصولوں کی رعایت کرتی ،اپنے گھر کے سکون کو محفوظ رکھتی تھی۔
شہید صدرؒ نہ صرف حوزہائے علمیہ،علما اورطلاب دین کے لیے ایک کم نظیر نمونہ اور مثال ہیں؛ بلکہ ان تمام افراد کے لیے آئیڈیل بن سکتے ہیں، جنہوں نے حقیقت اور علم کی راہ میں قدم رکھا ہے اور ان کے وجود سے کسب فیض کیا ہے۔
انجینئر مرزا محمد علی ایک منفرد آدمی ہیں۔ اُن کی انفرادیت دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرنا ہے۔ ایسے اعترافات سچ بولے بغیر نہیں ہوسکتے۔ سچ بولنے کیلئے بھی ہُنر چاہیئے۔ اسی لئے سچے لوگ ہر جگہ کم ہوتے ہیں۔ اب موجودہ ملکی حالات میں لوگوں سے سچ مخفی ہے۔ بھکاریوں کو سچ سے کوئی زیادہ غرض بھی نہیں۔ اُنہیں تو بس یہی خواب دکھایا جا رہا ہے کہ امریکہ سے بھیک آئے گی تو ہم مزے سے کھائیں گے۔ دوسری طرف امریکی بھی ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں۔