حرم امام رضا(ع)میں واقع شیخ بہائی (رہ) کے مزار پر نئے کتبے کی تنصیب اور نقاب کشائی
نائب خاص کے ذریعے فیض: لوگوں کو غیبت کے زمانہ میں داخل ہونے کے لئے تیار اور آمادہ کرنے کے لئے یہ آخری راستہ تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام ٢٦٠ھ قمری میں شھید ہوئے اور امام مہدی علیہ السلام کی امامت کا آغاز ہوا اور ساتھ بھی ان کی غیبت کا زمانہ شروع ہوا تو بزرگان شیعہ سے چارافراد کا ترتیب کے ساتھ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف کے خاص نائب کے عنوان سے تعارف کروايا گيا اور یہ لوگ تقریبا ٧٠ سال تک لوگوں اور امام کے درمیان رابطہ کاذریعہ رہے۔
امام نے کئی دفعہ لوگوں سے پردہ کے پیچھے سے گفتگو کی تاکہ وہ امام کو نہ دیکھنے کی عادت ڈالیں۔
داود بن قاسم کہتے ہیں کہ ميں نے امام نقی علیہ السلام سے سنا کہ وہ فرمارہے تھے میرے بعد میرا جانشین میرا بیٹا حسن ہے اور تم لوگ میرے جانشین کے بعد والے جانشین کے ساتھ کیا کروگے؟ میں نے کہا آپ پر قربان ہوجاؤں ٬کیا ہوگا؟ فرمایا: کیونکہ تم انہیں نہیں دیکھو گے ... عرض کی تو کیسے انہیں یاد کریں گے فرمایا: ایسے کہو : حجة آل محمد صلوات اللہ علیہم۔
ایک زمانہ لوگوں پر آئے گا کہ ان کا امام غائب ہوگا ٬خوشخبری ہو ان لوگوں کے لئے کہ جو اس زمانہ میں ہمارے امر پر ثابت قدم رہیں سب سے کم ترین ثواب کہ جو انہیں ملے گا وہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالی انہیں آواز دے گا اورفرمائے گا
لوگوں کے آئمہ اھل بيت عليھم السلام کي امامت و ولايت کے ساتھ نامناسب روّيہ سے غيبت ضروري ہوچکي تھي اور آئمہ معصومین علم الہی کی بناء پر اس تلخ حقیقت سے آگاہ تھے.
امام مہدی اس صورت میں قرآن مجید کو ان کی پرخطا اور ناحق آراء و نظریات کی شکنجہ سے آزاد کروائیں گے اور ان بدعمل خائن ، دنیا پرست ، فریب کار اور نام کے علماء کو نابود کریں گے، ایسا عظیم کام کہ جو تمام انبیاء و رسل و ائمہ الھی کی تبلیغ کا مقصود ہے اسے انجام دینے کے لئے آپکا معنوی تکامل ضروری ہے اس حوالے سے یہ بھی ایک وجہ غیبت شمار ہوتی ہے
ہم اگر غور کریں تو قرآن نے انتہائی شفاف انداز سے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے اس سے ہم بہتر طریقے سے اس الھی سنت کو اور اس کے پس پردہ نورانی مقاصد کو سمجھ سکتے ہیں،
امام مہدی عج قیام کریں گے اور ظلم و بے انصافی کو مٹا دیں گے اور شرک و کفر و نفاق کے نمونوں کو ذلت سے خاک میں ملا دیں گے تو اس نے زمانہ کے طاغوت اور ظالم حکمران طبقہ آپ کو شہید کردیتے ،
کیوں شیخ صدوق نے اپنی دونوں کتابوں میں روایت کو دو افراد یعنی جعفر بن مسعود اور جعفر بن محمد سے نقل کیا ہے؟ اس لیے تا کہ مطلب کو متعدد طریق سے لایا جائے اور اس پر تاکید کی جائے ،لہٰذا اگر ان میں سے ایک راوی توثیق کے اعتبار سے مشکل پیدا کرے اور دوسرا یہ مشکل پید نہ کرے ،اس طرح سند کی توثیق میں خلل نہیں پڑ سکے گا۔