17

غیبت امام زمان(عج) ( نویں قسط )

  • News cod : 20711
  • 07 آگوست 2021 - 17:07
غیبت امام زمان(عج) ( نویں قسط )
امام نے کئی دفعہ لوگوں سے پردہ کے پیچھے سے گفتگو کی تاکہ وہ امام کو نہ دیکھنے کی عادت ڈالیں۔

سلسلہ بحث مہدویت
تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

(٢): امام نقی علیہ السلام کے زمانہ سے لوگوں کا امام سے براہ راست رابطہ کم ہوگیا:
اس طرح کہ امام نے کئی دفعہ لوگوں سے پردہ کے پیچھے سے گفتگو کی تاکہ وہ امام کو نہ دیکھنے کی عادت ڈالیں۔
البتہ اس رابطہ کے کم ہونے کی اصلی وجہ ظالم عباسی حکومت کی سختی اور پابندیاں لگانا تھی ٬لیکن آئمہ نے ان پابندیوں سے لوگوں کو زمانہ غیبت کے لئے تیار کرنے کا فائدہ اٹھایا۔
مسعودی ”اثبات الوصیہ” میں تحریر کرتے ہیں : امام نقی علیہ السلام سوائے چند خواص کے اکثر اپنے محبين سے دور ی اختیار کرتے تھے اور جب امامت کی ذمہ داری امام حسن عسکری عليہ السلام کے پاس آئی تو آپ پشت پردہ خواص وغیرہ سے کلام فرماتے تھے مگر یہ کہ جب سلطان کے محل کی طرف جانے کیلئے سواری پر سوار ہوتے تھے (تو منظرعام پر آتے تھے ) (اثبات الوصیة ، ص٢٦٢ ، تاریخ الغیبة الصغریٰ ، ص٢٢٢)
(٣): انجمن وکالت:یہ بھی ان روشوں ميں سے تھی کہ جس پر آئمہ علیہ السلام نے توجہ فرمائی، امام باقر اور امام صادق علیھما السلام کے زمانہ سے کہ جب مملکت اسلامی دوردور تک پھیل چکی تھی تو اس وقت انجمن وکالت ایک ناگريز ضرورت تھی٬ کیونکہ ایک طرف تو لوگ مسائل دین اور مالي امور میں امام کی راہنمائی کے محتاج تھے اوردوسری طرف سب لوگوں کے لئے مدینہ میں حاضر ہونا اور براہ راست امام علیہ السلام کی خدمت سے شرفیاب ہونا ناممکن تھا۔
انجمن وکالت کی تشکیل سے امام کے وکلاء مملکت اسلامی کے مختلف علاقوں میں قرار پا گئے اور لوگوں کا اپنے آئمہ معصومین علیہ السلام سے رابطہ ممکن ہوگیا (البتہ حکومت کی سختیوں کی بناء پر یہ انجمن مخفی طورپر کام کرنے لگی ) امام نقی اور امام عسکری علیھم السلام کے زمانہ میں لوگ وکلاء کی طرف زیادہ رجوع کرنے لگے حتی کہ جب لوگ امام کی خدمت میں شرفیاب ہوتے تو آپ انہیں اپنے وکیل کی طرف راہنمائی فرماتے ، آئمہ علیھم السلام نے اپنے اس طرز عمل سے لوگوں کو سکھایا کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے وکلاء پر اعتماد کرسکتے ہیں اور ان کی طرف جاسکتے ہیں۔
احمد بن اسحاق بن سعد قمی کہتے ہیں : ایک دن امام نقی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا اور عرض کی: میں کبھی یہاں ہوں اور کبھی دور دراز ہوں اور پھر آپ سے شرعی مسائل نہیں پوچھ سکتا اورجب یہاں بھی ہوں تو بھی ہمیشہ آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتا تو اس وقت کس کی بات کو قبول کروں اور کس سے حکم لوں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ ابو عمرو (عثمان بن سعید عمری) مؤثق اور امین شخص ہیں وہ میرے مورد اعتماد اور اطمینان ہيں: جو کچھ بھي تم سے کہيں ميري طرف سے کہتے ہيں اور جو کچھ پہنچاتے ہيں ميري طرف سے پہنچاتے ہيں اور جب امام نقي عليہ السلام شہيد ہوگئے تو ايک دن ميں ان کے فرزند امام حسن عسکري عليہ السلام کي خدمت ميں حاضر ہوا اور وہي سوال جو امام نقي عليہ السلام سے کيا تھا وہي ان کي خدمت ميں عرض کيا اور امام کے وصي نے امام نقي عليہ السلام والا جواب تکرارکيا اور فرمايا: يہ ابو عمر و (عثمان بن سعيد عمري) گزشتہ امام کے مورد اعتماد اور اطمينان تھے۔ نیز یہ میری زندگی میں اور میری موت کے بعد بھی میرے مورد اعتماد ہیں جو کچھ بھی کہیں گے میری جانب سے کہیں گے اور جو کچھ ان سے تم تک پہنچے وہ میری جانب سے پہنچے گا۔ (غیبت طوسی، ص٣٥٤))
یہ عثمان بن سعید بعد میں امام عصر عج کے پہلے خاص نائب بھی قرار پائے.

( جاری ہے…..)

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=20711