14

فلسطینی مزاحمت کی کامیابی کے گیارہ دن/ اسرائیل کے مسلسل زوال کا آغاز

  • News cod : 17682
  • 21 می 2021 - 16:14
فلسطینی مزاحمت کی کامیابی کے گیارہ دن/ اسرائیل کے مسلسل زوال کا آغاز
یوم ِ اسرائیل پر شروع ہونی والی جنگ کے خاتمہ کے بعد شجاع فلسطینی استقامت،مظلومانہ جدوجہد،شجاعت کا جشن منا رہے ہیں

تجزیاتی رپورٹ:توقیر کھرل

منظر بدل گیا ہے گیارہ دن پہلے صہیونی مسجد الاقصیٰ کے دوسری طرف یومِ اسرائیل کا جشن منارہے تھے۔ آج فلسطینی مسجد الاقصیٰ میں مِنی جنگ میں استقامت کا جشن منارہے ہیں۔
قارئین محترم !ارض، فلسطین میں جنگ بندی کا اعلان ہوچکا ہے اور فلسطینی عوام غزہ سمیت تمام علاقوں میں کامیابی کا اعلان کر رہے ہیں۔

بظاہر یہ مِنی جنگ تھی لیکن بڑی طاقت کے ساتھ بڑی شجاعت اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا گیا۔

آپ جنگ کے خلاف تھے یاحامی تھے بہرطور آپ کے خیال میں کس نے کتنا نقصان اٹھایا اور فتح یاب کون ہوا؟ غیر جانبدار اور حقائق کی بنیاد پرتجزیہ ضرور کریں۔

صہینونی اخبارات اور تجزیہ نگاروں کے مطابق فلسطینی مزاحمت نے اس مِنی جنگ میں بڑے پیمانے پر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
گیارہ روز کی جنگ میں دنیا کے سامنے بظاہر بڑی طاقت اسرائیل کی شکست و ریخت کوعبرت کا استعارہ بنا دیا گیا ہے۔

اسرائیل کو ناکامی کے آغاز کی طرف لایا گیا ہے یعنی ایک ایسی مسلسل ناکامی جس کی کامیابی کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے۔

حماس نے دنیا پر یہ بھی ظاہر کردیا کہ اسرائیل واقعی دہشت گردی کا اڈہ ،جارحیت پسند ہے جو سیکورٹی کے نام پر معصوم عوا م کا قتل ِ عام، الجزیرہ سمیت غزہ کے عوام اور عمارتوں پر حملے کرتا ہے ۔

شجاع فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ مسئلہ فلسطین کاحل صرف اور مزاحمت ہے فتح تحریک کا نعرہ کہ دو ریاستی حل کی طرف جایا جائے یہ بیانیہ بھی ناکام ہوا اور حماس کا نعرہ اور ہدف کہ فلسطین صرف اور فلسطینوں کاہے کامیاب اور کامران ہوا ہے۔

حماس نے گیارہ روز میں ایک طرف جہاں اسرائیل کو شکست سے دوچار کیا ہے وہاں فتح تحریک پر بھی آشکار کردیا ہے کہ مزاحمت ہی حل ہے۔

صہینونی تجزیہ نگاروں کے مطابق نیتن یاہو حکومت کی گمراہ کن حکمت عملی کے باعث جنگ گلیوں کے اندر تک گئی
وہ اسرائیل کو حزب اللہ اور ایران سے نبر آزماہونے کا دعویٰ کرتا تھا فلسطینیوں کے مزاحمتی گروہ کے آگے بے بس نظر آیا اور مقبوضہ علاقوں کو آسانی سے نشانہ بنایا ۔

گیارہ روز جنگ کی ایک کامیابی یہ بھی ہے کہ غاصب صہیونی اسرائیل کو شیخ جرح کے علاقوں میں فلسطینیوں کو ان کے گھر سے بے دخل کر رہی تھی اب اس جارحانہ عمل سے بھی رُک جائے گی اور یہ حماس کی طرف سے جنگ بندی کی بنیادی شرط بھی ہے ۔

صہینونی ریاست اسرائیل اور فلسطینی مزاحمت کے مابین 27رمضان المبارک کی شب کو جنگ کا آغاز ہواتھا ۔ اسرائیل کی جانب سے مشرقی بیت المقدس پر قبضے کا سالانہ جشن ‘یومِ یروشلم’ منانے پر قبل ہی علاقے میں کشیدگی جاری تھی۔ فلسطینی اور اسرائیلی پولیس کے مابین جھڑپیں ہوئی اور اسرائیلی پولیس نے نہتے فلسطینوں پر اسٹین گرینیڈ استعمال کیے

اور یوں گیارہ روزہ جنگ کا آغاز ہوا مسجد الاقصیٰ میں درختوں کو آگ لگائی گئی دوسری طرف یہودی اچھل اچھل کر یومِ اسرائیل کا جشن مناتے ہوئے مسلمانوں کو اشتعال دلارہے تھے یہ روز یہودیوں کے جشن کادن تھا

لیکن ان کی رسوائی کا سبب بنا گیارہ روز بعد منظر بدل گیا ہے۔

یوم ِ اسرائیل پر شروع ہونی والی جنگ کے خاتمہ کے بعد شجاع فلسطینی استقامت،مظلومانہ جدوجہد،شجاعت کا جشن منا رہے ہیں

فلسطینیوں کی استقامت نے ثابت کیا ہے کہ ارضِ فلسطین پر رہنے کا حق صرف اور فلسطینیوں کا ہے اور اپنی زمین ،آئیڈیالوجی اورہدف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

صہیونی ریاست جسے اپنے آئرن ڈوم پر بڑا مان تھا اس لوہے کی دیوار میں سوراخ ہوگیا۔ یہی وجہ ہے اسرائیل کے سب سے بڑی حامی امریکہ نے اسرائیل کو آئرن ڈوم کو مزید مضبوط کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

گویا اسرائیل کی مصنوعی اور افسانوی طاقت کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا ہے۔
گیارہ دن میں فلسطینی شہداء کی قربانیوں کی بدولت دنیا بھر سے مظلومین کی داد رسی میں آزاد خیال افراد نے غزہ کے حق میں صدائے احتجاج بلند کی اور دنیا بھر کے انسانوں نے بلا تفریق و مذہب فلسطینیوں کی حمایت کی یہ ایک بڑی تبدیلی ہے ۔
جو صرف فلسطینیوں کی استقامت اور شہداء کی قربانیوں کی بدولت حاصل ہوئی ۔

گیارہ دن امت مسلمہ کا کردار سب کے سامنے ہے مسلمانوں کا بچہ بچہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور کسی بھی قربانی کے لئے تیار نظر آیا

مگر بدقسمتی سے دوسری طرف قرار دادی مسلمانوں کی منافقت بھی آشکار ہوئی جنگ کے دوران اور بعد ازاں بھی ایران نے حماس کی مکمل حمایت کی اور ہر قسم کی مدد کی

اس جنگ کے دوران ایران اور مقاومتی طاقتوں کا کردار سب کے سامنے ہے باقی اردوغان اور دیگر زبانی جمع خرچ کرنے والوں کا بھی راز فاش ہوچکا ہے۔

دشمن سے نبرد آزما حماس نے کئی مرتبہ ایرانی مدد پر شکریہ اداکیا مگر دوسری امت مسلمہ کے نام نہاد رہنماوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی
کہ ہم مسلمان کمزور ہیں اور اسرائیل بری طاقت ہے مگر سلام ہو فلسطینی مزاحمت پر مظلومانہ جدوجہد سے استقامت کے سفر کو جاری رکھا ۔

حماس نے کیسے اسرائیل کی گلیوں تک جنگ پہنچا ئی یہ خود صہینیوں کے لئے بھی حیران کن تھا ۔

گیارہ روز کی جنگ میں اسرائیل مکمل طور پر بیانیہ کی جنگ بھی ہار چکا ہے۔

یہی وجہ ہے غزہ میں بزدلانہ کاروائی کرتے ہوئے الجزیرہ کا دفتر میزائل حملہ میں تباہ کردیا یہ دراصل صیہونیوں کی بوکھلاہٹ اور شکست کا اعلان تھا ۔

صیہیونیوں کی ناکامی کا اعتراف اسرائیلی اخبار اور پارلیمنٹ کے ممبران بھی کر رہے ہیں ۔

ہاریتز اخبار صہیونی کی سب سے مستند اخبار ہے اخبار کے ایڈیٹر ان چیف ایلوف بین نے اداریہ میں جنگ بندی سے ایک روز جنگ بندی کا مطالبہ کیا ۔

اداریے میں اسرائیلی فوج کے آپریشن پر تنقید کرتے ہوئے اسے ناکام ترین اور بے معنی کارروائی قرار دیا ۔

مزید لکھا کہ” غزہ میں جاری کارروائی کی وجہ سے اسرائیلی فوج کی تیاریوں، رویے اور ناکامیوں کا سلسلہ بے نقاب ہوگیا ہے اور اس کے پیچھے بے بس اور پریشانی کا شکار اسرائیلی حکومت اور اس کی قیادت ہے۔

ہم نے کئی سخت فوجی اور سفارتی ناکامیاں دیکھیں ہیں جن کی وجہ سے ہماری فوج کی تیاریوں اور کارکردگی میں پائی جانے والی کمی واضح ہو کر سامنے آئی ہیں اور ساتھ ہی یہ بات بھی کھل گئی ہے کہ اسرائیلی قیادت کنفیوژن کا شکار اور بے بس ہے۔

غزہ میں تباہی، بربادی اور موت پھیلا کر فاتحانہ تاثر پیش کرنے کی بیکار کوشش کرنے اور اسرائیلیوں کی زندگی تہس نہس کرنے کی بجائے وزیراعظم بن یامین نتنیاہو کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کریں ”

ایک اوراسرائیلی اخبار یدیعوت آحا رونوت نے لکھاکہ حکومت کو 2006 جنگ کے طرز پر کمیشن بنانا جو اس گیارہ جنگ کے پیچھے ناکامی پر اپنی رپورٹ پیش کرے۔اسرائیلی حزب اختلاف یایر لپید نے اسرائیلی وزیر اعظم پر کڑی تنقید کی ہے کہ نیتن یاہو کو جانا ہوگا ۔

نیتن یاہو کی ناکامیاں میرون،غزہ ،الاقصیٰ اور اللد تک پھیل چکی ہیں۔

مذہبی صہینوت پارٹی بِن کفیر نے کہا کہ جنگ بندی اصل میں حماس کی مرضی کے سامنے ہماری شکست ہے ۔

قارئین آخر میں یہ عرض کروں گا کہ مظلومین ایسے ہی فتح یاب ہوتے ہیں۔اپنی آئیڈیالوجی سے اپنی زمین سے اپنی فکر سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے ۔

عزت اور شجاعت کا راستہ ،مظلومانہ جدوجہد کا راستہ ہی کربلا کا راستہ ہے

۔فتح کا راستہ ہے۔گیارہ دن مسلسل ظلم و ستم کیا گیا مگر سلام ہو ہمارا فلسطین کی شجاع اور بہادر قوم پر کہ استقامت کے ساتھ دشمن کا دفاع کیا اور صہینیوں
کے غرور اور طاقت کے پہاڑ کو خاک میں ملا دیا۔

۔امت مسلمہ میں اکثریت یہ سمجھتی تھی کہ صہیونی ریاست کوئی بہت بڑی طاقت ہے مگر پوری دنیا نے دیکھا گیارہ دن فلسطینی عوام نے اپنے ہدف کا نشانہ بنایا اور ثابت کیا کہ ارضِ فلسطین صرف اور صرف فلسطینیوں کا ہے

یہاں پر رہنے کا حق صرف فلسطینیوں کو ہے اور مظلومانہ جدوجہد کرنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔

ارضِ فلسطین کو کامیابی و نصرت مبارک

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=17682