حجاب کی رعایت نہ کرنے والوں کو قانون کے مطابق تذکر دینا ضروری اور شرعی فریضہ ہے، آیت الله العظمی نوری همدانی
اس تحریر میں ہماری کوشش ہے کہ غیبت کے اسباب کے بارے میں روایات بیان کریں گے پھر ان کا سنداور دلالت کے اعتبار سے تجزیہ کریں گے اور آخر میں نتیجہ لیں گے ۔ لہذا بحث کو کئی مرحلوں میں بیان کریں گے ۔
میں حضرت کا نام لینے کے جواز میں تنہا نہیں ہوں ؛ بلکہ علماء دین کا ایک گروہ مثلا علامہ حلی، محقق حلی، فاضل مقداد، سید مرتضی، شیخ مفید ابن طاووس اور دیگر علماء ، حدیث ، اصول اور کلام کی کتابوں میں حضرت کے نام کو صراحت سے بیان کرتے ہیں ۔پھر کہتے ہیں :" والمنع نادر " یعنی وہ لوگ جو ممانعت کے قائل ہیں ان کی تعداد کم ہے ۔
بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں کہ حضرت مہدی ؑ رسول خدا ﷺ کے ہم نام ہیں ۔۔۔ اسی طرح احادیث لوح میں کہ جن کا مضمون مکمل طور پر گوناگوں ہے اور ان روایات میں حضرت کا نام آیا ہے ۔ البتہ بعض احادیث لوح میں لفظ " قائم " آیا ہے اور ان چار یا پانچ احادیث میں سے ایک سند اور متن کے اعتبار سے بہت مستحکم ہے ۔
امام مہدی علیہ السلام شیعہ و سنی فریقین میں مورد اتفاق ہیں ۔ان میں اختلاف صرف آپ کے نسب و ولادت کے حوالے سے ہے، لہٰذا چھپانے کے لئے کوئی خاص بات نہیں تھی ،تا کہ تقیہ کے لئے وجہ بن سکے، کیونکہ سب جانتے تھے کہ آپ آخر الزمان میں ظہور کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے؛ اس اعتبار سے تقیہ کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔
جہاں بھی حضرت ولی عصر علیہ السلام کا نام صراحت سے ذکر ہوا ،یا تو راویوں کی طرف سے بتایا گیا ہے یا ان فقہاء کی طرف سے ہےکہ جو اسے جائز سمجھتے تھے اور اس نام کو نقل کیا ؛ جیسے شیخ بہائی۔ وہ جواز کے قائل تھے اور کتاب مفتاح الفلاح میں حضرت کے نام شریف کو صراحت سے بیان کرتے ہیں۔ لیکن دعاؤوں اور دیگر احادیث میں یا تو حضرت کو لقب سے تعبیر کیا گیا ہے مثلا: " المھدی " یا حروف مقطعہ (م ، ح، م، د ) کے ساتھ ان کے مقدس وجود کو یاد کیا گیا ہے۔