8

غیبت امام مہدی عج(قسط19)

  • News cod : 25088
  • 06 نوامبر 2021 - 17:07
غیبت امام مہدی عج(قسط19)
عمر بن حنظلہ ايک روايت نقل کرتے ہيں کہ علماء اسے قبول کرتے ہيں : لہذا وہ مقبولہ کے نام سے شہرت پاگئي اس روايت ميں امام صادق عليہ السلام سے شيعوں کي مشکلات اور مسائل ميں شرعي وظيفہ اور وہ کس طرف رجوع کريں,

سلسلہ بحث مہدویت
گذشتہ سے پیوستہ

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

کچھ اہم سوالات کے جوابات

سوال 6: امام زمانہ (عج) کے عام نائب حضرات سے مراد کونسے لوگ ہيں؟
جواب:
قران و حدیث کی رو سے ضروری ہے کہ اسلامي معاشرہ ديني احکام کے مطابق چلے ٬ لہذا اس کا سرپرست ايسا مسلمان ہونا چاہئے کہ جو ديني ماخذات اور احکام سے مکمل آگاہ ہو, تاکہ اسلامي قوانين کے مطابق معاشرہ کي راہنمائي کرسکے اور ايسا فرد سوائے فقيہ اور مجتہد کے کوئي اور نہيں ہوسکتا۔
اسحاق بن يعقوب کہتے ہيں: ميں نے امام زمانہ (عج) کے دوسرے خاص نائب( محمد بن عمري) سے چاہا کہ مسائل پر مشتمل ميرا خط حضرت کي خدمت ميں پہنچائيں اور ان سے جواب ليں.
تو جو خط اور توقيع حضرت سے صادر ہوئي اس ميں حضرت نے ان تمام مسائل کا جواب ديا اور مزيد فرمايا:
وَ اَمَّا الْحَوادِثُ الْوَاقِعَۃُ فَاْرجِعُوا فِيْھَا اِلَي رُواۃِ حَدِيثَنَا فَاِنَّھُمْ حُجَّتِي عَلَيْکُم وَ اَنَا حُجَّۃُ اللہ عَلَيْھِم.کمال الدین,ج2،باب 45،ح
اس توقيع ميں حضرت عج نے پيش آنے والے مسائل ميں فقہاء اور محمد و آل محمد کي احاديث کے علماء کي طرف رجوع کرنے کا حکم ديا ہے اور انہيں اپني طرف سے حجت قرار ديا ہے۔
عمر بن حنظلہ ايک روايت نقل کرتے ہيں کہ علماء اسے قبول کرتے ہيں : لہذا وہ مقبولہ کے نام سے شہرت پاگئي اس روايت ميں امام صادق عليہ السلام سے شيعوں کي مشکلات اور مسائل ميں شرعي وظيفہ اور وہ کس طرف رجوع کريں, پوچھا گيا. اس ميں امام سے نقل ہوا ہے:
ينظران من کان منکم ممن قد روي حديثنا و نظر في حلالنا و حرامنا احکامنا فليرضوا بہ حکما٬ فانّي قد جعلتہ عليکم حاکما٬ فاذا حکم بحکمنا فلم يتصل منہ ٬ فانما استخف بحکم اللہ و علينا ردّ والراد علينا الراد علي اللہ و ھو علي حدّ الشرک باللہ.وسائل الشیعۃ, ج3،ب11،ص140.
تم شيعوں ميں سے ہر ايک ان کي طرف ديکھے کہ جو ہماري حديثوں کي روايت کرتے ہيں ہمارے حلال و حرام ميں غور و فکر کرتے ہيں اور ہمارے احکام کو پہنچانتے ہيں پس اس کے حکم پر راضي ہوں ميں اس کو تم لوگوں پرحاکم قرار ديتا ہوں جب وہ ہمارے حکم کے مطابق حکم کرے اورجو شخص اسے قبول نہ کرے, بلاشبہ اس نے اللہ کے حکم کو حقير سمجھا اور ہميں ردّ کيا ہے اور جو ہميں ردّ کرتاہے اس نے اللہ کو ردّ کيا اور خدا کے ساتھ شرک کي حد ميں ہے۔
حلال و حرام سے آگاہ فرد سے مراد فقيہ ہے کہ جو احاديث و روايات ميں غور و فکر کے ساتھ دين کے احکام سے آشنا ہوتاہے .امام صادق عليہ السلام ايسے فرد کو شايستہ سمجھتے ہيں اور لوگوں پر اس کي طرف رجوع کرنے اور اس کا حکم قبول کرنا لازم قرار دے رہے ہيں اور اسے حاکم قرار دے رہے ہيں۔
امام علي عليہ السلام پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي زبان مبارک سے نقل کرتے ہيں:
اللھم ارحم خلفائي ثلاثاً ٬ قيل: يا رسول اللہ و من خلفائک؟
قال: الذين يأتون بعدي يروون حديثي و سنتي .
پروردگارا ميرے خلفاء پر رحم فرما يہ جملہ تين بار تکرار فرمايا: پوچھا گيا: اے رسول خدا آپ کے خلفاء کون ہيں؟
فرمايا: جو ميرے بعد آئيں گے اور ميري حديث و سنت کو نقل کريں گے۔
خليفہ کا معني واضح ہے يعني پيغمبر کا جانشين اور ايسافرد جو ان کے بعد ان کے مقام پر قرار پائے گا اور ان تمام امور کو سنبھالے گا کہ جو پيغمبر انجام ديتے تھے يعني معاشرے کي سرپرستي اور رہبري البتہ اس ميں وہ خصوصيات اور صفات کہ جو ذات پيغمبر کا خاصہ ہيں ٬ نہيں ہيں۔ يعني وحي کا حصول اور ابلاغ وغيرہ۔
يہاں اہم ترين اور قابل توجہ نکتہ يہ ہے کہ حضرت نے اپنے جانشين کي سب سے بڑي خصوصيت کي طرف اشارہ کيا کہ وہ ان کي حديث و سنت کا راوي اور دين کے احکام سے آشنا ہے تو اس روايت کي روشني ميں صرف اسلام شناس اور فقيہ ہي معصوم کي نيابت کا لائق ہے۔

سوال 7:غيبت صغري کا دور ہي کيوں آگے نہ بڑھا اور ہمارے زمانہ ميں نائب خاص کيوں نہيں ہے ؟
جواب:
روايات ميں غور وفکر کرنے سے يہ بات واضح ہوجاتي ہے کہ غيبت ناگريز تھي اور غيبت سے مراد امام کا لوگوں کے درميان بظاہر موجود نہ ہونا اور لوگوں کا ان تک نہ پہنچنا ہے کہ جو در اصل غيبت کبري ہے ۔
لہذا غيبت صغري ايک عارضي پروگرام تھا شيعوں کو حقيقي غيبت کے زمانہ ميں داخل ہونے کے لئے تيار کيا جائے ۔ غيبت صغري کے مندرجہ ذيل اھداف تھے:

(١) ۔امام کے وجود کااثبات:
امام حسن عسکري عليہ السلام کے زمانہ کے حالات کے پيش نظر امام مہدي عليہ السلام کي ولادت مخفي صورت ميں انجام پائي۔
واضح رہے کہ اس حالت ميں شيعہ حضرات ان کي ولادت سے آگاہ نہ ہونے کي وجہ سے مشکلات اور فکري اضطراب کا شکار ہوتے ٬ تو يہاں امام کے خاص نائب کا وجود کہ جو امام اور لوگوں کے درميان رابطہ تھا اور لوگوں کے خطوط امام کے حضور پہنچاتا تھا اور ان سے جواب ليتا تھا کہ يہ خود امام کے وجود پر محکم دليل تھي۔

(٢)۔ علماء کي مرجعيت کا اثبات:
غيبت صغري کے دور ميں يہ فرصت مہيا ہوئي ہے کہ لوگ غير معصوم شخص کو اپنا سرپرست قبول کريں اور اپنے امور ميں اس کي طرف رجوع کريں دوسرے لفظوں ميں يہ زمانہ شيعوں کي تربيت کا مختصر سا دور تھا کہ جس ميں وہ امام کو نہ ديکھنے اور اس کے جانشين کي مکمل اطاعت کي عادت پيدا کريں اور اس کي بات کو امام کي کلام کي مانند قبول کريں۔

(٣)۔آخري راہنمائي:
نائب خاص کے وجود نے يہ فرصت فراہم کي تھي کہ شيعہ لوگ خطوط کے ذريعے عقائد اور فقہي احکام کے بارے ميں جديد ترين سوالات پوچھيں اور امام بھي اپنے پيغامات اور احکامات لوگوں تک پہنچائيں اور ان کي ضرورت کے مطابق آخري حد تک ارشادات اور راہنمائي سے نوازے۔

(٤)۔غيبت کے لئے مکمل آمادگي کہ اس کي بحث گزرچکي ہے۔
(جاری ہے…..)

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=25088