8

حضرت نرجس علیہا السلام، قسط 4

  • News cod : 25681
  • 23 نوامبر 2021 - 9:04
حضرت نرجس علیہا السلام، قسط 4
اسی طرح مسلمانوں اور روم کے درمیان جنگ پر بہت سے شواہد موجود ہیں ۔ لہذا اگر آپکی مراد یہ ہو کہ ایک بڑی جنگ برپا ہوئی ہو کہ جس میں قیصر روم یا اسکے خاندان کے بعض افراد موجود ہوں تو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔

سلسلہ بحث محور کائنات

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

روایت کی سند اور دلالت پر وارد ہونے والے اعتراضات :
یہاں ہم ان اعتراضات میں سے بعض کو نقل کرتے ہیں اور مقتضائے حال کے مطابق ان کا تجزیہ کرتےہیں:
پہلا اعتراض:یہ ماجرا (امام زمانہ علیہ السلام کی والدہ گرامی حضرت نرجس خاتون کی خریداری )۲۴۲ ھجری کے بعد پیش آیا حالانکہ ۲۴۲ ھجری کے بعد مسلمانوں اور رومیوں میں کوئی اہم جنگ نہیں ہوئی کہ حضرت نرجس خاتون مسلمانوں کی اسارت میں آئیں۔ ( تاریخ سیاسی، امام دوازدھم ، جاسم حیسن، تھران، انتشارات کبیر، ص ۱۱۵)
جواب: اسی زمانہ میں اور اس کے بعد ان دونوں حکومتوں کے درمیان جنگیں برپا ہوئی ہیں کہ بہت ساری تاریخی کتب ان کے نمونے اور مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ( تاریخ الامم و الملوک ، محمد بن جریر طبری، ج ۹، ص ۲۰۱، ۲۱۰، ۲۱۹، البدایۃ والنہایۃ، ابن کثیر، ج ۱۰، ص ۳۲۳،)
بعنوان مثال تاریخ الاسلام میں آیا ہے :
اغارت الروم علی من بعین زربۃ۔۔۔۔
ایک اور مقام پر آیا ہے :
افتتح بغا حصنا من الروم یقال لہ صملۃ (تاریخ الاسلام، و وفیات المشاھیر، ص ۱۲، حوادث سال ۲۴۱ تا ۲۴۵)
عظیمی اظھار کرتےہیں :
غزا بغا من طرسوس ثم الی ملطیۃ و ظفر بلائع الروم ( تاریخ الاسلام، و وفیات المشاھیر و الاعلام، شمس الدین ذھبی، بیروت ، دارالکتب العربی، ص ۶، حوادث، سال ۲۴۱۔)
اسی طرح مسلمانوں اور روم کے درمیان جنگ پر بہت سے شواہد موجود ہیں ۔
لہذا اگر آپکی مراد یہ ہو کہ ایک بڑی جنگ برپا ہوئی ہو کہ جس میں قیصر روم یا اسکے خاندان کے بعض افراد موجود ہوں تو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔
کیونکہ جو کچھ اس روایت میں آیا ہے ( البتہ ہم نے اختصارکے پیش نظر ذکر نہیں کیا ) بالخصوص یہ نکتہ ہے کہ حضرت نرجس، امام کے حکم کی بناء پر ناشناس اور مخفی انداز میں سپاہیوں کے ہمراہ ہوئیں اور کنیزوں کے لباس میں آئی تھیں.
دوسرا اعتراض:
یہ اعتراض در حقیقت کوئی علمی اور معیاری اعتراض نہیں ہے بیشتر تخریبی جنبہ رکھتا ہے ۔ اس اعتراض کا مضمون یہ ہے کہ:
آپ جانتےہیں کہ کیوں بعض اس روایت کو اہمیت دیتے ہیں اور اسکی دلالت پر اعتراض نہیں کرتے اور اسے قبول کرتےہیں؟ کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ حضرت نرجس کے لئے عظیم مقام قرار دیں اور انہیں با شرف خاندان یعنی والد کی طرف سے روم کا بادشاہ اور والدہ کی جانب سے شمعون ( حضرت عیسی ؑ کے مشہور حواری ) سے نسبت دیں اس طرح حضرت مہدی عج کو والد اور والدہ دونوں جانب سے اعلی خاندان سے منسوب کریں۔ ( تاریخ سیاسی امام دوازدھم، ص ۱۱۵)
جواب :
حقیقت میں ہمیں اعتراض کرنے والے سے شکوہ ہے کہ اس نے بغیر کسی معیار اور قانون کو دیکھتے ہوئے شیعہ علماء پر حملہ کیاہے اور ان کی شخصیت کو مورد سوال قرار دیا ہے ۔
در واقع یہ شخص علماء پر عوامانہ سوچ رکھنے کی تہمت لگارها ہے اور کہا کہ اپنے اور عوام کی رضایت کے لئے اس روایت کو قبول کرتے ہیں اور علمی اور اصولی معیار پر رائے نہیں دیتے ہیں۔
یہ بات غلط ہے اگر آپ کا مقصود یہ ہوکہ ان وضاحتوں کے ساتھ یہ ماجرا نقل کرنا اس زمانہ میں حقیقت کی نسبت افسانہ سے زیادہ مشابہ ہے تو اسکے جواب میں کہیں گے :
یہ بات بھی اس روایت کو چھوڑنے کی دلیل نہیں بن سکتی ، کیونکہ جب ہم نے روایت کی سند کے بارے میں بحث کی اوراس میں بنیادی مشکل نہیں دیکھتے اور اسی ماجرا کے واقع ہونے کے امکان کو اس زمانہ کے تاریخی حالات بھی رد نہیں کرتے تو کیا مشکل ہے کہ یہ واقعہ اپنی تمام تفصیل کے ساتھ واقع نہ ہو؟
مزید یہ کہ ہمارے پاس بہت سی روایات ہیں اور اس میں بیان ہونے والے مسائل اس روایت سے کہیں زیادہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔
یہ دو اہم ترین اعتراض تھے کہ جو اس روایت کی دلالت پر وارد ہوئے ہیں.
مزید دو اعتراض اور بیان کرتے ہیں کہ جو بیشتر سندی جنبہ رکھتے ہیں۔
پہلا اعتراض
اگر یہ روایت صحیح ہو تو شیبانی کے بعض دوسرے ہم عصر مثلا نو بختی، قمی ( ابن خزاز ) کلینی اور مسعو دی نے اس ماجرا کو کیوں نہیں نقل نہیں کیا ؟
جواب:
ان افراد سے یہ ماجرا نقل نہ ہونا سند کے ضعیف ہونے پر دلیل نہیں ہے۔ ہاں اس صورت میں ان کا نقل نہ کرنا ضعیف ہونے پر دلالت ہوتا کہ جب یہ صرف معتبر روایات لانے کا شیوہ رکھتے۔
حالانکہ ان کا شیوہ اور روش یہ نہیں ہے مسعودی نے اثبات الوصیۃ میں حضرت مہدی عج سے مربوط احادیث پر صرف ساڑھے چار صفحے بحث کی ہے۔
اگر آپ یہ کہیں کہ مسعودی نے کہا ہے کہ میں موثق افراد سے نقل کرتا ہوں تو یہ بات بھی مشکل کو حل نہیں کرتی اگر ایسا بھی ہو تو اس کی رائے میں شیبانی ضعیف ہے حالانکہ علم رجال ایک نظری علم ہے اس کے مد مقابل دیگر افراد اور آراء رکھتے ہیں۔
اس کو نقل نہ کرنے میں ایک اور احتمال بھی ہے اور وہ یہ کہ وہ اس ماجرا سے مطلع نہ ہوا ہو۔ کیونکہ اس دور میں رابطے آج کے زمانہ کی نسبت بہت کم تھے اسی لئے اس کے اس واقعہ سے مطلع نہ ہونے کا احتمال بعید نہیں ہے ۔
دوسرا اعتراض
کشی اس کے ہم عصر ہیں اور کہتے ہیں : شیبانی غالی ہے اور غلو کرتے ہیں۔ نجاشی اور ابن داود بھی اسے غالی جانتے ہیں لہٰذا یہ روایت محکم سند نہیں رکھتی .( تاریخ سیاسی امام دوازدھم، ص۱۱۵، مرحوم صدر نے کتاب تاریخ الغیبۃ الصغری کے ص ۲۵ پر دیگر اعتراضات اور ان کے جوابات ذکر کئے ہیں کہ ہم اختصار کے پیش انہیں نقل نہیں کرتے۔)
جواب:
ان کے حالات کے بارے میں ہم نے ایک تفصیلی بحث کی ہے۔ اور واضح کیا ہے کہ آقای مامقانی نے نجاشی سے نقل کیا ہے کہ خود انہوں نے اسے غالی نہیں کہا ہے: ” قال بعض اصحابنا ”
لہذا نجاشی کی یہ رائے نہیں ہے بلکہ انہوں نے کہا ہے ” وحدیثہ قریب من السلامۃ “.
جہاں تک آپ کا ابن داود کے بارے میں کہنا ہے کہ انہوں نے کہا ہے : شیبانی غالی ہے جیسا کہ نقل ہوا ہے کہ انہوں نے صرف انہیں اپنی رجال کے دوسرے حصہ میں ذکر کیاہے اور سکوت کیا ہے۔ اور اسے غالی شمار کیا ہے، یہ نسبت ابن داود کی طرف نہیں دی جا سکتی۔
مزید یہ کہ بہت سے علماء نے ان کی تائید کی ہے اور ان پر غلو کی تہمت کو رد کیاہے جیسا کہ ان کی بعض آراء کا ذکر کیا گیاہے ۔
️مامقانی کی تائید
وہ مطلب کہ جسے شیخ صدوق نے کمال الدین میں محمد بن بحر کی تالیف ” کتاب تفضیل الانبیاء و الآئمۃ علی الملائکۃ ” میں تفصیل کے ساتھ نقل کیاہے ان سے غلو کی تہمت کو جھٹلاتا ہے ۔
وہ آخر میں کہتے ہیں ” حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ تمام مخلوقات جن ، انس اور ملائکہ میں برتر مخلوق ہیں ۔ اس تعبیر سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے مخلوق ہیں اور یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے اور یہ رائے غلات کے برعکس ہے کہ جو نبی اور آئمہ کو قدیم جانتے ہیں. اور ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی ان میں حلول کرتا ہے ( نعوذ باللہ )
مندرجہ بالا عبارت گواہ ہے کہ وہ غالی نہیں ہے۔
لہذا محمد بن بحر کے غالی ہونے سے مراد آئمہ طاھرین کا دوسروں پر برتری رکھنا اور مقام و مرتبہ میں بلند اور عظیم ہونا ہو سکتا ہے اور واضح سی بات ہے کہ یہ بات آج مذھب شیعہ کی ضروریات میں سے شمار ہوتی ہے ۔
اس ترتیب سے ان کی طرف غلو کی یوں نسبت دینا کہ ان کی مذمت کا باعث ہے بظاہر غلط ہے ۔ ( تنقیح المقال، ج ۲، ص ۸۶)
جو کچھ بیان ہوا ہے اس روایت پر وارد ہونے والے اعتراضات کے کچھ نمونے تھے ۔
جیسا کہ ملاحظہ کیا گیاہے کہ یہ اعتراضات وارد نہیں ہیں ان بحثوں کو دیکھتے ہوئے کہ جو اس روایت کی سند میں بیان ہوئی ہیں دوسری طرف دلالت میں بھی کوئی مشکل نظر نہیں آتی اس سے بھی چشم پوشی نہیں ہو سکتی بلکہ اس ماجرا کا حضرت نرجس ؑ کے حالات کے حوالے سے دیگر احادیث کی نسبت صحیح ہونے کا احتمال زیادہ اور حقیقت کے قریب ہے ۔
جاری ہے.

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=25681