14

صلح اما م حسنؑ پر بعض اعتراضات کا جائزه

  • News cod : 16356
  • 28 آوریل 2021 - 17:03
صلح اما م حسنؑ پر بعض اعتراضات کا جائزه
سوال: اگر معاویہ نیک ا ور اچھا انسان تھا تو حسن بن علیؑ نے ان کے ساتھ صلح کیوں کی؟ انہوں نے اسلامی حکومت کسی برے شخص کے سپرد کیوں کی؟ حسن بن علیؑ کے پاس زیادہ تعداد میں سپاہی تھے پھر بھی معاویہ کے ساتھ صلح کی لیکن امام حسین ؑکے پاس زیادہ سپاہی نہ ہوتے ہوئے بھی یزید کے ساتھ جنگ کی؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ان دو طریقوں میں سے ایک طریقہ غلط تھا؟

تحریر : ڈاکٹر رئیس اعظم شاهد
سوال: اگر معاویہ نیک ا ور اچھا انسان تھا تو حسن بن علیؑ نے ان کے ساتھ صلح کیوں کی؟ انہوں نے اسلامی حکومت کسی برے شخص کے سپرد کیوں کی؟ حسن بن علیؑ کے پاس زیادہ تعداد میں سپاہی تھے پھر بھی معاویہ کے ساتھ صلح کی لیکن امام حسین ؑکے پاس زیادہ سپاہی نہ ہوتے ہوئے بھی یزید کے ساتھ جنگ کی؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ان دو طریقوں میں سے ایک طریقہ غلط تھا؟
تنقیدی جائزه
بعض حضرات نے مختلف الفاظ میں اس قسم کے اعتراضات کیے ہیں ان کے جواب میں چند نکات پر غور کرنا ضروری ہے :
پہلا نکتہ: یہ کہ معاویہ ایک اچھا انسان تھا یا برا، اسلاف کی پیروی کے دعوے دار سلفی حضرات اس بارے بھی اسلاف کے اقوال سے استفادہ کریں۔احمد بن حنبل لکھتے ہیں:« علی (ع) کے دشمنوں نے جب علی میں کوئی عیب نہیں پایا تو آپ (ع) کے دشمن(معاویہ) کے لیے فضائل گھڑنا شروع کیے جبکہ معاویہ میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔» (فتح الباری، ج ،7ص 81؛ تحفه الاحوذی، ج ،10ص 231قال: إنّ علیّاً کان کثیر الأعداء ففتّش أعداؤه له عیباً فلم یجدوا فعمدوا إلی رجل قد حاربه فأطردوه کیداً منهم لعليّ(
بخاری نے صحیح بخاری میں معاویہ سے متعلق احادیث کو نقل کرتے وقت اس باب کا نام «باب فضایل معاویه»( صحیح البخاری، ج ،4ص 219 ) کے بجائے «باب ذکر معاویه» رکھا ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام بخاری، معاویہ کے لیے کسی فضیلت کے قائل نہیں تھے۔
اسحاق بن راہویہ-بخاری کے استاد- کا نظریہ یہ تھا کہ پیغمبر اکرمؐ سے معاویہ کے بارے میں ایک بھی صحیح روایت نقل نہیں ہوئی ہے۔ (تاریخ مدینة دمشق ، ج ، 59ص 106؛ سیر أعلام النبلاء، ج ،3ص 132؛ فتح الباری، ج ،7ص « .81قال: لایصحّ عن النبيّ (ص) في فضل معاویة شيء)
معاویہ ایسا انسان تھا جس نے بقول مسلم- صحیح مسلم کے مصنف-پاکترین انسان یعنی حضرت امیر المومنینؑ پر سبّ کا سلسلہ شروع کیا ۔ جب سعد بن وقاص نے اس سے انکار کیا تو اس پر اعتراض کیا اور کہا: «ما منعك أن تسبّ أبا التراب؛ کس چیز نے تجھے علی پر سبّ کرنے سے روکا ہے؟» (صحیح مسلم، ج ،7ص 120؛ سنن الترمذی، ج ،5ص 301) معاویہ وہ شخص تھا جس نے خلافت کو موروثی بادشاہت میں تبدیل کردیا اور اس طرح اسلام کی ترویج و ترقی سے روکا۔
تفسیر المنار کے مصنف-رشید رضا- جرمنی کے ایک دانشور سے نقل کرتے ہیں کہ استنبول کی کسی محفل میں اس نے کہا:« ہم یورپی عوام پر لازم ہے کہ ہم معاویہ کا سونے کامجسمہ بنا کر برلن کے میدان میں لگا دیں » اس سے سوال کیا گیا: کیوں؟ تو کہا: کیونکہ اس نے اسلامی نظام حکومت کو بادشاہی نظام میں تبدیل کردیا اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اسلام دنیا میں پھیل جاتا اور جرمن بلکہ تمام یورپی لوگ مسلمان ہو جاتے۔» (تفسیر المنار، ج ،11ص 214)
معاویہ وہی شخص ہے جس کے بارے رسول خدا ؐنے عمار کو مخاطب کر کے فرمایا: «تقتلک فئة باغیة؛ طاغی گروہ تجھے قتل کرے گا۔»
(مسند احمد، ج ،5ص 207؛ صحیح مسلم، ج ،8ص 186 )
شیعہ و اہل سنت علمائے اسلام کی نگاہ میں معاویہ ایک ظالم اور ستم گر شخص ہے اور امام علیؑ نے پیغمبر ؐکے حکم سے اس سے جنگ کی۔
اب سوال یہ ہے کہ بعض حضرات، امام حسنؑ کی معاویہ کے ساتھ صلح کو اس طرح پیش کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ: معاویہ ایک لائق اور قابل شخص تھا اس لیے امام حسنؑ نے اسلامی معاشرے کی حکمرانی اس کے سپرد کی ؟!
اگر ایسا ہے تو پیغمبر اکرمؐ کی مکہ کے مشرکین کے ساتھ حدیبیہ میں صلح بھی مشرکین کی صلاحیت اور قابلیت کی وجہ سے تھی جس کی وجہ سے رسول خداؐنے خانه کعبہ یعنی خانہ توحید کو ان کے سپرد کیا۔
دوسرا نکتہ: امام حسنؑ نے ایسے شخص کے ساتھ صلح اس لیے نہیں کی کہ لوگ اعتراض کریں کہ امامؑ نے مسلمانوں کی حکومت ایسے شخص کے حوالے کیوں کی؟ بلکہ جہاں تک امامؑ کے سپاہیوں نے آپ کی اطاعت کی ، امام (ع) نے معاویہ کے ساتھ جنگ کی اور ایک لمحہ بھی اس جنگ سے غافل نہیں ہوئے لیکن جب آپ کے سپاہیوں نے آپ کو تنہا چھوڑا اور آپ کی اطاعت نہیں کی تب امام ؑنے مجبوری کی حالت میں معاویہ سے صلح کی۔
تاریخی اسناد کے مطابق امام حسنؑ نے معاویہ سے صلح کرنے سے پہلے«مدائن» میں اپنے لشکر کو خطاب کرکے فرمایا: «ہمیں شامی لشکر کا سامنا کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں، پہلے ہم باہمی استحکام، اتحاد اور تفاہم سے شامیوں سے لڑتے تھے لیکن آج نفرت کی وجہ سے اتحاد اور تفاہم ختم ہوگیا۔ آپ لوگوں کی قوت برداشت ختم ہوگئی اور شکایت کے لیے زبان کھول دی۔ جب صفین کی جنگ کے لیے روانہ ہوئے تھے، مذہب کو دنیا کے مفادات پر ترجیح دی لیکن اب مفادات کو مذہب پر ترجیح دیتے ہیں ہم ویسے ہیں جیسے پہلے تھے لیکن آپ اب پہلے کی طرح وفادار نہیں رہے ۔ آپ میں سے بعض نے اپنےرشتے دار جنگ صفین میں اور بعض نے جنگ نہروان میں کھو دیئے ہیں۔پہلا گروہ اپنے مرنے والوں پر اشک بہاتا ہے۔ دوسرا گروہ مرنے والوں کے خون کا بدلہ چاہتا ہے۔ باقی لوگ ہماری اطاعت نہیں کرتے ! معاویہ نے ہمیں ایک ایسی تجویز دی ہے جو انصاف، ہمارے اعلی مقصد اور وقار سے دورہے۔اب، اگر آپ خدا کے راستے میں قتل کرنے کے لئے تیار ہیں تو اعلان کر دیں تاکہ ان سے لڑیں اور تلوار سےان کا جواب دیں اور اگر زندگی اور سلامتی چاہتے ہیں تو بتا دیں تاکہ اس کی پیشکش کو قبول کرلوں۔جب امامؑ کی گفتگو یہاں پہنچی تو لوگوں نے فریاد کرنا شروع کی: «اَلبُقیَة البُقیة؛ ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں۔» (تاریخ مدینه دمشق، ج ،13ص 268؛ اسد الغابة، ج ،1ص 419)

یہاں سے امامؑ کو احساس ہوگیا کہ آپ تنہاہیں اور آپ کے سپاہی معاویہ سے لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔مورخین کے بقول: «فلمّا أفرَدوه أمضی الصلح؛جب آپ کو تنہا چھوڑدیا آپ صلح کرنے پر مجبور ہوئے» (اریخ مدینه دمشق، ج ،13ص 268؛ الکامل، ج ،3ص406 )
امام حسنؑ نے وہی بات کی جو امام حسینؑ نے کی اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا: «لووجدتُ أعواناً ما سلمتُ له الأمر، لأنّه محرّم علی بنيّ أمیّة؛ اگر میرے پاس ایسے اصحاب ہوتے جو خدا کے دشمنوں سے لڑنے میں میری مدد کرتے تو ہرگز خلافت معاویہ کے سپرد نہیں کرتا کیونکہ خلافت بنی امیہ پر حرام ہے.» (الخرائج و الجرائح، ج ،2ص 576)

وہی بات جسے امام ؑنے اپنے سست ساتھیوں سے فرمائی تھی اسی بات پرآج امام پر الزام کیوں لگایا جاتا ہے؟ امام ؑنے فرمایا: خدا کی قسم (تم لوگوں کی بے وفائی کی وجه سے )حکومت معاویہ کے سپرد کرنے پر مجبور ہوا، لیکن یہ یقین مانو ! بنی امیہ کی حکومت کے پرچم تلے تمہیں سکون اور خوشی نہیں ملے گی اور مختلف قسم کی اذیت اور آزار کا شکار ہوجائو گے۔
اس کے بعد فرمایا: «و لکنّي کأنّي أنظر إلی أبنائکم واقفین علی أبواب أبنائهم یستسقونهم و یستطعمونهم بما جعله الله لهم فلایسقون و لا یطعمون، فبعداً و سحقاً لما کسبته أیدیکم (وَ سَیَعْلَمُ الَذّینَ ظَلَمُوا أَيَ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُون؛میں آج گویا دیکھ رہاہوں کہ کل تمہاری اولادیں، ان کے فرزندوں کے دروازے پر کھڑے، روٹی پانی مانگ رہے ہیں، وہی روٹی اور پانی جو تمہارے فرزندوں کا حق تھا، لیکن بنی امیہ ان کو اس حق سے محروم کریں گے » (علل الشرائع، ج ،1ص .221سوره شعراء، آیه 227 )
اگر تعصب کی عینک ہٹا کر تاریخ کا یہ صفحہ پڑھا جائے تو یہ سوال پیش نہیں آئے گا کہ امام حسن (ع) نے حکومت کو معاویہ کے سپرد کیوں کیا؟
تیسرا نکتہ: دو معصوم اماموں کی صلح اور جنگ کے شیوه و روش بارے غور کرنا چاہیے کہ جنگ اور صلح دو اہم سیاسی اور اجتماعی واقعات ہیں اور ہر ایک واقعہ وقت اور حالات کے تابع ہے .امام حسن اور امام حسینؑ دونوں ہی معصوم پیشوا ہیں جو آپ کی ذمہ داری ہوگی وہی انجام دینگے۔ کبھی جنگ ذمہ داری ہے تو کبھی صلح، جیسا کہ پیغمبر اکرم ؐنے بدر و احد میں جنگ کی لیکن حدیبیہ میں صلح کی۔
پیغمبر اکرم ؐنے ایک روایت میں دونوں اماموں کے مستقبل کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: «الحسن و الحسین إمامان قاما أو قعدا؛ حسن اور حسین (ع) دونوں امام ہیں، چاہے قیام اور جنگ کریں یا صلح ۔» (علل الشرائع، ج ،1ص 211 )
جب امام حسینؐ امامت پر پہنچے تو اپنے بھائی حسنؐ کی طرح ۱۰سال معاویہ کے ساتھ صلح میں رہے اور معاویہ کے مرنے کے بعد ۶۱ ہجری میں یزید کے دور میں آپ نے جنگ کی۔اگر امام حسینؐ کاطریقہ امام حسنؑ سے الگ تھاتو امام حسنؑ کی شہادت کے بعد ۵۰ ہجری میں ہی آپ کو معاویہ کے خلاف قیام کرنا چاہیے تھا لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور ۱۰ سال صبر کیا یہاں تک کہ حالات بالکل بدل گئے اور یزید خلافت پر پہنچا اور امام ؑنے یزید کی بیعت سے انکار کردیا۔
چوتھا نکتہ:یہ سوال کہ امام حسنؑ کے پاس زیادہ تعداد میں سپاہی ہوتے ہوئے آپ نے صلح کیوں کی؟ لیکن امام حسینؑ نے تھوڑے اصحاب کے ساتھ جنگ کی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ: امام حسنؑ جب مدائن میں جنگ نہ کرنے پر مجبور ہوئے اور معاویہ کی تجویز کردہ صلح کو قبول کیا ۴۱ ہجری کا سال تھا اور واقعہ عاشورا اور اس واقعے میں ۲۰ سال کا فاصلہ ہے.
اس وقت یعنی ۴۱ہجری میں لوگ معاویہ کے اصل چہرے سے آگاہ نہیں تھے۔وہ اس دن خلافت رسولؐ کا دعوا دار تھا اور اس کی اہل بیتؑ سےجنگ مقتول خلیفہ کے دفاع کے لیے تھی۔ اگر امام حسنؑ ان حالات میں معاویہ سے جنگ کرتے اور شہید ہوجاتے تو لوگ یہ کہتے کہ معاویہ مجتہد تھا اور امام حسنؑ کے قتل بارے اس کا فتوا غلط تھا اور اجتہاد میں غلطی کا ایک ثواب ملتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ امام حسنؑ اور آپ کے اصحاب شہید ہوجاتے اور کوئی فائدہ بھی نہیں ہونا تھا ۔
لیکن جب امام حسینؑ نے قیام کیا ۲۰ سال گذر چکے تھے اور اس وقت تک معاویہ اور اس کی اولاد کے چہرے سے نقاب اتر چکا تھا اور لوگ معاویہ کوخلیفہ اور مجتہد نہیں سمجھتے تھے بلکہ لوگ معاویہ کو معاہدہ توڑنے والا سمجھتے تھے جس نے اپنے معاہدوں کے برخلاف اسلامی حکومت کو اپنے بندر باز اور شراب خوار بیٹے کے حوالے کردیاتھا۔ ایسے حالات میں امام حسین ؑاور آپ کے اصحاب کی شہادت نے عالم اسلام کو جھنجھوڑ دیا اور آپ کی شہادت کے بعد بنی امیہ کے خلاف مختلف تحریکیں فعال ہوگئیں اور جہاں کہیں پرچم مخالفت بلند ہوتا، لوگ اپنے آپ سے پوچھنے لگتے کہ ہم سے غلطی کہاں ہوگئی؟ نظام خلافت اس سرانجام تک کیسے پہنچ گیا کہ فرزند رسول اسلامی سرزمین کے مرکز میں اس طرح جانگداز اور دردناک حالت میں شہید ہوگئے؟ اس واقعے کے بعد امت کو رسول خداؐکے سامنے شرمندگی محسوس ہوئی ؟ اس حادثہ کو وجود میں لانے والے اسباب کیا تھے؟ کن لوگوں نے ہند جگرخوار کے بیٹے کو مسلمانوں پر مسلط کیا تھا کہ آج یہ سرانجام ہوا؟ امام حسن ؑ نے جب صلح کوتسلیم کیا تو اس وقت کے حالات کے میں یہ سب ممکن نہیں تھا۔
نتیجہ:
امام حسنؑ نے حکومت معاویہ کے حوالے نہیں کی۔ بلکہ یہ عوام تھے جنہوں نے امام ؑکو اکیلا چھوڑ دیا اور اس زبردستی صلح کے لیے راہ ہموار کی۔ جب امام حسینؑ کو امامت ملی، آپ ۱۰ سال معاویہ کے ساتھ صلح کی حالت میں رہے۔ صلح اور جنگ دو سیاسی اجتماعی مفہوم ہیں جو حالات اور شرائط کے تابع ہیں. حالات، شرائط ، زمان اور مکان پر حاکم ہوتے ہیں اور کبھی جنگ تو کبھی صلح پیش آتی ہے۔ لہذا ان دو طریقوں میں سے کسی ایک کو صحیح اور دوسرے کو غلط کہنا درست نہیں ہے بلکہ جنگ اور صلح ہر دو اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔

مزید مطالعہ کے لیے کتب
صلح الحسن؛ شیخ راضی آل یس؛
صلح الحسن؛ سید شرف الدین

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=16356